ہارڈ ٹاک کا طمانچہ
نوازشریف کے سمدھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو لندن میں پناہ لیے بیٹھے ہیں بی بی سی کے صحافی سٹیفن سیکرکو انٹرویو دیا، جس میں انہیں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، اسحاق ڈار سٹیفن سکر کو بھی پاکستانی صحافی سمجھ کر گئے تھے مگر جنہوں نے اسحاق ڈار اور نوازشریف کو پناہ دی، وہی اب انہیں ذلیل کررہے ہیں۔ جن سے سیاسی پناہ کی اپیل کر رکھی ہے ان کے سامنے سر جھکایا جاتا ہے۔ یہ تو پاکستان ہے جہاں بھگوڑوں اور جھوٹوں کو بھی لیڈر مانا جاتا ہے، اسحاق ڈار بھول گئے کہ وہ "کیپیٹل ٹاک" نہیں "ہارڈ ٹاک" میں بیٹھے ہیں۔ اپنے اینکروں کو یہ لوگ ڈیلے پھاڑ پھاڑ کر چپ کرا دیتے ہیں اور فرنگی کے سامنے ڈیلے باہر آجاتے ہیں۔ اپنے اینکروں کو گستاخانہ سوال پر چھوڑتے نہیں اور فرنگی کے سامنے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ مفرور سیاستدانوں کی موجیں ہوتی ہیں، عمران خان کی اگلی حکومت بھی آ جائے تو ڈار نے لندن ہی زندگی گزارنی ہے، ساری دولت بیرون ممالک، اور بچوں کے نام پر ہے، دس سال بعد زندہ نہ بھی رہے تو نقصان کوئی نہیں، جب کوئی اور حکومت آئے گی انْ کی اولادیں اس حکومت میں سینیٹر اور وزیر بن لگ جائیں گی۔
بی بی سی کے صحافی نے اسحاق ڈار سے سوال نہیں بلکہ انہیں خبردار کیا کہ " اگر آپ کی پاکستان میں یاپاکستان سے باہرجائیداد ہے اور آپ نے ٹیکس بھی ادا کر رکھا ہے تو آپ پاکستان واپس جا کر مقدمہ درج کیوں نہیں کرواتے؟ صحت بھی خیر سے ٹھیک ٹھاک ہے یعنی دیکھنے میں ہٹے کٹے نظر آتے ہیں تو واپس اپنے ملک کیوں نہیں جاتے؟ اپنے کی کال کوٹھری بھی فرنگی کی بھیک میں مانگی پناہ سے کروڑ درجہ افضل ہے۔ اسحاق ڈار نے فرنگی کے سامنے بیٹھ کر پاکستان اور اس کے اداروں کو رسوا کیا، خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی مگر " بڑے بے آبرو ہو کر تیرے سٹوڈیو سے ہم نکلے۔ پاکستان کے اندرونی حالات کا غیر متعصبانہ تجزیہ کیا جائے تو اسے دنیا کا کرپٹ ترین ملک قرار دیا جاتا ہے، الا ما شاء اللہ اوپر سے نیچے تک ضمیر بک چکے ہیں۔ ہر ادارہ حرام کے صدقے پروان چڑھ رہا ہے۔ اندرون و بیرون ملک عیش کرتے ہیں، اندھا دھند دولت اکٹھی کرتے ہیں، مشرق میں بنگلے ہیں مغرب میں بنگلے، اولادوں کو بیرون ملک سیٹل کر رکھا ہے، ریٹائر ہو جائیں تب بھی ان کا طرز زندگی متاثر نہیں ہوتا۔
ملک کے خزانے کو جس بے دردی سے لوٹ رہے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی اور جو ایماندار نوکری پیشہ ہیں وہ جلتے کڑھتے اور نا معلوم افراد کی گولی کے خوف میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں۔ شوہروں کے تبادلوں اور ترقیوں میں الا ما شاء اللہ افسران کی بیگمات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں اور بیگمات کی کمزوری بیش بہا تحائف اور اولادوں کی بے جا خواہشات کی تکمیل ہے۔ پاکستان کی نام نہاد ایلیٹ کلاس کا لائف سٹائل قابل رحم ہے۔ یہ لوگ ڈیپریشن اور احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ سکون کی دوائیاں کھاتے ہیں۔ دل کے مریض ہیں۔ شراب نوشی عام ہے۔ اکثر کی خواتین بھی نشہ کی عادی ہیں۔ اولادیں گمراہی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں جتنی تنخواہ ایک اعلیٰ افسر یا وزیر کی ہے، اس میں بمشکل اس کی بیگم کے دو جوڑے آتے ہیں۔ یہ نام نہاد اسلامی مشرقی معاشرہ نہ جانے کہاں جا رہاہے اور اس کا اینڈ کہاں ہو گا۔ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، کرپشن میں بھی اسی قدر اضافہ ہو رہاہے۔
عمران خان زرداری اور شریفوں کی کرپشن کی لکیر پیٹنے کی بجائے غریبوں کے لیڈر بنیں۔ روٹی، کپڑا اور مکا ن کا نعرہ بھٹو بھی لگا گئے مگراپنی عیش و عشرت متاثر نہیں ہونے دی۔ شاہ محمود قریشی اور پارٹی کے دیگر امراء بھی غریبوں کو رونے کی بجائے اپنے لائف سٹائل تبدیل کریں۔ غریبوں کے نذرانوں پر نظر رکھنے والے قوم کو کیا دے سکتے ہیں؟ سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا یہ سوچ کر کہ اگلے جہان کی " ہارڈ ٹاک " کا دروازہ جہنم میں کھلے گا۔