الیکشن میں دھاندلی، مگر کیوں؟

ضمنی الیکشن میں ناکامی پرپی ٹی آئی والوں کارونادھونادیکھااورسناتوہمیں اپنا بچپن کازمانہ یادآگیا۔ بچپن میں ہمیں کرکٹ کھیلنے کابڑاشوق تھا، سکول اورمدرسے سے چھٹی ہوتے ہی ہم گینداوربلااٹھاکرفوراگراؤنڈپہنچ جایاکرتے تھے، اب توبہت ترقی ہوگئی جگہ جگہ گراؤنڈبن گئے ہیں لیکن اس وقت دوردورتک گراؤنڈکاکوئی نام ونشان نہ ہوتاتھا۔
ہمیں یادہے گاؤں میں جب فصلوں کی کٹائی شروع ہوتی توہرجگہ کرکٹ کھیلنے کے مواقع ملنے کی وجہ سے ہم اتنے خوش ہوتے کہ جیسے عیدآئی ہو۔ موسم خزاں ہمارے لئے موسم بہارسے کم نہ ہوتا۔ گورنمنٹ ہائی سکول جوزکے قریب شمال کی طرف کھیتوں میں سے ایک بڑی کھیت کوہم نے گراؤنڈکانام اوردرجہ دیاہواتھاجب بھی فصلوں کی کٹائی مکمل ہوتی توہم پھرروزاس جگہ کرکٹ کھیلنے کیلئے پہنچ جاتے تھے۔ ہم نے دوٹیمیں بنائی ہوئی تھی جن کاآپس میں مقابلہ ہوتا۔ دونوں ٹیموں میں زیادہ ترہم اپنے کزن، خالہ زاد، ماموں زادوغیرہ تھے ایکادکاکوئی باہرکابچہ ہوتا۔
ہماری مخالف ٹیم کے جوکپتان تھے، نام لیناہم مناسب نہیں سمجھتے کیونکہ اب تووہ بڑے متقی، پرہیزگاراورایمانداربن گئے ہیں اس وقت اس کوہمارے سیاستدانوں کی طرح ہارنہ ماننے کی بیماری لاحق تھی۔ جب بھی وہ میچ ہارجاتے توفوراًوکٹیں اکھاڑکروہ رونادھوناشروع کردیتے کہ نہیں نہیں ہم نہیں ہارے ہیں۔ نوبال تھی، کیچ غلط تھا، رنزآؤٹ نہیں وغیرہ۔ اس کی اس رونے دھونے کی وجہ سے پورے میچ کامزہ خراب ہوجاتاتھا، اکثرنوبت پھرلڑائی اورہاتھاپائی تک بھی پہنچ جاتی۔
ہمیں نہیں یادکہ اس نے کبھی ایک باربھی دل سے کہاہوکہ مخالف ٹیم جیت گئی ہے اورہم ہارگئے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی امیدواروں کی ناکامی پریہ رونادھونااوردھاندلی دھاندلی کی چیخ وپکاردیکھ وسن کرہمیں وہ صاحب یادآنے لگے ہیں۔ جس طرح ہماری مخالف ٹیم والے اس کپتان کوہارسے الرجی تھی اسی طرح ہمارے ان سیاستدانوں کوبھی انتخابی شکست اورہارسے نہ صرف سخت بلکہ انتہائی خطرناک قسم کی الرجی ہے۔ یہ ٹھیک ٹھاک اوربڑے اچھے موڈمیں ہوں گے لیکن جونہی یہ ہارکالفظ سنتے ہیں ان کے دل، دماغ اورعقل کام کرناچھوڑدیتے ہیں۔
آسان الفاظ میں یوں کہیں یاسمجھیں کہ مخالف کی جیت پریہ باؤلے ہوجایاکرتے ہیں۔ ویسے اپنی شکست پرباؤلے پن کی یہ بیماری یوں تومحلے کے چھوٹے سے چیئرمین صاحب سے لیکرقومی وصوبائی اسمبلی کے امیدواروں تک ہمارے سارے سیاستدانوں کولاحق ہے لیکن پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے انتخابی امیدواروں، ان کے سپورٹروں، بھائیوں اوردوستوں پراس کے اثرات کچھ نہیں حدسے بھی زیادہ ہیں۔ اس بیماری نے ان معصوموں کے دماغ کواس طرح ماؤف کردیاہے کہ اب ہارکانام سنتے ہی ان پردیوانگی کے دورے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔
عجیب قسم کاانصاف ہے یہ جیت جائیں توان کے نزدیک وہ الیکشن سوفیصدصاف وشفاف ہوتے ہیں لیکن جب یہ ہارجاتے ہیں توپھریہ دھاندلی دھاندلی کاشورمچاناشروع کردیتے ہیں۔ ملک کے باقی حلقوں وعلاقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کاتونہیں پتہ لیکن ہری پورضمنی الیکشن جہاں تحریک انصاف کے امیدوارعمرایوب خان کی اہلیہ محترمہ ہارگئی ہیں یہ حلقہ اورعلاقہ پنجاب، سندھ، گلگت اوربلوچستان نہیں بلکہ اس خیبرپختونخوامیں ہے جہاں پچھلے بارہ تیرہ سال سے پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے۔
الیکشن کے لئے پولنگ اسلام آبادیاکسی دوسرے صوبے اورضلع میں نہیں ہوتی، جہاں الیکشن ہوں وہیں ضلعی افسران اورانتظامیہ کی نگرانی وسربراہی میں ووٹ پول ہوتے ہیں، ووٹوں کی گنتی کے لئے بھی باہرسے کوئی بندے نہیں آتے، انتخابی نتائیج وہی لوگ مرتب کرتے ہیں جوسرکارکی جانب سے مقررکئے گئے ہوتے ہیں۔
جب خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف کی حکومت ہے پھرضلع ہری پورمیں بھی اسی حکومت کے افسران تعینات ہوں گے۔ یہاں اگرمسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی یاکسی اورپارٹی وجماعت کی حکومت ہوتی پھرتودھاندلی دھاندلی کارونابنتاتھالیکن جب حکومت ہی اپنی ہے توپھراپنی حکومت میں دھاندلی کایہ رونادھونااپنے منہ پرکالک ملنے کے سواکچھ نہیں۔ کیاتحریک انصاف کی صوبائی حکومت اس قابل بھی نہیں کہ یہ اپنے ہی صوبے کے ایک ضلع اورحلقے میں دھاندلی سے پاک صاف وشفاف الیکشن کرائے۔
پنجاب، سندھ یادوسرے کسی ایسے صوبے، ضلع اورحلقہ جہاں ہارنے والے امیدواروں کی حکومت نہ ہومخالف اورجیتنے والے امیدوارکی پارٹی کی حکومت ہووہاں اگرکوئی دھاندلی دھاندلی کاشورکرتاہے توتک بنتی ہے لیکن جب صوبہ اپنا، ضلع اپنااورحلقہ بھی اپناہوپھرہمارے خیال میں دھاندلی کاسوال پیدانہیں ہوتا۔
خیبرپختونخوامیں ضمنی الیکشن کے بعدبھی تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے، ضمنی انتخابات میں واقعی اگرکوئی گڑبڑیاکوئی دھاندلی ہوئی ہے تویہ ثبوت سامنے لاکرالیکشن ٹریبونل اورکورٹ میں اپنی شکست اورمخالف کی جیت کوچیلنج کریں، یہ دھاندلی دھاندلی کارونارونے سے اپنی ہی بدنامی ہوگی۔ لوگ توپھریہی سوال کریں گے کہ کیاپی ٹی آئی کی حکومت میں بھی انتخابات کے اندردھاندلی ہوسکتی ہے؟ پی ٹی آئی کے یاردوست دھاندلی کاجس طرح ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں باالفرض اگرایساہی ہے توپھراس دھاندلی کاکریڈٹ بھی توان کی صوبائی حکومت کوجاتاہے کہ جوصوبے کے ایک حلقے میں صاف الیکشن نہیں کراسکی۔
یہ توہمیں پتہ ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بارہ تیرہ سالوں میں صوبے کے اندرکوئی تیرنہیں مارالیکن یہ تواب ہمیں پی ٹی آئی والوں کی زبانوں سے معلوم ہورہاہے کہ ان کی صوبائی حکومت ایک حلقے میں صاف وشفاف الیکشن بھی نہیں کراسکتی۔ سرسے پکڑیں یاپاؤں سے، ضمنی الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہویانہیں دونوں صورتوں میں یہ تحریک انصاف کی ناکامی ہے۔ پی ٹی آئی کے یاردوستوں کویاتواپنے امیدوارکی شکست قبول کرنی پڑے گی یاپھراپنی صوبائی حکومت کوناکامی کاہارپہناناپڑے گا۔ یہ فیصلہ اب دھاندلی دھاندلی کرکے اپنی انتخابی ناکامی پررونے، دھونے اورچیخنے وچلانے والے کریں کہ انہوں نے کیاکرناہے؟

