محبت کی غلامی
شادی خواہ ارینج ہو یا جبری۔ بیوی بچوں کا خیال رکھنے والے شوہر سے ایک دن محبت ہو ہی جاتی ہے۔ شوہر کے لئے گرم چپاتی پکانا، کپڑے دھونا، تھک جائے تواس کے پاؤں دبانا اظہار محبت ہیغلامی نہیں۔ شوہر بھی کچن میں ہاتھ بٹاتا ہے بیوی کے کندھے اور سر دباتا ہے۔ اسے خیال رکھنا، محبت کرنا کہتے ہیں۔ زن مریدی نہیں۔ محبت کے اس انداز کوایک نفسیاتی بیمار عورت نہیں سمجھ سکتی۔
فیمینسٹ بیمار عورت نما طبقہ بیچارہ شاہراہوں اور چوکوں پر بینرز اٹھائے تماشہ بن چکا ہے۔ ایک لڑکی نے بینر اٹھا رکھا تھا "آپ کے بگڑے ہوئے بیٹے کو ٹھیک کرنا کسی کی بیٹی کی ذمہ داری نہیں، شادی کر دو لڑکا ٹھیک ہو جائے گا کے چکر میں لڑکیاں مر جاتی ہیں" ہم نے بینر والی لڑکی سے کہا درست کہتی ہو کسی کی بیٹی کی ذمہ داری نہیں بلکہ تیری نانی کی بیٹی کی ذمہ داری ہے۔ یعنی تیری ماں کی۔ کان ادھر سے پکڑو یا ادھر سے اولاد کی پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش ہے اور ماں عورت کو کہتے ہیں۔
عورت بحیثیت ماں اپنی اولین ذمہ داری نبھائے تو آج اسے چوک پر بینر اٹھا کر کھڑے ہونے کی اذیت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ بیٹے کو حیا غیرت ایمان اخلاق کی تربیت دی ہوتی تو کسی کی بیٹی برباد نہ ہوتی۔ عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ اور تیری دادی کے بیٹے یعنی تیرے باپ نے رزق حلال کھایا اور کھلایا ہوتا تو اس کا بیٹا لچر اور قاتل نہ نکلتا۔ یہ بینر اپنے والدین کی تربیت کے خلاف اٹھاؤ لڑکی۔۔
نکاح کے بغیر ہنی مون منانے والے جوڑوں کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔ ماں کی تربیت اور باپ کے لقمہ حرام کا انجام اولاد کی بربادی کی صورت مکافات عمل بنتا ہے۔ پہلے لڑکا لڑکی مخلوط تعلیمی درسگاہوں اور ہاسٹل میں چوری چھپے ملتے تھے۔ پھر ترقی کر لی تو والدین سے جھوٹ بول کر شہر سے باہر جانے لگے، مزید ترقی ہوگئی تو مری تک چلے گئے اور اب اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ گلگت سکردو تک چلے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک " نا بیاہتا " جوڑا ہنی مون منانے سکردو ہوٹل پہنچا ہوا تھا۔
حسب توقع لڑکی کے پاس پیسے ختم ہو گئے تو لڑکا اسے کمرے میں سوتا چھوڑ کر رفو چکر ہوگیا۔ روتی دھوتی پریشان حال لڑکی کو ہمارے سیکیورٹی اداروں نے بحفاظت لاہور پہنچایا۔ لڑکی نے کہا اسے گھر نہیں ہاسٹل پہنچایا جائے۔ والدین سے جھوٹ بول کر نکلی تھی کہ سہیلیوں کے ساتھ ٹرپ پر جارہی ہے اور موبائل فون بند رکھا، اب بہانہ کر دے گی فون خراب ہوگیا تھا وغیرہ۔ یہ چند ایک واقعات ہیں مگر پورے معاشرے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ میڈیا کو خبر ہاتھ لگ جائے تو اس وقت تک لسی بناتے ہیں جب تک دوسری ایسی خبر ہاتھ نہ لگ جائے۔ امریکہ میں ہر 57 سیکنڈ بعد ریپ، قتل ہوتا ہے لہٰذا امریکی میڈیا ایسی خبریں دینے لگے تو کوئی اور خبر نہیں دے سکتا۔
پاکستان میں آبادی کے تناسب سے ریپ اور قتل کے واقعات نسبتا کم رونما ہوتے ہیں لہذا پاکستانی میڈیا ایک خبر کو مہینوں گھماتا رہتا ہے اور دنیا کو یوں دکھاتا ہے جیسے پاکستان دنیا کا بد ترین بے حیا ملک ہے۔ بیٹے کی حیا کی تربیت گاہ اس کی ماں ہے اور شرافت کا نوالہ باپ کھلاتا ہے۔ جب والدین اپنی ڈیوٹی سے بد دیانتی کرنے لگیں تو اسلام آباد قتل کیس جیسے واقعات زیادہ رونما ہونے لگتے ہیں۔ بال بچوں کا خیال رکھنے والے شوہر سے اظہار محبت اس کا خیال رکھنا ہے۔ اظہار محبت میاں بیوی کا ذاتی معاملہ ہے۔ کبھی شوہر گھر ہوتا ہے بیوی کے لئے چائے بنا دیتا ہے تو زن مرید یا ملازم نہیں ہوجاتا۔ اسی طرح بیوی کو ملازمہ سمجھنا بیمار طبقہ کی جہالت ہے۔ ایساشیطان طبقہ ہی شوہر بیوی میں نفاق ڈالتا ہے۔
مرد کے گھر والے بھی اگر اس کی بیوی سے محبت اور care کو طعنہ بنا دیتے ہیں تو شیطانی کردار ادا کر رہے ہیں۔ شوہر کا مقام اس کی مالی سپورٹ کے سبب ہے کہ گھر کا نگہبان ہے اور بیوی اس کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو گھر کا پورا نظام سنبھالے ہوئے ہے۔ جو میاں بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں عزت قدر کرتے ہیں ان کے گھر میں برکات اور سکون ہے اور جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں ان کے گھروں میں نحوست اور بے برکتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں جس گھر میں بیوی شوہر کی برایئاں بیان کرتی رہے، نا شکری کرے۔ اس عورت سے دور رہو، حاسد ہوتی ہے ایسی عورت۔ کسی کا ہنستا بستا گھر آباد نہیں دیکھ سکتی۔
یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ایک نارمل ذہنی طور پر صحتمند عورت جس مرد کی چھت تلے رہتی ہے اس کی کمائی کھاتی ہے اس کے بچے پیدا کرتی ہے، دن رات لباس کی طرح ساتھ رہتی ہے، اسی شوہر کی پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتی ہے؟ شوہر مار پیٹ کرے ظلم کرے تو خلع کا راستہ کھلا ہے مگر ساتھ بھی رہنا اور شوہر کو ذلیل بھی کرتے رہنا منافقت اور غداری ہے۔ عورت عظیم تخلیق ہے اگر وہ اپنی عظمت کا شملہ بلند رکھے۔ لیکن جب گر جائے تو اس سے خطرناک خوفناک کوئی چیز نہیں۔ اپنا باپ بھائی بیٹا سب کو پیارے لگتے ہیں۔ ان کے لئے کھانا بھی بناتی ہیں صدقے واری بھی جاتی ہیں لیکن یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ شوہر بھی کسی کا باپ بھائی بیٹا ہے؟
بیمار فیمینسٹ بیچاری کو مرد سے نفرت نہیں کیونکہ باپ بھائی بیٹا بڑا پیارا اور عظیم ہے، عورت نما مخلوق کو شوہر سے نفرت ہے۔ اسے نارمل بیوی بننا ہی نہیں آیا۔ کوئی کسی کو غلام نہیں بنا سکتا۔ محبت کی غلامی ہی در حقیقت بادشاہت ہے۔ میاں بیوی میں اک دوجے کی کئیر کا نام ہی محبت ہے۔