پاکستان کی بے رحم سیاست
مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر نے کہا ہے کہ میرے خیال میں ملیکہ بخاری کو کتاب شاہ محمود قریشی نے ماری ہو گی۔ گالی کے سوال پر شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ پنجاب کا کلچر ہے، غصے میں آکر بندہ گالی دے دیتا ہے۔ موصوف نے د رست ہی تو کہا، اپنے گھر کی تربیت بتائی ہے۔ ماں بہن کی گالی چار دیواری تک رہے تو ذاتی معاملہ ہوتا ہے، باہر نکالی جائے اور وہ بھی نام نہاد پڑھی لکھی اسمبلی میں تو حرام ہو جاتی ہے۔ پنجاب کا کلچر ماں بہن کی تعظیم کا نام ہے، صوفیا کی سر زمین کا نام ہے، اقدار و روایات کا نام ہے، لیکن مال حرام کھانے بنانے والے پنجاب کے کلچر کا بد نما داغ ہیں۔ پنجاب کے لئے گالی ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں نے اسمبلی میں جو ہلڑ بازی کی وہ ان کی مائوں کی تربیت کا پتہ دیتی ہے۔ اگر یہ اشرافیہ ہے تو بدمعاشیہ کس کو کہتے ہیں؟
نو دولتیے جاہل گنوار پھر کہتے ہیں بوٹوں والوں نے ان کی جمہوریت روند ڈالی؟ آپ اس قابل ہی نہیں کہ مسند وں پر بٹھائے جائو۔ حکومت اور اپوزیشن کے ایک ایک نمائندہ کا کلپ عدالت میں پیش کیا جائے، ان سب کی رکنیت ختم کی جائے۔ مراد سعید کرسی پر کھڑے ہو کر بجٹ کی کاپیاں پھینکتا رہا کیا اس کی رکنیت معطل ہو گی؟ پڑھے لکھے شاہ محمود قریشی نے بھی تعلیم و تربیت کا خوب مظاہرہ کیا۔ حکومت و اپوزیشن کی خواتین نے بھی جگا بازی میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی۔ پڑھی لکھی اسمبلی میں ایک خاتون رکن کی آنکھ زخمی ہو گئی، جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، سیاست اور بدمعاشی میں سب حلال ہے، پھر شکوہ کیا شکایت کیسی؟ سب مجرم ہیں مگر مراد سعید شاہ محمود قریشی جیسے منظور نظر مکھن سے بال کی طرح صاف نکال لئے جائیں گے۔ اس اسمبلی میں ووٹ کی عزت بھی دیکھ لی اور ریاست مدینہ کے درویشوں کی روحانیت بھی دیکھ لی۔ کسی نے کم نہیں کیا۔
اسلامی ریاست پاکستان عاشقان رسول کی ریاست کے جاہلوں نے اسلامی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ بلا امتیاز عورت مرد سب نے خوب حصہ ڈالا۔ خاموش رہنے والوں نے خاموشی سے حصہ ڈالا۔ بجٹ کی کاپیاں پھینکنا کم تھا کہ غلیظ گالی گلوچ کیا گیا؟ مار دھاڑ سے بھر پور فلم پاکستانی سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی دیکھی نہ سنی۔ ساری دنیا چشم دید گواہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تقریر شروع کی تو حکومتی ارکان نے نعرے بازی شروع کر دی اور جلد ہی صورتحال ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ شہباز شریف نے اپنے خطاب میں حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے دور میں کیے گئے اقدامات گنواتے رہے۔ حکومتی ارکان کی جانب سے مسلسل شور شرابہ کیا جاتا رہا جس کے بعد اپوزیشن کے ارکان نے شہباز شریف کے گرد گھیرا بنا لیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ممبر اسمبلی ایک دوسرے پر بجٹ کی بھاری بھرکم کاپیاں پھینکتے ہوئے بھی دکھائی دیے اور پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان اور مسلم لیگ (ن) کے شیخ روحیل اصغر کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا۔ علی نواز اعوان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں وہ نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے نظر آئے۔
اس معاملے پر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے متفقہ طور پر یہی ردِعمل سامنے آیا ہے کہ منگل کو اسمبلی میں جو کچھ ہوا، وہ ٹھیک نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود دونوں فریق ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ پاکستان کی بیہودہ سیاست میں ایسے بے ضمیر پائے جاتے ہیں۔ آن دی ریکارڈ ککڑوں کی طرح لڑتے ہیں اور آف دی ریکارڈ ہم نوالہ ہم پیالہ ہوتے ہیں اور اس بے ضمیری کو سیاست کا نام دیتے ہیں؟ واقعی سیاست بے رحم ہوتی ہے۔ کسی کی ماں بہن بیٹی کو نہیں بخشتی۔ غلاظت اگلتی ہے تو اوقات بتا دیتی ہے۔ منافقت کھلتی ہے تو تربیت سمجھا دیتی ہے۔ ووٹ کو کا جنازہ نکال کے جنازہ بھی نہیں پڑھاتی ہے۔ تبدیلی کا فراڈ رچا کے مرہم پٹی بھی نہیں کرتی۔