برے کا انجام بھی برا
چند دن پہلے ہماری ایک مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی، ہم نے زندگی میں غالباً پہلی بار کسی مولوی صاحب کو اس قدر پریشان اور بے چین دیکھا۔ ویسے ہم نے عام طور پر دیکھا ہے کہ علماء حضرات کبھی پریشان نہیں ہوتے۔ دنیا والوں کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں کم کیا؟ نہ ہونے کے برابرہیں۔ تنخواہ کے نام پر تو ان کو چند ہزار تک مشاہرہ یا نذرانہ ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اگرآپ ان کے حالات دیکھیں توآپ کویہ ہر وقت بادشاہ دکھائی دیں گے۔ نہ ان کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھروں میں کسی چیز کی کوئی کمی ہوتی ہے۔ دنیا جہان کی ایسی کوئی نعمت اور سہولت نہیں جوان کے گھر اور در پر نہ ہو۔
ہمارے ایک استاد تھے مفتی عبدالحکیم صاحب جو راولپنڈی کے ایک مدرسے میں بخاری شریف جیسی احادیث کی بڑی بڑی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، قرآن و حدیث پڑھانے کے علاوہ ان کا کوئی کام کاج یا کوئی ذریعہ روزگار نہیں تھا۔ مدرسے سے ان کو آٹھ سے دس ہزار تنخواہ ملتی تھی۔ اس دس ہزار میں وہ ایسی زندگی گزارتے تھے کہ جیسے وہ وقت کے کوئی وزیر یا مشیر ہوں۔ ایک دن ہم نے پوچھ ہی لیا کہ مفتی صاحب دس ہزار آپ کی تنخواہ ہے، گھر بار سب کچھ یہاں ہے، بچے سکول بھی پڑھ رہے ہیں، کھانا پینا بھی ہے، ہسپتال اور دیگر اخراجات و ضروریات بھی ہیں۔ دس ہزار میں یہ نظام کیسے چل رہاہے؟
مفتی صاحب پہلے مسکرائے پھر بولے۔ میرا نظام دس ہزار نہیں چلا رہا یہ اوپر والا چلا رہا ہے۔ پھر مفتی صاحب کہنے لگے کہ اکثر اوقات تو میں خود سوچتا ہوں کہ میرا یہ نظام کیسے چل رہاہے؟ ایک مفتی عبدالحکیم نہیں اس ملک، معاشرے اور مٹی پر آج بھی ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں مفتی عبدالحکیم، مولوی شعیب اور مولانا خالد ہیں جن کا نظام توکل فقط اللہ پر توکل کرنے کی وجہ سے چل رہاہے۔ اس ملک میں کتنے مفتی، کتنے مولانا اور کتنے قاری ہیں جومساجد و مدارس سے وابستہ ہیں۔ ان مفتیوں، ان مولویوں اور ان قاریوں کومساجد و مدارس سے درس و تدریس اور امامت وخطابت کے کتنے پیسے ملتے ہیں؟ جوملتے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔
شادی بیاہ، رسم و رواج اور فضول کاموں پرتو ہم ہزاروں نہیں لاکھوں اڑالیتے ہیں لیکن جب قاری صاحب اور مولانا صاحب کی تنخواہ میں ایک روپے اضافے کی بات آتی ہے تو پھر آنکھیں ہم سب کی نکل آتی ہیں۔ ہر شہر اور ہرگاؤں میں یہی حساب اور ہم سب کا یہی حال ہے لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیں ہم لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والوں سے اس مولوی صاحب اور قاری صاحب کے حالات ایک نہیں ہزار درجے بہتر ہوں گے۔ بہرحال اپنے ایک دوست سے ہم نے اس مولانا صاحب کی پریشانی اوربے چینی کی وجہ پوچھی تووہ کہنے لگے کہ اس مولوی صاحب کوغریبوں کی آہ لگی ہے۔ اس نے مضاربہ والے کاروبار یا فراڈ میں لوگوں سے بڑے پیسے جمع کئے، اس وقت لوگوں نے اس پر ایسا اعتماد کیا کہ جوکچھ پاس تھا وہ اس کے حوالے کیا۔ پھرلوگوں کے وہی پیسے جویہ مولانا صاحب ایجنٹ یا ڈائریکٹر بن کرلے گئے تھے وہ سارے ڈوب گئے، کسی کو واپس کچھ نہیں ملا۔
اس فراڈکی وجہ سے ہزاروں افرادفاقہ کشی پر مجبور ہوئے۔ وہ لوگ آج بھی ہاتھ پھیلا پھیلاکر اس مولانا صاحب اور ان کے ساتھیوں کوبددعائیں دے رہے ہیں۔ یہ مولانا صاحب آج بھی کاٹن کاسوٹ پہن کر گھوم رہا ہے اور غریبوں کے ان ہی پیسوں پرزندگی گزار رہا ہے مگر اس کی زندگی میں چین اور سکون پھر بھی نہیں، یہ اسی طرح ہر وقت پریشان پریشان رہتے ہیں۔ یہ سن کر ہمیں حضرت بہلول یادآگئے، بہلول ایک صوفی بزرگ گزرے ہیں جو بغداد اور اردگرد کے علاقوں اور ویرانوں میں بے فکری اوردنیا سے بے خبرگھوما کرتے تھے، اسی وجہ سے بعض لوگوں نے ان کو مجذوب بھی لکھاہے۔
حضرت بہلول ایک درویش صفت فلسفی تھے، خلیفہ ہارون الرشید کے رشتہ داروں میں ان کاشمار ہوتاتھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بارخلیفہ ہارون الرشید نے حضرت بہلول کو ہدایت کی کہ بازار جائیں اور قصائیوں کے ترازو اور جن پتھروں سے وہ گوشت تولتے ہیں وہ چیک کریں۔ جن کے تول والا پتھر کم نکلے انہیں گرفتار کرکے دربار میں حاضر کریں۔ حضرت بہلول بازار جاتے ہیں پہلے قصائی کا تول والا پتھر چیک کرتے ہیں تو وہ کم نکلتا ہے۔ بہلول قصائی سے پوچھتے ہیں کہ حالات کیسے چل رہے ہیں؟ قصائی کہتا ہے کہ بہت برے دن ہیں، دل کرتا ہے کہ یہ گوشت کاٹنے والی چھری بدن میں گھسا دوں اور ابدی نیند سوجاؤں۔
بہلول آگے دوسرے قصائی کے تول والے پتھر کو چیک کرتے ہیں وہ بھی کم نکلتا ہے، بہلول قصائی سے پوچھتے ہیں کہ کیا حالات ہیں گھر کے۔ وہ کہتا ہے کہ کاش اللہ نے پیدا ہی نہ کیا ہوتا، بہت ذلالت کی زندگی گزار رہاہوں بہلول آگے بڑھے۔ تیسرے قصائی کے پاس پہنچے، تول والا پتھر چیک کیا تو بالکل درست پایا، قصائی سے پوچھا کہ زندگی کیسے گزر رہی ہے؟ قصائی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، بہت خوش ہوں، اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم کیا ہے، اولاد نیک ہے، زندگی بھی بہت اچھی گزر رہی ہے۔
بہلول واپس آتے ہیں، خلیفہ ہارون الرشید پوچھتے ہیں کہ کیا رپورٹ ہے؟ بہلول کہتے ہیں کہ کئی قصائیوں کے تول والے پتھر کم نکلے ہیں۔ ہارون الرشید نے غصے سے کہا کہ پھر انہیں گرفتار کرکے لائے کیوں نہیں؟ حضرت بہلول نے اس وقت جوالفاظ ادا کئے وہ آب زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔ بہلول نے کہا اللہ تعالیٰ انہیں خود سزا دے رہا تھا، ان پر دنیا تنگ کردی تھی تو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی۔ قصائی ہو، ڈاکٹر ہو، تاجرہو، انجینئر ہو، ٹیچر ہو، جاگیردار ہو، سرمایہ دار ہو، صعنتکار ہو، کسان ہو، زمیندار ہو یا پھر مولوی، مفتی اورقاری۔ جس نے بھی کسی کا حق کھایا، کسی کودھوکہ دیا، کسی سے فراڈکیا۔ اللہ کی سزاسے وہ پھرکبھی بچ نہیں سکا۔
حضرت بہلول نے ٹھیک فرمایا۔ ایسوں کو پھر جیل، سلاخوں اور کال کوٹھریوں کے اندر ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں خود سزادے رہا ہوتا ہے۔ گاڑی، بنگلے اور مال پاس ہونے کے باوجود ایسوں پر زندگی ایسی تنگ کردی جاتی ہے کہ یہ پھراس مولانا صاحب کی طرح ہروقت پریشان اوربے سکون رہنے لگتے ہیں۔ ہم پانچ سے دس ہزار روپے کی تنخواہ پر ہنسنے مسکرانے والے قاری صاحب کو اور دوسری طرف مضاربہ میں کروڑوں روپے جمع کرنے والے اس پریشان حال مولانا صاحب کوجب دیکھتے ہیں تو ہمیں حضرت بہلول کے وہ الفاظ، اللہ تعالیٰ انہیں خود سزا دے رہا تھا، یادآنے لگتے ہیں۔