مغربیت کا احساس کمتری
فحاشی اور کرونا پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ ایک جسمانی بیماری دوسری اخلاقی بیماری۔ ایک جسم پر حملہ آوردوسری روح کی قاتل۔ ایک طبقہ کروناکاانکاری دوسرا فحاشی کا منکر۔۔۔ یااللہ اپنے بندوں کے حال پررحم فرما۔۔ وزیر اعظم نے ایسا کیا کہہ دیا کہ ایک طبقہ چاں چاں کرتا پھر رہا ہے۔ در حقیقت عمران خان نے نام نہاد پڑھے لکھے طبقہ کی دم پر پیر رکھ دیا ہے۔ وزیر اعظم نے ریپ فحاشی اور عریانی پر کھل کر بات کر کے مغرب کو ناراض تو کیا مغرب کے نقالوں کو بھی آئینہ دکھا دیا ہے۔ وزیر اعظم نے زمینی حقائق بتاتے ہو کہا کہ اگرچہ ریپ کے بارے میں حکومت نے سخت قوانین بنائے ہیں لیکن ایسے جرائم کے بڑھنے کی وجوہات کو بھی دیکھنا ہوگا اور ان میں سے ایک وجہ فحاشی کا پھیلنا ہے،۔ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے صرف قانون بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پورے معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ معاشرے نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ معاشرے کی تباہی ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔
آج جس معاشرے کے اندر آپ فحاشی بڑھاتے جائیں تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ہمارے دین میں کیوں منع کیا گیا ہے؟ پردے کی تاکید کیوں کی گئی ہے؟ تاکہ کسی کو ترغیب نہ ملے۔ ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے۔ آپ معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے تو اس کے اثرات ہوں گے۔ ،۔ وزیر اعظم نے اس میں کیا غلط کہ؟ اسلامی ریاست کا وزیر اعظم بات کر رہا تھا کوئی یورپ امریکہ کینیڈا کا نہیں جو اسے قرآنی بات کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے؟ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا للہ ہے اور محمد رسول اللہ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مقدس میں پردے سے متعلق عورت مرد کے لئے واضح احکامات موجود ہیں۔ قرآنی آیات کا انکار کفر ہے۔ آیات پر عمل نہ کرنا گناہگار بناتا ہے مگر آیات کا انکار یا مذاق کافر بنا دیتا ہے۔ ساری دنیا مانتی ہے کہ ریپیٹ ذہنی بیمار لوگ ہوتے ہیں۔ عورت بچے لڑکے کسی کو نہیں چھوڑتے۔ پردہ لباس ان کے سامنے بے معنی ہے۔ جنونی جہاں موقع لگے ہوس کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے۔ جن ممالک کیں سخت اسلامی حدود نافذ ہیں اور پردہ بھی مکمل کیا جاتا ہے وہاں بھی ریپ کے واقعات شرمناک ہیں۔
آمریت کی وجہ سے ایسی خبریں میڈیا کی زینت نہیں بنتیں مگر سچ تو یہ ہے رپیٹ ایک بیمار سوچ کا نام ہے جو پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ تمام دنیا میں تمام مذاہب کے مذہبی مراکز تک کا احترام نہیں کیا جاتا۔ حلال رشتوں کی حیا نہیں رکھی جاتی۔ مذہبی طبقہ میں بھی الا ما شا اللہ بیمار لوگ موجود ہیں۔ عورتوں لڑکوں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں متعدد عوامل شامل ہیں ان میں فحاشی اور عریانی کا عنصر بھی شامل ہے۔ اسلامی ریاست کا وزیر اعظم اپنے مسلم معاشرے سے مخاطب ہے کافروں سے نہیں۔ اس کی گفتگو کو توڑ موڑ کے پیش کرنا منافقت ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہودیوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ قرآن کی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر آیت قرآنی کو اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر بیان کیا کرتے تھے۔ وزیر اعظم نے ریپ واقعات سے بچنے کے لئے فحاشی اور بے حیائی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ سوشل میڈیا پر فحش فلمیں اور بلاگرز بھی جنسی اشتعال کا سبب بن رہے ہیں۔ وزیراعظم نے درست ہی تو کہا کہ ان گھنائونے جرائم پر قابو پانے کے لئے قوانین بے فائدہ ہیں جب تک پورا معاشرہ مدد نہیں کرے گا۔ اساتذہ والدین علما سب کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔ نابالغ بچوں کی حفاظت والدین اور اساتذہ کی اولین ڈیوٹی ہے اور بالغ افراد خود کو عریاں لباس اور فحش ماحول سے خود کو بچائیں۔
رپیٹ کا غربت یا بیروزگاری سے نہیں نفسیاتی مرض سے تعلق ہے۔ ہر جرم کو غربت اور بیروزگاری کے کھاتے میں ڈالنا بھی کرائم ہے۔ کہتے ہیں غربت ضمیر خرید لیتی ہے لیکن اس دلیل میں وزن نہیں کہ یہ ملک پہلے روز سے غریب ہے لیکن غریب کا ضمیر خودداری اور ایمان سے لبریز ہوتا تھا۔ فحاشی عریانی بند دروازوں تک محدود تھی۔ شہوت بھی بے مہار نہ تھی۔ پاکستان کے لئے غریبوں نے قربانیاں دیں اور کسی کے آگے نہیں جھکے لیکن آج ایسا کیا ہو گیا کہ دولت مند بھی مفلس ہو گئے؟ الا ما شاء اللہ لوگوں میں شرم حیا غیرت اور اللہ کا خوف ختم ہو تا جا رہاہے۔ دنیا کے مال نے امیر غریب سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔ پاکستان کے ریستورانوں میں جائو تو انسانوں کی بھیڑ دکھائی دے گی، بظاہر لوگ بڑے زندہ دل اور پر سکون معلوم ہوتے ہیں لیکن بے یقینی ڈیپریشن کا آسیب ان کے سروں پر منڈلا ہے اس کا سبب دین سے بے رغبتی اور مغربیت کا احساس کمتری ہے۔