"سقوط غرناطہ"، آج رو لینے دو
نوے سالہ ہماری ایک آنٹی مسز عصمت خالد کی جانب سے ایک درد بھری تحریر بعنوان " مجھے آج رو لینے دو" موصول ہوئی، تحریر میں قیام پاکستان کا آنکھوں دیکھا احوال اور 77برس بعد تباہ حالی رقم تھی اور آج اس لمحہ میں سرزمین غرناطہ میں کھڑی آنسو بھری تحریر رقم کر رہی ہوں" آج مجھے بھی جی بھر کے رو لینے دو"۔
میرے کانوں میں ایک بے بس ماں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس نے ڈوبتی سسکیوں میں اپنے بزدل فرزند سے تاریخی جملہ بولا تھا " جس چیز کی حفاظت تم مردوں کی طرح نہیں کرسکے، اس کے چھن جانے پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔ "یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مسلم ہسپانیہ (اندلس)کے آخری حکمراں ابو عبد اللہ کی والدہ نے اْسے اْس وقت کہے جب وہ غرناطہ کی چابیاں مسیحی حکمرانوں کے حوالے کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرناطہ سے جلا وطن ہورہا تھا۔ اس نے جب آخری نگاہ اپنے آبا ؤ اجداد کے ورثے پر ڈالی تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اس مقام پر جہاں ابو عبد اللہ کی آہ نکلی مسیحیوں نے مسلمانوں کی شکست کی علامت کے طور پر محفوظ کر لیا اور آج اسے مور کی آخری آہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ یورپی تاریخ داں اندلس کے مسلمانوں کے لیے "مْور" Moors کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ابو عبد اللہ، اندلس کی آخری مسلم ریاست، مملکتِ غرناطہ، کا وہ بد بخت حکمران تھا جس نے عین اس وقت اپنے والد ابو الحسن اور چچا محمد بن سعدالزاغل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا جب وہ اندلس میں مسیحیوں کے مشترکہ لشکر سے اندلس میں مسلمانوں کی بقا کی آخری لڑائی لڑرہے تھے۔۔
سپین (ہسپانیہ) میں آخری مسلم حکمران ابو عبداللہ نے مسیحی حکمرانوں کی سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح ہسپانیہ میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن مسیحی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو ہسپانیہ سے بے دخل کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو جبرا مسیحی بنایا گیا جنھوں نے اس سے انکار کیا انھیں جلاوطن کر دیا گیا۔ تقریباًآٹھ سو سال قبل جبل طارق یا جبرالٹر کے ساحل پر طارق بن زیاد نے مسیحی گاتھ شہنشاہ راڈرک کو عبرتناک شکست دے کرہسپانیہ فتح کر لیا۔
موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد نے جلد ہی ہسپانیہ سے مسیحیوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اسی طرح ہسپانیہ، دمشق کی خلافت کے زیر نگیں آگیا۔ آہستہ آہستہ اندلس عالم سلام کا علم و ہنر کا مرکز بن گیا۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اندلس کے مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا۔ زوال پذیر مسلمانوں اور مسیحی حکمرانوں کے مابین معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن مسیحی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے۔
سپین میں مسلمانوں کی بے شمار تعمیرات میں سے 2 قابل ذکر تعمیرات "قصر الحمرا" اور "مسجد قرطبہ" تھیں۔ قصر الحمرا مسلمان خلفاء کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا، جسے عیسائیوں نے فتح کے بعد عیسائی شاہی خاندان کی جائے رہائش بنا دیا تھا۔ عظیم اور خوبصورتی کا شاہکار مسجد قرطبہ اْس وقت اسلامی دنیا کی سب سے عالیشان مسجد تھی، بعد ازاں اسے بھی گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔
مسلمانوں کی علم دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد 300 سال تک جرمنی، اٹلی اور فرانس کے شاہی درباروں میں مسلمانوں کی تدوین کردہ کتب کے یورپی زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے۔ اس کے باوجود اندلس میں کتب خانوں کے تہہ خانے مزید کتابوں سے بھرے پڑے تھے جنہیں ہاتھ تک نہ لگایا جا سکا۔ اگر ہم سقوط بغداد، سقوط ڈھاکا، جنگ پلاسی، میسور اور خلافت عثمانیہ کے زوال سے لیکر سقوط غرناطہ تک کا جائزہ لیں تو ہمیں مسلمانوں کی شکست اور زوال میں غیروں کی اہلیت اور ہمت سے زیادہ اپنوں کی ناہلی، غداری اور مال و دولت اور ہوسِ اقتدار کارفرما نظر ا?تی ہے۔ سقوط غرناطہ کی بھی بنیادی وجہ مسلمانوں کی باہمی رنجش اور اقتدار کا لالچ تھا۔
باہمی لڑائیوں سے مسلمان باقی سپین تو کھو ہی چکے تھے، غرناطہ کا بھی دفاع نہ کرسکے اور تاریخ میں ایسے فنا ہوئے کہ صدیوں بعد بھی سپین کے در و دیوار ان کی بربادی اور زوال پر ماتم کناں ہیں۔ علامہ اقبال نے دورہ اسپین کے دوران اندلس اور قرطبہ پر بے شمار اشعار لکھے۔ درج ذیل اشعار بال جبریل کی نظم مسجد قرطبہ سے لیے گئے ہیں:
آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار
حاملِ خلق عظیم، صاحب صدق و یقیں
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب
سلطنت اہل دل فقر ہے، شاہی نہیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے