ایسی سیاست کا کیا فائدہ؟
پی ٹی آئی کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت اورپارٹی ہونے کے باوجود اس میں کوئی سیاستدان نہیں۔ کپتان ہے یاکھلاڑی۔ نہ صرف یہ سب خودٹی ٹوئنٹی کے پلیئرزہیں بلکہ یہ اپنی طرح سیاست کوبھی ٹی ٹوئنٹی کاکوئی کھیل یامیچ سمجھ رہے ہیں جبکہ سیاست یہ توٹیسٹ میچ سے بھی آگے کی کوئی شے ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ سیاست صبر، تحمل؎
، اکرام، برداشت اورعقل کانام ہے۔ جن میں صبر، برداشت، اکرام اورعقل نہیں وہ سیاست سے دور رہیں توزیادہ بہترہے۔ کہنے کے لئے توکپتان اور کھلاڑی اپنے آپ کوعقل کل سمجھتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس قبیل کاعقل کی وادی سے کبھی گزرہی نہیں ہوا۔ یہ عقل کے قریب سے بھی گزرتے توآج ان کایہ حال نہ ہوتا۔ یہ توسمجھتے ہیں کہ سیاست کہیں ماردھاڑ، جلاؤگھیراؤ، جلسے جلوس، احتجاج اور دھرنوں کانام ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔
ماناکہ یہ جلسے، جلوس، احتجاج، مظاہرے اوردھرنے سیاست کاہی حصہ ہیں پراصل سیاست وہ ہے جس کاعملی مظاہرہ مولانافضل الرحمن نے ان کھلاڑیوں کے سامنے کیا۔ پی ٹی آئی کے پاس مولاناسے ایک دونہیں کئی گنازیادہ سیٹیں ہیں پھربھی چندسیٹوں کے بل بوتے پرمولانانے ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ کپتان کے عظیم کھلاڑیوں کوبھی اپنے آستانے کے چکروں پرچکرلگوائے۔ اسی کوسیاست کہتے ہیں۔
مولانابھی اگرکھلاڑیوں جیسامنہ بناکرسیاست شروع کرتے توآج مولاناکاانجام بھی پھرکھلاڑیوں جیساہی ہوتالیکن مولانانے ایک حقیقی سیاستدان کا کردار ادا کرکے نہ صرف ملک کوممکنہ سیاسی بحران سے بچایابلکہ میدان سیاست میں اپناشملہ بھی اونچاکردیا۔ مولانابھی اگرمیں نہ مانوں کی رٹ لگاتے توکیااتنی عزت پاتے؟ ہرجگہ میں نہ مانوں کاواویلاٹھیک نہیں ہوتا۔ بعض نہیں بلکہ اکثرجگہوں پرملک وقوم کے اجتماعی مفادمیں پھر کچھ ماننابھی پڑتاہے۔ کیااس ملک کی سیاست میں تین بار سابق وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف کے ساتھ کچھ کم بے انصافیاں اورزیادتیاں ہوئیں؟
محض ایک اقامے اوربیٹے سے تنخواہ نہ لینے پرآپ ایک منتخب وزیراعظم کوکرسی سے ہٹاکراسے محرم سے مجرم بنا دیں اس سے بڑی بے انصافی اورکیا ہوگی؟ پھر اسی وزیراعظم کوبیٹی کے سامنے آپ ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں بندکردیں اس سے آگے کوئی ظلم ہوگا؟ عمران خان کے خلاف توباقاعدہ تحریک عدم اعتمادآئی اوراس عدم اعتمادکے ذریعے اس کووزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیالیکن میاں نوازشریف کو تو فقط ایک فیصلے پر گھر بھیجا گیا۔ کپتان کے کھلاڑی آج کپتان کی جس قید پر آنسو بہا کر قصے اور کہانیاں سنا رہے ہیں میاں نوازشریف اس قیدتنہائی سے ایک نہیں بار بار گزرے ہیں۔
نوازشریف، آصف علی زرداری، شہباز شریف سمیت کس سیاستدان اور لیڈر کو جیل میں نہیں ڈالا گیا؟ کپتان اورکھلاڑیوں کے دور میں تو تقریباً تمام سیاسی مخالفین کوجیلوں اورسلاخوں کی سیرکرائی گئی لیکن جیل میں جانے اورسلاخوں کے پیچھے شب وروزگزارنے کے بعدکیاکسی لیڈراورسیاستدان نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا؟ نہیں ہرایک نے صبر اور برداشت سے حالات کامقابلہ کیا۔ جس طرح یہ سب آج باہرہیں اسی طرح کل کپتان اورکھلاڑی بھی باہر ہوں گے۔ یہ جیل اورہتھکڑیاں تولیڈروں اور سیاستدانوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔
لیڈراورسیاستدان کواپنی اوقات نہیں بھولنی چاہئیے۔ جو لوگ قافلے سے الگ اور اوقات سے باہر ہو جاتے ہیں ان کاپھرکوئی نہیں ہوتا۔ آئینی ترامیم کے موقع پر اگر مولانافضل الرحمن کھلاڑیوں کوگلے نہ لگاتے تواب یہ پتھروں اوردیواروں سے ٹکریں مار مار کر پاگل ہوجاتے۔ یہ تو مولانا کا بڑا پن تھا کہ فضلو، ڈیزل اور بارہویں کھلاڑی جیسے القابات کے باوجوداس نے کھلاڑیوں کے سروں پردست شفقت رکھا۔ وہ بھی اگرانہیں ایسے القابات سے نواز کر دھتکارتے تو پھر ان کا کیا ہوتا؟ اس لئے سیاست میں کوئی حرف حرف آخرنہیں ہوتا۔ مخالف لیڈراورسیاستدان چاہے وہ کسی بھی جماعت اورپارٹی کے ہوں وہ قابل عزت اور قابل احترام ہوتے ہیں۔
سیاسی اختلافات اورپارٹی مفادات اپنی جگہ لیکن سب کوایک دوسرے کااحترام کرناچاہئیے کل کوپھرانہی لیڈروں اورسیاستدانوں کی ایک دوسرے سے آنکھیں لگنی ہیں۔ کپتان کے کھلاڑیوں کامسئلہ یہ ہے کہ وقت اورمشکل آنے پریہ پتھرکوبھی مائی باپ کہتے ہیں لیکن وقت نکلنے اورمشکل گزرنے کے بعدیہ پھراسی مائی باپ کوبرابھلاکہہ کرآنکھیں دکھاناشروع کردیتے ہیں۔ آئینی ترامیم سے پہلے کپتان کے کھلاڑیوں نے مولانافضل الرحمن کو حضرت، مولانا اور جو صاحب کہناشروع کیاتھاآئینی ترامیم کے بعداب وہی کھلاڑی مولاناکے لئے ایک بار پھر برے القابات استعمال کرنے لگے ہیں۔
کل تک جومولاناان کی آنکھوں کاتارابن گئے تھے آج وہی مولاناایک بارپھران کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح جھپکنے لگے ہیں۔ میاں نوازشریف، آصف زرداری، شہباز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولاناسمیت کوئی بھی مخالف سیاستدان اور لیڈر کپتان کے ان کھلاڑیوں سے محفوظ نہیں۔ نجی محفلوں، سیاسی بحث و مباحثوں اورسوشل میڈیا پر مخالف سیاستدانوں کوگالیاں دینا اور برا بھلا کہنا کپتان کے یہ کھلاڑی ثواب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست گالی سے شروع ہو کر گالی پر ختم ہوتی ہے۔
شرافت، صبر، برداشت اورمفاہمت کویہ کل بھی گناہ سمجھتے تھے اور لگتا ہے کہ آج بھی یہ اسے گناہ ہی سمجھ رہے ہیں تب ہی تویہ شیخ چلی جیسے خواب دیکھنے اورڈائیلاگ مارنے سے بازنہیں آرہے۔ اس مخلوق کی خدمت میں بس اتنی سی گزارش ہے کہ دل میں اگرملک کی ترقی اورقوم کی خوشحالی کاتھوڑاسابھی جذبہ ہوتوپھرمولاناکی طرح بندکمرے میں بیٹھ کرپانچ دس سیٹوں کے ذریعے بھی عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں نہیں توپھرڈی چوک کیا؟ سی چوک میں بھی دھرنے دینے اورتمام لیڈروں کوگالیاں دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اور اس حقیقت کاان کوبھی بخوبی علم اوراندازہ ہے کیونکہ چھ سات سال گریبان کھول کرانہوں نے ہرسیاسی مخالف کونہ صرف کھل کرگالیاں دیں اور برا بھلا کہا بلکہ اسے دیوارکے ساتھ لگانے میں بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی لیکن اس کے باوجودان کے ہاتھ میں کیاآیا؟ ایوان میں بھاری نشستوں اورمضبوط سیاسی قوت کے ہوتے ہوئے بھی یہ اپنے ایک کپتان کو باہر نہ نکال سکیں۔ ایسی سیاست کا کیا فائدہ؟ جس کی وجہ سے ملک وقوم کیاخودکپتان اورکھلاڑیوں کوبھی چین اورسکون نہ ہو۔