فائنل کال
چوبیس نومبرآج پی ٹی آئی کی فائنل کال ہے۔ اللہ کرے کہ یہ فائنل کال ایک کال ہی ہو ملک وقوم کے لئے وبال نہ ہوکیونکہ اس سے پہلے نومئی کواس طرح کی ایک کال پرملک وقوم کاجو نقصان ہواوہ آج تک پورانہیں ہوسکا۔ ہماری تودعاہے کہ یہ فائنل کال فائنل ہی ہوتاکہ اس کے بعد عوام کچھ چین اورسکھ کاسانس تو لے سکیں۔
پی ٹی آئی کی یہ کال توپورے ملک کے لئے ہے لیکن ویسے الیکشن 2024کے بعدجب سے خیبرپختونخوامیں تیسری بار تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے تب سے اب تک یہاں کام شام کے بجائے اس طرح کے کالوں پرکالز کاسلسلہ ہی چلاآ رہاہے۔ باقی صوبوں میں حکمران عوامی فلاح اورترقی کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن کے پی کے میں پی ٹی آئی اورکپتانی فلاح سے آگے کوئی سوچ ہے اورنہ کوئی بات۔ وہ نوازشریف جسے کپتان اورپی ٹی آئی کے کھلاڑی چوراورڈاکوکہتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اس نوازشریف کی بیٹی نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں پنجاب کے اندرعوامی فلاح اورترقی کے اتنے کام کردیئے ہیں کہ اپنے کیا غیر اور دشمن بھی آج واہ واہ کر رہے ہیں۔
پنجاب کے جن علاقوں میں سکول نہیں تھے وہاں سکول بن رہے ہیں اورجن تعلیمی اداروں میں اساتذہ اورسہولیات کی کمی تھی ان میں وہ کمی پوری کی جارہی ہے۔ جہاں ہسپتال نہیں تھے وہاں ہسپتال اورہیلتھ یونٹ بنائے جارہے ہیں اورجوہسپتال اورہیلتھ یونٹ پہلے سے موجودتھے انہیں جدیدسہولیات سے آراستہ کردیاگیاہے یاکیاجارہاہے۔ ہمارے والے ان حکمرانوں نے ایک صحت کارڈپرگیارہ سال سے پوراآسمان سرپراٹھایاہواہے اوراس گناہ گارنوازشریف کی بیٹی نے محض ایک سال میں، صحت کارڈ، کسان کارڈسمیت نہ جانے عوام کی فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لئے کتنے قسم کے کارڈز متعارف وجاری کر دئیے ہیں۔ ہماری سڑکوں پر تو گدھے بھی نہیں چلتے جبکہ شریف خاندان نے پورے پنجاب میں موٹرویزے اورعام شاہراہوں کا جال بچھادیاہے۔
نوازشریف کی بیٹی نے اپنے باپ اور چچاکی طرح ساری توجہ ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی پرمرکوز کردی ہے جبکہ ہمارے والے حکمرانوں کوجیل میں بیٹھنے والے "بادشاہ سلامت" سے توجہ اورنظریں ہٹانے کی فرصت نہیں۔ خیبرپختونخوامیں پی ٹی آئی کو حکمرانی کرتے ہوئے تقریباً گیارہ سال ہوگئے ہیں۔ گیارہ سال میں لوگ زمین سے آسمان پرپہنچ جاتے ہیں مگر خیبر پختونخواکے عوام آج بھی وہیں پر ہیں جہاں پریہ گیارہ سال پہلے تھے یہ توگیارہ سال میں زمین سے آسمان پر جانے کے بجائے صوبائی حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اورحکمت عملی کی وجہ سے اسی زمین میں دھنستے جارہے ہیں۔
اگرٹھنڈے دل ودماغ سے سوچااورانصاف کی نظروں سے دیکھاجائے توان گیارہ سالوں میں تحریک انصاف نے خیبرپختونخواکے اندر ایساکوئی کام کیاہی نہیں جسے دیکھ کردل خوش اورفخرمحسوس ہو۔ صوبے کے اندرتعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور شاہراہوں کی جوحالت گیارہ سال پہلے تھی وہ آج بھی پہلے سے ہرگزمختلف نہیں بلکہ پہلے سے بھی بدترہے۔ صوبے کے اندرنہ توکوئی قابل قدراورتاریخی ہسپتال بنا اور نہ کوئی جدیدماڈل کا کوئی سکول، کالج اوریونیورسٹی تعمیر ہوئی۔
گیارہ سال بعدبھی صوبے کے اکثر اضلاع کے ہسپتالوں اورسکولوں میں ڈاکٹروں وٹیچروں کی اہم اوربنیادی پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔ لوگ سہولیات کی عدم فراہمی اورعدم دستیابی کی وجہ سے روزذلیل وخوارہورہے ہیں لیکن کسی کوکوئی پرواہ نہیں۔ بٹگرام، کوہستان اور شانگلہ سمیت کئی اضلاع کے لوگ آج بھی تعلیمی اورطبی سہولیات کے لئے دربدرکی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ پسماندہ اضلاع میں عوام کے لئے صحت وتعلیم سمیت سہولیات کاتونام ونشان نہیں۔
کسانوں اورکاشتکاروں سمیت صوبے کا ہر طبقہ مسائل کاشکارہے۔ کپتان اوران کے کھلاڑیوں نے عوام کو ترقی، خوشحالی، انصاف اورانقلاب کے جوسپنے اورخواب دکھائے تھے وہ آج بھی سپنے اورخواب ہی ہیں۔ پی ٹی آئی حکمرانوں نے ان گیارہ سالوں میں صوبے کے اندر سکولز اور ہسپتالوں سمیت دیگرسرکاری اداروں میں منیجر، کورآرڈینیٹر، سپروائزر، مانیٹراورکیپٹن جیسے عہدے تخلیق کرکے ان پربھاری تنخواہوں اورمراعات پرمن پسند افسروں پرافسرتورکھ لئے لیکن ان افسروں سے اداروں میں کوئی بہتری آئی اور نہ عوام کو کوئی فائدہ پہنچا۔
پہلے ایک دوافسرپورے ادارے کانظام سنبھالتے تھے لیکن اب افسروں پرافسربننے کے باوجود اداروں کاکوئی حال نہیں۔ جس شعبے اور ادارے کوبھی دیکھاجائے وہ اپنی تباہی اوربربادی کی کوئی الگ دستان سنائی دے رہا ہوتاہے۔ صحت کارڈکے نام پرخزانے سے بھاری سرمایہ نکلنے کے باوجودعوام کوصحت کی مناسب سہولیات نہیں مل رہی۔ لوگ علاج معالجے کے لئے اب پہلے سے زیادہ خوارہورہے ہیں۔ دور دراز اور سائیڈ کے اضلاع میں قائم ہسپتالوں میں نہ ڈاکٹرز ہے اورنہ دیگرضروری سہولیات۔ لوگ معمولی معمولی آپریشن اورعلاج کے لئے دوسرے اضلاع اور شہروں کے چکرلگانے پرمجبورہیں۔ گیس، بجلی اور پانی کے مسائل میں تویہاں کے عوام برسوں سے ڈوبے ہوئے ہیں جبکہ بیروزگاری بھی یہاں عام ہے۔
کپتان کے کھلاڑی اورصوبائی حکمران ایک نہیں ہزارباراپنے کپتان کی رہائی کے لئے فائنل کال دیں اوراللہ کرے کہ کپتان کل نہیں آج ہی رہاہوں لیکن کاش گیارہ سال عوام پرحکمرانی کرنے والے حکمران اورکھلاڑی ایک فائنل کال یہاں کے عوام کے لئے بھی دیتے۔ پسماندگی، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سمیت عوام کوسالوں سے درپیش دیگر مسائل کواگرگیارہ سالوں میں ایک باربھی فائنل کال ملتی توشائدکہ آج عوام کے حالات اس سے مختلف ہوتے۔ گیارہ سالوں میں پی ٹی آئی کے تین وزیراعلیٰ یہاں آئے پرکسی ایک نے بھی عوامی مسائل کے حل کے لئے کبھی فائنل کیا؟ عام کال بھی نہیں دی۔
پرویزخٹک ہوں یامحمودخان سب اپنی سیاست چمکانے اوراپنے اپنے کھیل کھیلنے میں مصروف رہے۔ آج بھی تقریباًوہی حال ہے۔ کپتان کی رہائی کے لئے فائنل کال مجبوری ہے لیکن خیبرپختونخواکومسائل کے دلدل سے نکالنے، صوبے کوترقی کی راہ پرگامزن کرنے اورعوام کوخوشحال بنانے کے لئے ایک فائنل کال بھی ضروری ہے۔ صوبائی حکمرانوں کوعمران خان کی رہائی کیلئے فائنل کال دینے کی طرح ایک کال یہاں کے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے بھی دینی چاہئے تاکہ برسوں سے پسماندگی کی زنجیروں میں جھکڑے اور مسائلستان میں قیدبدقسمت عوام بھی مسائل سے رہائی پاسکے۔