بلتستان کے مسائل
مومنہ چیمہ فائونڈیشن (ایم سی ایف) کی جانب سے سکردو انٹر نیشنل ائیر پورٹ انتظامیہ نے Time management and stress کے موضوع پر ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ سپیکر پروفیسر ڈاکٹر تنزیلہ خالد نے سکردو ائیر پورٹ سٹاف اور افسران کو ایک تفصیلی ٹاک دی۔
چیف آپریٹنگ افسر میاں شاہد عمران اور ائیرپورٹ کے اعلیٰ عہدیداران کی خصوصی کاوش سے ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ مومنہ چیمہ فائونڈیشن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر تنزیلہ خالد کی گفتگو کو نہ صرف بے حد سراہا گیا بلکہ مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن کی بلتستان میں رفاعی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش گیا گیا۔ واضح رہے کہ مومنہ چیمہ فائونڈیشن کی ملک بھر میں تعلیمی خدمات کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں واٹر اور صحت پراجیکٹس بھی اپنا ایک مقام بنا چکی ہے۔ ضلع شگر میں ہیڈ آفس کا قیام بھی ہوگیا ہے اور ضلع شگر کے علاوہ ضلع گانچھے اور سکردو میں بھی رفاعی خدمات کی شروعات ہو چکی ہے۔
گو کہ تمام بلتستان ہی انتہائی پسماندہ علاقہ ہے لیکن گانچھے کا دیہات کورو آبادی کے اعتبار سے بہت بڑا ہونے کے باوجود بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ مومنہ چیمہ فائونڈیشن ٹیم نے گاؤں کے اسلامیہ مڈل سکول اور سرکاری مڈل سکول کا نہ صرف وزٹ کیا بلکہ مڈل سکول کو ہائی سکول تک لے جانے کی تجاویز بھی پیش کیں۔ اسلامیہ مڈل سکول میں مومنہ چیمہ لائبریری قائم کرنے کا عزم کا بھی ظاہر کیا۔ اسلامیہ مڈل سکول کورو ضلع گانچھے اپنی مدد آپ کے تحت ایک قابل تحسین کاوش ہے۔
گلگت بلتستان ایک صوبے کا نام ہے مگر گلگت اور بلتستان زبان اور علاقائی ماحول کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ گلگت اور وادی ہنزہ میں آغا خان فائونڈیشن جیسی بڑی این جی اوز نے تعلیم اور تہذیب کو ترقی دے رکھی ہے جبکہ بلتستان کا مضافات بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔
سکردو بظاہر انٹر نیشنل شہر کہلاتا ہے مگر پسماندہ اور جدید سہولیات سے محروم ہے۔ ویسے تو پورے بلتستان کا حال ہی نہ گفتہ بہ ہے البتہ سکردو ائیر پورٹ ہارڈ ایر یا اور تمام تر مشکلات کے باوجود مسافروں کے لیے ہر ممکن سہولیات مہیا کر رہا ہے۔ گرمیوں میں سکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ریکارڈ مسافروں کی آمد ہوتی ہے جو کہ گلگت ایئرپورٹ سے 30 گنا زیادہ ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی ذرائع کے مطابق رواں سال صرف ماہ جون میں سکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 94 فلائٹ کے ذریعے 16920 مسافر اور اسی ماہ گلگت ایئرپورٹ پر 16 فلائٹ پر 720 مسافروں کی گلگت آمد ہوئی۔
ماہرین کے مطابق سیاحت میں اضافہ سے فلائٹس کی تعداد بڑھ چکی ہے جبکہ گلگت ایئرپورٹ پر بڑے جہازوں کی آمد نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کی تعداد سکردو ایئرپورٹ کی نسبت کئی گنا کم ہے جبکہ موسم خرابی کی وجہ سے فلائٹ کے نہ ہونے سے بھی کئی مسافر گلگت سے بائی روڈ سکردو ایئرپورٹ کے ذریعے ملک کے دیگر علاقوں کو جاتے ہیں۔ سکردو انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے بہتر انتظامات کے پیچھے انتظامیہ کی محنت کار فرما ہے۔
جہاں تک سرکاری درسگاہوں کی حالت کا تعلق ہے پورے پاکستان میں صورتحال تشویشناک ہے۔ گلگت بلتستان میں تو افسوسناک حالات ہیں۔ عمارتیں ہیں مگر اساتذہ نہیں ہیں اور جو سرکاری تنخواہ دار اساتذہ دیہاتوں میں تعینات کیے ہیں ان میں بھی اثرو رسوخ استعمال کرکے سکردو اور گلگت شہروں میں اپنے گھروں میں بیٹھے مفت کی تنخواہ کھا رہے ہیں اور سرکاری سکول اساتذہ کے لیے این جی اوز سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہیں۔
بلتی لوگ مہمان نواز مہربان اور خوش مزاج ہیں۔ بلتی نوجوان نسل ابھی بہت سی برائیوں سے محفوظ ہے۔ البتہ جس تیزی سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بڑھ رہا ہے اور بڑے بڑے ہوٹل تعمیر ہو رہے ہیں، اس خطہ کا مستقبل بھی کوہ مری اور پنجاب جیسا ہونے کا اندیشہ ہے۔ مخلوط تعلیمی ادارے بھی ہیں اور نوجوان نسل میں اعتماد اور مذہبی لحاظ برقرار ہے۔ اہل تشیع کی اکثریت آباد ہے اور ان کے علما اور بزرگ اپنے علاقوں میں باہر سے فحاشی اور گمراہی کی آمد کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
یہاں خواتین بہت محنتی ہیں۔ لڑکیاں تعلیم کے ساتھ اپنی مائوں کے ساتھ کھیتی باڑی میں بھی ہاتھ بٹاتی ہیں۔ جن دیہات میں مڈل تک سکول ہیں اکثر لڑکیوں کی مڈل کے بعد شادی کر دی جاتی ہے جبکہ لڑکیاں آگے پڑھنا اور بڑھنا چاہتی ہیں۔ بلتستان کا سب سے بڑا ضلع شگر ہے۔ یہاں بھی ایف اے تک تعلیم ہے۔ لڑکے مزید تعلیم کے لیے گلگت سکردو یا پنجاب اور کراچی کا رخ کرتے ہیں اور ان کے آبائی علاقوں میں روزگار نہ ہونے کے سبب انھی شہروں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جبکہ بہت کم خوش نصیب لڑکیاں یونیورسٹی تعلیم کے لیے گلگت سکردو یا پاکستان کے دیگر صوبوں میں جا سکتی ہیں، سبب مالی خوشحالی اور والدین کی اجازت ہے۔
گلگت بلتستان ایک ایسا علاقہ ہے جس کا 1948ء میں پاکستان سے الحاق کیا گیا تھا۔ اس وقت اس خطے میں کوئی تعلیمی نظام نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ گلگت بلتستان کے کچھ مزید عزائم کے طالب علم بہتر تعلیم کی تلاش میں مختلف شہروں (جیسے کراچی اور لاہور) کی طرف چلے گئے۔ ان میں سے کچھ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے گھر واپس آگئے اور اپنے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا، اس طرح لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ خواندہ ہونا کیا ہے۔ انھوں نے حکومت سے علاقے میں اسکولوں کی تعمیر کا مطالبہ کیا، کئی سالوں کے بعد گلگت بلتستان میں اسکول کھلے اور یوں اس کا تعلیمی نظام وجود میں آیا۔
ابتدا میں صرف پرائمری اور مڈل اسکول دستیاب تھے۔ آہستہ آہستہ ان مڈل اسکولوں کو ہائی اسکولوں میں ترقی دے دی گئی۔ 1970ء کی دہائی میں طلبہ کو یونیورسٹی جانے کے لیے دیگر شہروں کی طرف جانا پڑتا تھا۔ آغا خان فاؤنڈیشن گلگت میں تعلیم کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا جبکہ بلتستان میں صاف پانی اور تعلیم کے میدان میں مومنہ چیمہ فائونڈیشن اہم کردار ادا کررہی ہے۔