رحمان فائونڈیشن فری ڈائیلاسز سینٹرز
پاکستان واحد ملک ہے اس کے عوام عوام کو پال رہے ہیں۔ صدقات عطیات دینے والے بھی بے شمار اور مستحق افراد بھی بے حساب۔ رب نے جس کو بھی ہمت و استطاعت دی ہے کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں خدمت خلق میں لگا ہوا ہے۔ رحمان فائونڈیشن بھی اسی سفر خیر کا ایک آشیانہ ہے۔ یہاں مستحق مریضوں کے فری آف کاسٹ ڈائیلاسز کئے جاتے ہیں۔
دونوں ہی گردے کام کرنا چھوڑددیں توایسی صورت میں گردے کا عمل مصنوعی طریقے سے سسٹم کو ڈائیلاسز کہتے ہیں ہمیں لاہور سینٹر 134 G ماڈل ٹائون میں وزٹ کا موقع ملا۔ چند احباب کی کاوش سے دو مشینوں سے شروع ہونیوالا یہ ڈائیلاسز سینٹر آج چھ شہروں تک پھیل چکا ہے۔ مریضوں کی تعداد ویٹنگ لسٹ میں ہزاروں کی تعداد تک پہنچ چکی ہے لیکن وسائل مخیر حضرات کے مرہون منت ہیں۔ گردے جب ناکارہ ہو جاتے ہیں تو زندگی کی سانسیں ڈائیلاسز کی مشینیں کھینچ رہی ہوتی ہیں اور وہ بھی ان مریضوں کا وسیلہ بن سکتے ہیں جو صاحب حیثیت ہیں یا سرکاری ہسپتالوں سے فری سہولت میسر آ سکے ورنہ فی سبیل اللہ ڈائیلاسز سینٹر چلانا اللہ کے بعد بندوں کی مدد کے بغیر نا ممکن ہے۔ ڈائیلاسز پر ایک مریض کی ماہانہ کفالت قریبا چوبیس ہزار روپے ہے جبکہ رحمان فائونڈیشن سینٹرز میں مریض کے ایک ڈائیلاسز کا خرچہ تین ہزار روپے ہے جبکہ ایک ڈائیلاسز مشین کی قیمت پندرہ لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان بھر میں فری ڈائیلاسز سینٹرز کی اشد ضرورت ہے اور جو موجود ہیں ان سے بھر پور مالی تعاون کیا جائے تا کہ مستحق مریضوں کو ڈائیلاسز کی سہولت فری مہیا کی جا سکے۔ دو سال پہلے تک سرکاری ہسپتالوں کی رپورٹ کے مطابق 10 سرکاری ہسپتالوں میں سوا کروڑ آبادی کیلئے ڈائلسز کی صرف 206 مشینیں تھیں جن میں سے بھی 39 خراب ہونے کی وجہ سے ہزاروں مریضوں کو مہینوں کا وقت دیا جانے لگا جبکہ ان کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں، موجودہ حکومت نے بھی کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں گردوں کی بیماریوں میں سب سے زیادہ عام دائمی بیماری (chronic disease) ہے اور اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ گردوں کی دائمی بیماری کی ابتدائی طور پر کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں - اگر آپ کو ذیابیطیس ہے یا ہائی بلڈ پریشر ہے یا پھر گردوں میں پتھری ہے یا کوئی اور موروثی بیماری ہے تو یہ سب مل کر آپ کو گردوں کی دائمی بیماری کا شکار بناسکتی ہیں -گردوں کی دائمی بیماری آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے اور آخر اس سطح پر پہنچ جاتی ہے کہ انسان کے گردے مکمل طور پر فیل ہوجاتے ہیں - جب آپ کے گردے فیل ہونے کے قریب ہوتے ہیں تب کہیں جاکر اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔
اگر اس کے علاج میں تاخیر ہوجائے اور بیماری بڑھتے بڑھتے اگلے مراحل میں داخل ہوجائے تو پھر اس بیماری کا علاج ممکن نہیں رہتا- اس صورتحال میں انسان کے گردے فیل ہوجاتے ہیں اور آپ کے پاس دو ہی انتخاب بچتے ہیں - ایک آپشن تو یہ ہوتا ہے کہ آپ ڈائیلاسز کروائیں یا پھر دوسرا طریقہ یہ رہ جاتا ہے کہ مریض کے گردوں کا ٹرانسپلانٹ کر دیا جائے-جس غریب ملک میں فری ڈائیلاسز کی تسلی بخش سہولت میسر نہیں وہاں گردے ٹرانسپلانٹ کی مہنگی اور حساس سہولت اور علاج کیوں کر میسر ہو سکتے ہیں۔