اقتدار کی بھینٹ
ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور اقتدار نے بھٹو کا خاندان سانحات کی سولی پر لٹکا دیا۔ بیگم نصرت بھٹو اعلیٰ پائے کے کسی گھرانے کی شاید ہی کوئی ایسی خاتون ہوں جنہوں نے اپنی زندگی میں شوہر اور تین بچوں کی لاشیں اُٹھائی ہوں۔ نصرت بھٹو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری اہلیہ تھیں۔ ان کے چار بچے ہوئے۔ جن میں بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، صنم بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو شامل ہیں۔
بیگم نصرت بھٹو 1929ء میں ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا ایک امیر خاندان سے تعلق تھا اور ان کے والد کراچی میں مقیم رہے اور بڑی کاروباری شخصیت تھے۔ ان کے شوہر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 51سال کی عمر میں 1979کو فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی ہوئی۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بنیں لیکن جب کینسر ہو گیا تو وہ علاج کے لیے لندن چلی گئیں اور ان کی بڑی صاحبزادی بینظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری برس دبئی میں گزارے اور آخری ایام میں وہ کسی کو پہچاننے سے بھی قاصر تھیں۔ 1996ء میں بینظیر کے حکومتی دور میں مرتضٰی کے ماروائے عدالت قتل کے بعد ذہنی توازن کھو بیٹھی اور اس کے بعد مرنے تک بے نظیر کے خاندان کے ساتھ دبئی میں مقید رہی۔ 23 اکتوبر 2011ء اتوار کو دبئی میں انتقال کر گئیں۔ اقتدار بہت خوشنما ہوتا ہے لیکن اقتدار کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ بھٹو کا خاندان اقتدار کی بھینٹ چڑھ گیا۔
سانحات مسلسل ان کا پیچھا کرتے رہے۔ ان کی اولاد میں سے صرف صنم بھٹو سیاست سے فرار حاصل کرنے کی وجہ سے زندہ ہیں۔ شوہر کو پھانسی دی گئی، دو بیٹے مارے گئے۔ بیٹی متعدد بار گرفتار ہوئیں۔ بیٹی کا قتل ہوا تو وہ اس حالت میں نہیں تھیں کہ کچھ سن سکیں۔ بے درد سیاست کی دنیا میں نصرت بھٹو نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ جواں سال بیٹے شاہنواز کی پراسرار حالات میں موت اور چند برس بعد بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کے قتل نے ان کی صحت پر تباہ کن اثرات چھوڑے۔ سابق خاتون اوّل بیگم کلثوم نواز بھی فوت ہو چکی ہیں۔ آخرکار سب مرنے جانا ہے، اقتدار کسی کے ساتھ نہیں جائے گا لیکن یہ اقتدار ظالم دنیا برباد کر دیتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کیساتھ ن لیگ نے جوکیا تاریخ کا حصہ ہے۔ ان کی بگاڑی ہوئی تصاویر ہیلی کاپٹروں سے لاہور شہر پر پھینکی گئیں، نصرت بھٹو کی تصویریں پھینکی گئیں، جمائما خان کی کردار کشی کی گئی، شیریں مزاری کیساتھ پارلیمنٹ کے اندر جس طرح کی زبان استعمال کی گئی۔
خواتین کے خلاف بیہودہ اندازہ سیاست پچھلی حکومتوں سے چلا آرہا ہے جس کا مکافات عمل ن لیگ کی بیٹی اور رہنما مریم نواز کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ خاتون اوّل نصرت بھٹو کی زندگی ایک عبرتناک داستان ہے۔ بے نظیر بھٹو کا قتل بھی کر دیا گیا۔ اقتدار کا ایک باب بند ہو گیا۔ جنرل ضیا الحق بھی اقتدار کو پیارے ہو گئے۔ ان سے پہلے فوجی اور سول حکمران بھی اقتدار کی موت مر گئے۔ جنرل پرویز مشرف بھی اقتدار کے ہاتھوں دنیا و آخرت کی رسوائی سمیٹے زندگی کے دن گن رہے ہیں۔ مارشل لاء بھی ہوسِ اقتدار کی کوکھ سے بر آمد ہوئے۔ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف اقتدار کی ہوس میں بڑھاپا بھی خوار کر رہے ہیں۔ عمران خان کی پہلی باری ہے، موروثیت کا کوئی رولا نہیں، وزیر اعظم بننے کا جنون تھا سو پورا ہوا، مدت اقتدار پوری ہوگی یا نہیں، وزارت عظمی کا خواب تو پورا ہوا۔ پاکستان میں بڑے آئے بڑے گئے۔ پاکستان کو برباد کرنے میں کسی نے کسر نہیں چھوڑی لیکن اس مملکت خداداد کو شہیدوں کی قربانیوں کا لہو بچائے چلے جا رہا ہے۔ ہوس اقتدار چم چم کرتی کاروں اور لش لش کرتے بنگلوں میں رہتی ہے۔ وہ تنگ و تاریک گلیوں اور گرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھروندوں میں بھول کر بھی قدم نہیں رکھتی۔