وادی شگر دنیا میں جنت (1)
سکردو سے ایک گھنٹہ ڈرائیو کے بعد وادی شگر پہنچے۔ وادی شگر میں متعدد چھوٹے بڑے دیہات آباد ہیں۔ یہاں مسلمان اہل سنت کی تعداد کم اور اہل تشیع اور نور بخشی مسلک کے لوگ زیادہ آباد ہیں۔ شگر سٹی کے نواح میں ایک دیہات " چھو رکا ہ" میں ہمارے میزبان عبد اللہ ناصر شگری اور ان کا خاندان مقیم ہے۔ ان کے گھر اور گیسٹ ہائوس میں گزرے چند روز یادگار ہیں۔ بلتستان میں انتہائی مہمان نواز اور میٹھے مزاج کے لوگ بستے ہیں۔ سکردو سے وادی شگر جاتے ہوئے پہاڑی سلسلہ دریائے سندھ کے پانی چشمے اور ریگستان آتے ہیں۔ بلتستان قدرت کا ہر رنگ پھل پھول درخت صحرا دریا الغرض تمام طرح کی معدنیات اور قدرتی انعامات سے مزین ہے۔ وادی شگر شمالی پاکستان میں بلتستان میں ایک وادی ہے جسے دریائے شگر سیراب کرتا ہے۔ وادی سکردو سے اشکولتک یہ سلسلہ کوہ قراقرم کے لیے گزرگاہ بھی ہے۔
دریائے شگر کا پانی بلتورو گلیشیر اور بیافو گلیشیر کے پگھلنے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ وادی شگر میں بہتا ہے۔ یہ دریائے سندھ کا ایک معاون دریا ہے جو وادی سکردو سے اس میں شامل ہوتا ہے۔ شگرپاکستان کے شمالی علاقہ جات بلتستان میں واقع ایک نہایت وسیع اور خوبصورت وادی ہے۔ یہ بلتستان ڈویژن کے کسی بھی ضلع سے آبادی اور رقبہ دونوں لحاظ سے بڑا علاقہ ہے۔ شگر کی آبادی لمسہ نامی گاوں سے شروع ہوتی ہے، یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر شگر خاص آتا ہے۔ شگر خاص دریائے باشہ اور دریائے برالدو کا سنگم ہے۔ شگر خاص کے بیچ چھورکاہ، الچوڑی اور داسو واقع ہیں۔ یہ ایریا شگر کی داہنی جانب واقع ہے، جس کے اختتام پر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی (K.2) موجود ہے۔ کے۔ ٹو کے علاوہ گشہ بروم1، گشہ بروم 2، ٹرانگ اینڈ ٹاورجیسی چوٹیاں بھی برالدو ایریا میں دنیا بھر سے کوہ پیمائوں اور سیاحوں کو کھینچ لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ شگر کی باہنی جانب باشے کا ایریا، گائوں نیالی، تسر اور باشہ، الچوڑی کا ایریا آتا ہے۔ گائوں تسر میں چھوترون کا قدرتی گرم چشمہ اور باشہ میں بیسل کا قدرتی گرم چشمہ بہت مشہور ہیں۔ ان علاقوں میں خوبانی اور خصوصاً باشہ کی دیسی گھی کا بہت چرچا ہے۔
شگر میں مختلف قسم کے معدنیات کی فراوانی ہے۔ یہاں سے نکالے گئے سنگ مرمر سے دنیا بھرپور استفادہ کرتی ہے؛ جبکہ یہاں کے باسیوں کے گھر آج بھی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ پورے بلتستان کی طرح شگر میں بھی پہلے راجا کا دور ہوتا تھا مگر اب کونسلر نظام رائج ہے۔ شگر کو ضلع کا درجہ دیا گیا شگر کی آبادی تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار ہے۔ اس وادی کے خوبصورت اور دلکش قدرتی مناظر، بلندپہاڑی چوٹیاں، لہلہا تے کھیت، ٹھنڈے چشمے اور آبشاریں، ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے اپنے اندر ایک منفرد کشش رکھتی ہے۔ اس وادی کی سرحدیں مشرق میں خپلو، مغرب میں نگر گلگت اور جنوب کی وادی سکردو سے ملتی ہیں۔ شمالی طرف دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی " کے ٹو"اور کوہ قراقرم کی دیگر پہاڑی چوٹیاں اور گلیشرزہیں۔ جن کو سر کرنے کی کوشش میں لاتعداد کوہ پیما اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ وادی شگر کے مہمان نواز، بہادر اور جفا کش لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی، اور مویشی پالنا ہے بہت کم لوگ ملازمت پیشہ ہیں۔ یہ وادی پھلوں اور میووں کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں۔ ان میں خوبا نی، بادام، سیب، ناشپاتی، انگور، آلوبخارا، گلاس، شہتوت، اخروٹ اور دوسرے پھل شامل ہیں۔
وادی کے پہاڑوں میں قدرت کا پیش بہا اور قیمتی خزا نہ پوشیدہ ہیں۔ ان پہاڑوں میں چھپی معدنیات کے علاوہ بہت ہی دوسری قیمتی اشیاء ہیں جن میں سے چند مشہور معدنیات کا ذکر پیش خدمت ہے۔"ابرق" یہاں خاص مقدار میں پایا جاتا ہے جو شیشہ سازی کے کام آتا ہے۔ اس وادی کے پہاڑو ں سے نیلم بھی ملتے ہیں یہ پتھر جواہرات کی دنیا میں بڑی قیمت پاتے ہیں۔ پہاڑوں اور ندی نالوں کے کنارے بہت سی قیمتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جن سے طبی ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ موسم بہار میں یہ وادی بہت خوبصورت نظر آتی ہے چاروں طرف ہرے بھرے درخت نظر آتے ہیں لیکن جربہ ڑھو، مسجد امبوڑک، پھونگ کھر، خانقاہ معلی، حشوپی باغ، گرم چشمہ چھوترون، گرم چشمہ بیسل مشہور ہیں۔ شگر میں " ہشوپی باغ " دیکھا۔ پھولوں اور پھلوں کی جنت ہے۔ ہشوپی باغ شگر میں سیب کے سینکڑوں درخت ہیں ان میں کویٹہ آمری اور گولڈن سمیت کئی اقسام کے سیب ہیں۔
یہاں سے پورے بلتستان میں سیب سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس باغ میں سیب کے علاؤہ ناشپاتی، چیری اور خوبانی سمیت کئی اقسام کے دیگر پھل بھی موجود ہیں۔ شگر میں گلگت بلتستان کا واحد میوزیم دیکھا۔ بلتی میوزیم تاریخ و ثقافت کا عکاس ہے۔ تین سو سال پرانے برتن اور دیگر اشیا رکھی ہیں۔ شگر میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن شگر سید محمد عراقی سے تفصیلی ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں نوے فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کا تعلیمی تناسب مساوی ہے۔ ہر ضلع اور دیہات میں لڑکے لڑکیوں کی میٹرک تک سکول عمارتوں کی سہولت تقریباً مہیا کی جا رہی ہے البتہ بچوں کی تعداد کے تناسب سے اساتذہ کی تعداد کم ہے۔ اکثر اسکولوں میں سائنس لیبارٹریاں اور دیگر سامان بھی موجود نہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے بلتستان کی طرف توجہ دی ہے اور وزیر آعظم عمران خان نے ڈیڑھ ارب روپے ضلع شگر کے تعلیمی فنڈ کے لئے مختص بھی کیا ہے لیکن اس ریاست کی طرف مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر نے ہمیں اپنی جیپ میں ضلع شگر کے متعدد سکولوں کا وزٹ بھی کرایا۔ شگر سٹی کے گائوں چھو ترون کے گرلز ہائی سکول کی دعوت پر ہم چھوترون پہنچے۔ گلگت بلتستان وادی شگر کی باہنی جانب چھوترون جاتے ہوئے راستے میں دریائے باشہ کا ایریا آتا ہے۔ اس وادی کے خوبصورت اور دلکش قدرتی مناظر، بلندپہاڑی چوٹیاں، لہلہا تے کھیت، ٹھنڈے چشمے اور آبشاریں، ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے اپنے اندر ایک منفرد کشش رکھتے ہیں۔ خوبانی اور خصوصا باشہ کی دیسی گھی کا بہت چرچا ہے۔ دامن کوہ میں ہی گائوں " تسر" سے بھی گزر ہوا۔ (جاری ہے)