پاکستان کی دولت بول رہی ہے
اوورسیز پاکستانی وہ غریب مزدور یا مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ہیں جنہیں موقع ملا اور وہ بیرون ممالک روزگار کے لئے چلے گئے۔ اور کچھ کے لئے حصول تعلیم سبب بنی۔ پھر باہر ہی ملازمت کرنے لگے۔ پروفیشنل ڈگریاں لے کر بیرون ممالک ہی سیٹل ہو گئے۔ پاکستان کے امیر بیرون ملک سیر سپاٹے کرنے جاتے ہیں یا اپنی نسلوں کو اعلی تعلیم کے لئے باہر بھیج دیتے ہیں۔ کچھ نسلیں باہر ہی سیٹ ہو جاتی ہیں اور کچھ وطن لوٹ کر سیاست یا کاروبار وغیرہ کرنے لگتی ہیں کہ جن کے پاس پاکستان میں پیسے کی ریل پیل ہے بیرون ملک محنت کی زندگی کیوں کربرداشت کریں۔ پاکستان کا وہ طبقہ جسے پاکستان نے شہرت اور پیسہ دیا نام دیا وہ طبقہ مستقل طور پرپاکستان چھوڑنا افورڈ نہیں کرسکتاکہ مال اور فیم پاکستان دیتا ہے ورنہ ان کے پاس کوئی ہنر یا ایسی skill نہیں کہ باہر مستقل رہ سکیں سوائے وہ مال اور اثاثے جو پاکستان میں بنائے اور باہر لے جا کر باقی زندگی عیش کر سکیں۔
پاکستان کو تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچانے میں یہ مالدار طبقہ برابر کا گنہگار ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان رہنے کے لائق نہیں رہا؟ یہ جملہ دولتمند طبقہ تو بول سکتا ہے مگر حقیقی پاکستانی یعنی غریب اور سفید پوش عوام یہ جملہ کس کے ایما پر بولیں؟ انہیں تو اسی ملک میں جینا اور مرنا ہے اور اسی سبز پاسپورٹ کو تعظیم دیناہے ورنہ دوسری کوئی آپشن نہیں۔ امیر دولت مند پیسے والے پہلے ہی امریکہ کینیڈا یورپ برطانیہ یا میلا ئشیا انڈونیشیا دبئیء وغیرہ اثاثے منتقل کر دیتے ہیں پاکستان میں تو پیسہ شہرت اور مال اکٹھا کرنیکے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں کیڑے اس وقت دکھائی دینے لگتے ہیں جب ان کی نسلیں باہر شفٹ ہونے پر مصر ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کی قدرو قیمت اوورسیز پاکستانی مزدور سے کوئی پوچھے۔
شب و روز محنت مزدوری کرنے والے کہتے سنے جاتے ہیں کہ بندے کے پاس پیسہ ہو تو پاکستان جیسی جنت کوئی نہیں۔ لیکن پیسے والے جب پاکستان میں کیڑے نکالتے ہیں تو در اصل وہ دل سے کبھی پاکستان کے ہوئے ہی نہیں بلکہ اس ملک کی تباہی کے برابر کے مجرم ہیں۔ دولت کے زعم میں فرار کا جواز پاکستان کو بناتے ہیں۔ اور کچھ ایسے پاکستانی بھی ہیں جو پیسے والے نہیں اور مغربی ممالک میں مستقل قیام کے لئے پاک فوج کے خلاف زہر اگلتے ہیں تاکہ بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کر سکیں۔ اوورسیز پاکستانی امیر دولتمند لوگ نہیں تھے غریب اور مڈل کلاس لوگ تھے۔ باہر کے ملکوں میں محنت مزدوری اور تعلیمی صلاحیت سے خوشحال ہو گئے اور انہوں نے الٹا ملک کو پیسہ بھیجا ملک سے پیسہ لیا نہیں۔ زر مبادلہ اسی محنت مزدوری کا نام ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان لوٹنے کے آرزومند بھی رہتے ہیں اور اس طبقہ پر حیران بھی ہوتے ہیں جو پاکستان میں دولتمند ہونے کے باوجود پاکستان کو برا کہتے ہیں اور اس ملک کے طفیل کمائی ہوئی دولت بیرون ملک منتقل کر تے ہیں۔ دولت شہرت کمانے کے لئے غریب بد نصیب پاکستان اور جب باہر شفٹ ہونے کا ارادہ کریں تب پاکستان برا؟
شفاف نظام اور انصاف لانے کے لئے پاکستان کو لوگ بھی وفادار اور ایماندار چاہئیں لیکن بد نصیبی سے ہر شعبے اور ادارے میں سب نے اپنا پیٹ اور بینک ہی بھرا۔ کسی نے ووٹ خریدا کسی نے قلم بیچا کسی نے زبان بیچی کسی نے ایمان بیچا کسی نے عوام کا اعتماد بیچا اور مال امریکہ کینیڈا، دبئی برطانیہ شفٹ کر دیا۔ پاکستان کو بھی ان بھگوڑوں اور خود غرض مفاد پرستوں کی ضرورت نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول مبارک ہے کہ جس کم ظرف پر احسانْ کرو اس کے شر سے بچو۔ پاکستان کھلاتا پڑھاتا ہے نام اور فیم دیتا ہے عزت دولت اور ڈگری دیتا ہے سب کا سگا ہے لیکن یہ کم ظرف پاکستان کے سگے نہیں۔ پاکستان سے دولت سمیٹ کر بیرون ملک شفٹ ہوجانااور پاکستان سے خالی ہاتھ بیرون ملک جانا اور بیرون ملک سے پاکستان پیسہ بھیجنا یہ دو الگ طبقات ہیں۔ یہ فرق واضح کر لیں غریب سفید پوش محنت کش مزدور ہو یا ڈاکٹر اوورسیز پاکستانی سچے پاکستانی ہیں۔ پاکستان کو تمام تر کمزوریوں اور برایئوں سمیت واپس پاکستان جا کر رہنے کا ارمان کرتے ہیں۔ زر مبادلہ بھیج کر خاندانوں کو پال رہے ہیں۔
کرونا کے باعث گلف ممالک سے لاکھوں بیروزگار پاکستانی وطن لوٹ رہے ہیں اور یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں پھر بھی اپنے وطن کی غربت غیروں کی ضلالت سے بہتر ہے۔ اور حیران ہیں جو پاکستان میں دولت ہوتے ہوئے غیروں کے دیس کو اپنے ملک پر ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں ریپ ہوتے ہیں تو کیا باہر کی دنیا میں نہیں ہوتے؟ پاکستان میں دولت اکٹھی کر لی توپھر اسی بد نصیب میں دنیا جہاں کی برائی نظر آنے لگی؟ کرونا کا عذاب مغرب کی معیشت تباہ کر گیا اور پاکستان کے غریبوں کی دعائیں اس ملک کو بچا گئیں۔ پاکستان کے امیر لوگ شوق سے مغرب شفٹ ہو جائیں ان کا پیسہ پہلے شفٹ ہو چکا ہوتا ہے لیکن ہمارے بزرگوں کے ملک کی کمزوریوں کو جواز بنا نے کا ڈھونگ رچانا بند کریں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ سیاست فیم دولت اور جی حضور ی کا نشہ صرف پاکستان میں ہی پورا ہوسکتا ہے ورنہ باہر انہیں کون جانتا ہے؟ یہ پاکستان کا پیسہ ہے ورنہ ان بھگوڑوں کے پاس کیا اہلیت ہے۔ باہر انہیں گوری کا کتا نہلانے کی بھی ملازمت نہ ملے۔