ہم کس طرف جارہے ہیں؟
ہمارے بڑے اکثرکہاکرتے تھے کہ سچ جب تک آتاہے تب تک جھوٹ نے کئی کئی گاؤں اوردیہات اجاڑدیئے ہوتے ہیں مطلب سچ کے آنے یاپہنچنے سے پہلے جھوٹ اپناکام تمام کرچکاہوتاہے۔ ایساایک دونہیں ہزاربلکہ لاکھ بارہواہوگا اوراب بھی روزانہ کی بنیادپراس دنیامیں ہورہاہے۔ کسی کویقین نہ آئے تولاہورکے حالیہ واقعہ کوہی دیکھ لیں۔ سچ آنے سے پہلے اس واقعہ کے نام پراس ملک میں کیاکچھ نہیں ہوا؟
ایک جھوٹے اورفرضی واقعے کے نام پرپوری قوم اورملک کودنیاکے سامنے جس طرح تماشابنایاگیاوہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس مصنوعی واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیاپرتوجھوٹ اورکذب کی کوکھ اورفیکٹریوں سے جنم لینے والی پوسٹوں سے ایساتاثردیاگیاکہ جیسے ملک کے تعلیمی اداروں میں بنت حواکی عزت وناموس کی نیلامی کے سواکچھ ہوتاہی نہ ہو۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ، منافقت اورغلط بیانی یہ توسالوں نہیں صدیوں سے یہاں عام ہے لیکن جدیدسائنس کی ایجادکردہ اس ایک ایک چھٹانگ والے موبائل، انٹرنیٹ اورسوشل میڈیانے اس ملک اورمعاشرے میں جھوٹ کے کالے گھوڑے میں جس طرح نئی روح پھونک دی ہے وہ صرف خطرناک نہیں بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔
ماناکہ موبائل، انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکے ایک دونہیں بہت سے فوائدہیں لیکن معذرت کے ساتھ یہ فوائدان کے لئے ہیں جن کوالف اورب کاکوئی پتہ ہو۔ یہ فوائدان لوگوں اورمعاشروں کے لئے ہیں جہاں جہل اورابوجہل نہیں بلکہ عقل، شعوراورتعلیم کاراج ہو۔ ایساملک اورمعاشرہ جہاں اکثریت ہی کاپی پیسٹ اورجاہلوں کی ہووہاں اس موبائل، انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکے فوائدکم اورنقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ موبائل، نیٹ اورسوشل میڈیاپلیٹ فارم صرف ہمارے ملک میں نہیں باقی دنیامیں بھی ہیں لیکن یہاں ان کے ذریعے جس طرح چھوٹی چھوٹی اورجھوٹی باتوں، افواہوں وپراپیگنڈوں پرروزانہ قیامت برپاکرکے آسمان سرپراٹھایاجاتاہے ایساکسی اورملک میں نہیں ہوتاہوگا۔
جہاں تعزیتی پوسٹوں اورپیغامات پرکمنٹس میں الحمداللہ، سبحان اللہ اورماشاء اللہ لکھاجاتاہواوردل والے لائکس دیئے جاتے ہوں۔ جہاں موبائل ونیٹ پرپڑھنے اورشیئرکی جانے والی پوسٹ اورپیغام کاپڑھنے وشیئرکرنے والے کوخودیہ پتہ نہ ہوکہ وہ کیاپڑھ رہاہے یاکیاشیئرکررہاہے تو ایسے ملک اورایسے معاشرے میں ان سہولیات کے فوائدکم اورنقصانات پھر زیادہ ہی ہوں گے۔ ایسے ممالک اورمعاشروں میں موبائل، نیٹ اورسوشل میڈیاسے امن، ترقی اورسکون نہیں پھر تباہی اوربربادی ہی آسکتی ہے۔ اس ملک اورمعاشرے میں موبائل، نیٹ باالخصوص سوشل میڈیاپرمکمل طورپران پڑھ اورپڑھے لکھے جاہلوں کاقبضہ ہے۔
فیس بک اوریوٹیوب سمیت کوئی بھی سوشل میڈیاپلیٹ فارم کھول کردیکھیں توہرطرف جھوٹ، فریب، منافقت، تباہی اوربربادی کاایک طوفان اٹھتا دکھائی دے گا۔ ایسی افواہیں، جھوٹ اورپراپیگنڈے ان پلیٹ فارم پرچل رہے ہوتے ہیں کہ جسے دیکھ اورسن کرانسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ جوکام زمین پرہواہی نہ ہووہ بھی آپ کوسوشل میڈیاپربریکنگ نیوز، چیخ وپکاراورمرچ مصالحوں سمیت دکھائی دے گا۔
سوشل میڈیاکوملک وملت کے خلاف ہتھیارکے طورپراستعمال کرنے والے اخلاق، شرافت اورشرم وحیاسے دورشیطان کے چیلوں سے ان پلیٹ فارمزپرکوئی محفوظ نہیں۔ یہ نہ زندہ انسانوں کوچھوڑتے ہیں اورنہ یہ مرنے والوں کوبخشتے ہیں۔ ہرشریف اورباعزت انسان ان کے نشانے پرہوتاہے۔ اپنے ویووز، لائکس اورکمنٹس بڑھانے کے چکرمیں یہ اخلاق اورانسانیت کی تمام حدیں پارکردیتے ہیں۔ یہ چندسیکنڈمیں اچھے بھلے شریف اورعزت دارشخص کوبھی دنیاکے سامنے کنجرکے طورپرپیش کردیتے ہیں۔ اپنی واہ واہ کروانے کے لئے یہ زندہ انسانوں کومردہ ثابت کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
ایک نہیں کئی بارایساہوچکاہے کہ شیطان کے یہ چیلے اپنے سوشل میڈیاچینلزسے کسی شخص یاشخصیت کے مرنے کی خبربریکنگ نیوزکے طورپرایسے چلادیتے ہیں کہ جیسے یہ ابھی اس کوکلمہ پڑھاکے آئے ہوں۔ لیکن سچ اورحقیقت میں وہ شخص زندہ ہوتاہے اوروہی شخص پھرخودکوزندہ ثابت کرنے کے لئے نہ صرف اسی سوشل میڈیاپردہائیاں دیتاپھرتاہے بلکہ کئی توہاتھ تک جوڑکرشیطان کے ان چیلوں کی شرسے پناہ مانگتے ہیں۔
سوشل میڈیاپرکاپی پوسٹوں اورجھوٹ کی کثرت نے ملک اورمعاشرے کوتباہ کرکے رکھ دیاہے۔ آج کے نوجوانوں اورطلبہ کواب یہ تک معلوم نہیں کہ سچ کسے کہتے ہیں اورجھوٹ کیاہے؟ سوشل میڈیاکوآنکھیں بندکرکے استعمال کرنے کی وجہ سے سچ اورجھوٹ میں فرق تقریباختم ہوکررہ گیاہے۔ پہلے زمانے میں کوئی بات آگے شیئرکرنے یاکسی اورکوبتانے سے پہلے کئی طریقوں سے اس کی تصدیق اورتفتیش کی جاتی تھی پھر بات اگرسچ ہوتی توتب وہ آگے شیئرکی جاتی لیکن اب فیس بک، ٹوئٹراوریوٹیوب سمیت سوشل میڈیاکے دیگرچینلزوپلیٹ فارم پرجوکچھ سامنے آتاہے وہ سچ ہویاجھوٹ؟
لوگ اس کی تصدیق اورتفتیش کئے بغیراسے دھڑادھڑایسے آگے شیئرکرتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑے ثواب کاکام ہو۔ جہلاکی انہی حرکتوں نے پوری قوم کوعذاب میں مبتلاکردیاہے۔ معاشرے میں ہرطرف سنسنی اوربے چینی ہے۔ سوشل میڈیااب وہ بے لگام گھوڑابن چکاہے۔ جوکسی بھی وقت کسی پردوڑکراسے پاؤں تلے روندسکتاہے۔ اس سے کوئی چھوٹامحفوظ ہے اورنہ کوئی بڑا۔ اس سے عام بچاہے نہ خاص۔ اب تویہ ایک فتنے کی شکل اختیارکرگیاہے۔ وہ کونساگناہ، جھوٹ، دجل اورفریب ہے جواس میڈیائی گھوڑے کے ذریعے نہیں ہوتا۔ قومی لیڈراورمذہبی رہنماء کیا؟ ملک کی سلامتی اورقومی اداروں تک کومعاف نہیں کیاجاتا۔
منظم سازش اورمنصوبے کے تحت ہرشخصیت اورادارے کواس پرنشانہ بنایاجاتاہے۔ وہ گناہ اورجرائم جوحقیقت میں ہوئے ہی نہ ہوں۔ سوشل میڈیاکے ذریعے وہ بھی دوسروں کے کھاتے اورگلے میں ڈال کرایسی فضاء قائم کی جاتی ہے کہ لوگ پھراس جھوٹ کو بھی سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ سوشل میڈیاکے ذریعے اخلاقی اقدارتباہ ہونے کے ساتھ اوربھی بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لے چکی ہیں۔ وقت آگیاہے کہ سوشل میڈیاکے اس فتنے سے ملک وقوم کوبچانے کے لئے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔
فیس بک، یوٹیوب اورٹک ٹاک سمیت دیگرسوشل میڈیاپلیٹ فارم وچینلزکے ذریعے جس طرح بے حیائی، جھوٹ، فریب، بداخلاقی اوردیگرگناہ، مسائل اورجرائم فروغ پارہے ہیں یہ اس ملک اورمعاشرے کے لئے زہرقاتل ہیں۔ ان خرافات پراگراب قابونہ پایاگیاتومستقبل میں تباہی اوربربادی کے اس طوفان کوروکناہرگزآسان نہ ہوگا۔
آج کچھ کچھ لوگ اورچندادارے اس کے نشانہ ہوں گے لیکن کل کواس آگ اورطوفان سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس لئے جتنی جلد اس طوفان کے آگے بندباندھاجائے اتناہی اس میں ملک وقوم اورمعاشرے کافائدہ اوربچاؤہے ورنہ پھرہاتھ ملنے اورہائے ہائے کرنے کے سواکوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔