ایسے بھی حکمران تھے
بجلی کابھاری بل غصے سے ٹیبل پرمارتے ہوئے وہ صاحب گویاہوئے اس ملک کے غریب عوام کوعمران خان جیسے کسی ایماندارحکمران کی ہی ضرورت ہے۔ یہ چور، ڈاکواوربے ایمان اگراسی طرح ملک وقوم پرمسلط رہے تولوگ مہنگائی اورایسے بھاری بلز جمع کرتے کرتے بھوک سے مرجائیں گے۔ قریب بیٹھے قاری نواز چوراورڈاکووالے الفاظ سن کرآگ بگولہ ہوئے۔ آپ کے وہ ایماندار توجمعہ جمعہ اٹھ دن پہلے ساڑھے تین چارسال قوم پرمسلط رہے ان چارسالوں میں اس نے کیاکیا۔ اس بات سے جیسے کسی نے اس میں ہوابھردی ہووہ ایک غبارے کی طرح اپنے کپتان کے حق میں پھٹنے لگے۔
کپتان نے اس ملک اورقوم کے لئے کیانہیں کیا؟ اس کے دورمیں کیاکسی کے اتنے بل آئے، یہ چوراورڈاکوتواپنے بل بھی عوام سے جمع کروارہے ہیں۔ وہ صاحب اورقاری پھرکئی گھنٹے تک اپنے اپنے لیڈروں اوربادشاہوں کوفرشتے ثابت کرنے میں لگے رہے معلوم نہیں کہ ان دونوں کے اس بحث ومباحثے کاکیانتیجہ نکلاہوگالیکن ان کی باتیں سن کرہم ضروراس نتیجے پرپہنچے کہ جہاں عمران خان کے ساڑھے تین چارسالہ دورکوتاریخی دورکے طورپریادکیاجارہاہووہاں اجڑے چمن کاپھرایساہی منظرہوگا۔
پوری دنیاکوپتہ ہے کہ پاکستان اوریہاں کے عوام کی تباہی اوربربادی کے دن تب ہی شروع ہوئے جب یہاں نوازشریف جیسے عوامی وزیراعظم کواقتدارسے بیدخل کرکے راتوں رات سونامی کاچاندچڑھایاگیا۔ نوازشریف فرشتہ نہیں تھے، غلطیاں اورکوتاہیاں ان سے بھی ہوئیں لیکن اقتدارکے نشے میں جوموج مستیاں کپتان نے کیں۔ ان کی سزاآج تک عوام بھگت رہے ہیں اورنہ جانے کب تک بھگتے رہیں گے۔ ترقی کی راہ پرچلتے ایک اچھے بھلے ملک کوایک کرسی کی خاطرپٹری سے اتارنے کی کیاضرورت تھی؟ نوازشریف کواگروہ پانچ سالہ پوراکرنے دیاجاتاتوآج شائدنہیں یقینناًنہ ملک میں بجلی کی یہ لوڈشیڈنگ ہوتی اورنہ غریب عوام کوبجلی کے یہ بھاری بل تھمائے جاتے۔
ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہرشخص اورفردکواپناحکمران اورلیڈرفرشتے کے سواکچھ دکھائی نہیں دیتا۔ لیڈراورحکمران چاہے کچھ نہیں سب کچھ ہی غلط کیوں نہ کردیں یہ لوگ پھربھی اس غلط کوصحیح ثابت کرنے کے لئے سوقسم کے دلائل اوربہانے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ کوئی عمرانی دورکوتاریخی دورکے طورپریادکرنے پرتلاہواہے توکوئی پی ڈی ایمی دورکواچھے دورکااعزازدینے پربضدہے۔ ہرشخص اورفردکے ہاں روئے زمین پر اس کے لیڈراورحکمران سے بہترلیڈراورحکمران کوئی نہیں۔ جب کارکن، عقیدت منداورپیروکارکام، اعمال اورکردارکے بجائے لیڈروں اورحکمرانوں کے چال ڈھال، قدکاٹ اورصورت کوترجیح دینے لگیں پھرایسے ہی حکمرانوں اورلیڈروں سے واسطہ پڑتاہے جیسے لیڈروں، حکمرانوں اورسیاستدانوں سے ہماراواسطہ پڑرہاہے، اسی لئے توکہتے ہیں کہ جیسے عوام ویسے حکمران۔
اس زمین پرایسے ایسے حکمران گزرے ہیں کہ جن کا نام سن کرآج بھی زمین رشک کرتی ہے۔ پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یوآئی اوران دیگرسیاسی جماعتوں اورپارٹی کے کارکنوں اورلیڈروں کے عقیدت مندوں کوکیاپتہ؟ کہ حکمران اوربادشاہ کیسے ہوتے ہیں۔ خلفائے راشدین کاتوپھردنیانے کوئی ثانی دیکھاہی نہیں لیکن آج کی دنیاتوتابعین کے بعدآنے والے مسلم حکمرانوں اوربادشاہوں کی نظیرپیش کرنے سے بھی قاصرہے۔ اہل کفرآج بھی ان مسلم حکمرانوں کی جرات، بہادری اورشجاعت سے لرزاں ہے۔
عمران خان، شہبازشریف، آصف زرداری اورمولانافضل الرحمن کے نام پراچھلنے وکودنے والے آج کے سیاسی کارکن مسلم حکمرانوں اوربادشاہوں کی تاریخ پڑھیں توان کومعلوم ہو کہ حکمران اوربادشاہ کیسے ہوتے ہیں۔ شمس الدین التمش بھی مسلمانوں کے ایک بادشاہ گزرے ہیں۔ آج کے نوجوانوں کوپتہ ہی نہیں ہوگاکہ شمس الدین التمش کون تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں شمس الدین التمش کے بارے میں کہیں ایک واقعہ پڑھاتھا۔ آپ بھی پڑھیں۔
لکھنے والے لکھتے ہیں کہ جب حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی وفات ہوئی تو ہرطرف کہرام مچ گیاکہ اللہ کاایک بہت بڑاولی دنیاسے رخصت ہوا۔ بختیارکاکی کی جدائی پرہرسوغم والم کاسماں تھا۔ حضرت کاجنازہ جب تیار ہوا توایک بڑے میدان میں جنازہ پڑھنے کے لئے لایا گیا۔ مخلوق بڑی تعداد میں جنازہ پڑھنے کے لئے نکل پڑی تھی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حدِ نگاہ تک نظر آتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بِپھرے ہوئے دریا کی مانند یہ مجمع ہے۔ جب جنازہ پڑھانے کا وقت آیاتو ایک آدمی آگے بڑھا۔ باآوازبلندکہنے لگا کہ میں وصی ہوں۔ مجھے حضرتؒ نے ایک وصیت کی تھی میں اس مجمع تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں، مجمع خاموش ہوگیا۔ وصیت کیا تھی؟
خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے یہ وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔ پہلی خوبی یہ کہ زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔ دوسری شرط اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے، جب یہ بات کی گئی تو مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ سناٹاچھا گیا، لوگوں کے سر جھک گئے۔ کون ہے جو قدم آگے بڑھائے۔ کافی دیر ہوگئی، لاکھوں عوام کے سمندراورسناٹے میں ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔
حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کے جنازے کے قریب آیا۔ جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا قطب الدین آپ خود تو فوت ہوگئے مجھے رُسوا کردیا۔ میرا راز دنیاکے سامنے کھول دیا۔ اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں۔ پتہ ہے وہ شخص کون تھا؟ وہ کسی مدرسے کامہتمم، کسی خانقاہ کاپیراورکسی درگاہ کاگدی نشین نہیں بلکہ وقت کا بادشاہ " شمس الدین التمش " تھا۔
اب خودسوچیں جس بادشاہ کے اندریہ چارخوبیاں ہوں کیاوہ کرپٹ، بے ایمان، چوراورڈاکوہوسکے گا؟ نہیں ہرگزنہیں۔ اللہ سے ڈرنے والے نہ چورہوتے ہیں اورنہ ڈاکو۔ آج نہ عوام کوخداکاخوف ہے اورنہ ہی ہمارے حکمرانوں کواللہ کاکوئی ڈر۔ اسی وجہ سے آج ہم سب مسائل اورمصائب سے گزررہے ہیں۔ آج ہی اگرہمارے حکمران اللہ سے ڈرنے والے بن جائیں توپھردیکھناکہ ہمارے یہ ہزاروں مسائل دنوں نہیں گھنٹوں میں کیسے حل ہوتے ہیں۔ وہ بھی توحکمران تھے جوتن تنہاء آدھی سے بھی زیادہ دنیاپرکامیاب حکومت کیاکرتے تھے۔