ہم لوگوں کا محبوب پرانا لاہور
"اتوار کو اپنے محبوب سے ملیں۔"یاسر پیر زادہ کی تحریر۔ خوشی سے باچھیں چر گئیں کہ کیا ہی حسن اتفاق ہے کہ میرا اور اُن کا محبوب ایک ہی نکلا۔ لیجیے کچھ لوگ بڑے معترض ہوگئے ہیں کہ چلو یہ اچھی ایکٹویٹی رہی۔ بھتیجے نے تو محبوب کا ذکر ہی کیا۔ پھوپھی تو مل مار بیٹھ گئی۔ بھئی یہ ہمارا بھی تو ہے۔ ارے ارے سو بسم اللہ۔ ہمیں کب انکار ہے؟ جیتا جاگتا رہے، آباد شادرہے یہ ہم سب کا محبوب۔ یہ تو ہر اس بندے کا ہے جو تھوڑا سا کِھسکا ہوا ہوتا ہے۔
سچی بات ہے ہم سے تواگرکوئی یہ پوچھے کہ زندگی میں کیا کرنا سب سے اچھا لگا؟ جواب ہوگا کتابیں پڑھنا اور پُرانے گلی کوچوں میں گھومنا پھرنا۔ نو عمری سے اُدھیڑ عمری تک لاہور قدیمہ کے تہذیبی گہوارے کی کوئی نہ کوئی نئی گلی، نیا محلہ ہر باراپنے کِسی نہ کِسی نئے رنگ کے ساتھ دریافت ہوتا اور مجھے مضطرب کرتا۔ دیوانوں کی طرح اِس کے گلی گلیاروں میں کھڑی خود سے کہتی۔
ارے یہ تو میں نے پہلے دیکھا ہی نہ تھا۔
اس محبوب سے یاری دوستی کے آغاز کا زمانہ کالج کے ابتدائی دنوں سے ہوا جب سہیلیوں پر اپنی غریبی چھپانے اور تھوڑی سی امارت کی دھاک بٹھانے لنڈے بازار جاپہنچی۔ ہماری جوانی میں لنڈا بازار ایک البیلا کڑیل جوان تھا۔ اس کی ہر دکان قوس وقزح جیسے رنگ و نور میں گندھی لشکارے مارتی تھی۔ ابھی لاہور کے پر نہیں پھوٹے تھے اور ابھی لنڈے بازار کی بھی آل اولاد شہر کے گلی کوچوں میں رلتی پھرتی نظر نہ آتی تھی۔ یہ میرا محبوب لنڈا اپنے ٹھکانے پر بڑے رعب دوب سے بیٹھا ہوتا تھا۔
یاد ہے پہلی بار گھر سے جب اِس کو دریافت کرنے نکلی تو جیب میں پانچ روپے تھے اور یہ کمائی دو بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر حاصل کی تھی۔ اف میں تو ایک البیلی رومانی دنیا میں آ پہنچی تھی۔ ہائے ہیرے جیسی چمک والے بروچ، ٹاپس، جوتیاں، لشکارے مارتے کپڑے دل تھا کہ ہر چیز پر لڑھکتا پھر رہا تھا۔ ایسی ایسی نادر چیزیں۔ اب پلّے نہ سیر آٹا تے گوندی دا سنگھ پاٹا، والی بات تھی۔ بازار ختم ہوا تو دلّی دروازے کا بڑے سے پٹوں والا چوبی دروازہ تحیر سے لبریز آنکھوں کو اندر آنے کی دعوت دیتا تھا۔ اُس کی دعوت قبول کی اور اندر جا گھسی۔ اور ایسی گھسی کہ اس کے عشق میں مبتلا ہوگئی۔ چھوٹا سا پہلا بازار ختم ہوا تو آگے پھر گلیارہ تھا۔ دروازہ تھا جس کے ساتھ ہی دکان پر مچھلی تلی جارہی تھی اور سارے میں بکھری پکوڑوں کی خوشبو امتحان لے رہی تھی۔ ہائے اللہ چار آنے جیب میں۔ وہ زمانے بھی بڑی دید لحاظ اور مروت والے تھے۔ دکان دار سادہ اور ان پڑھ ہونے کے باوجود آنکھوں اور چہروں کو پڑھنا جانتے تھے۔ اکنّی میں پکوڑے اور بینگن کا ایک قتلہ اخبار کے کاغذ میں لپیٹ کر پکڑا دیا۔ آج بھی یاد ہے وہ پکوڑے میں نے مسجد وزیر خان میں بیٹھ کر چھوٹی سے چھوٹی بانٹ کے ساتھ اس کے درودیوار اس کی محرابیں اور ان پر کندہ نقش و نگاری کے شاہکاروں کو دیکھتے ہوئے کھائے۔
میرے اندر خود انحصاری اکیلے گھومنے کی عادت یہیں سے پروان چڑھی۔ پرانے لاہور سے میرا عشق شروع ہوگیا۔ مزے کی بات کبھی کسی لڑکے نے پیچھا نہیں کیا، کبھی کسی مرد کی ایسی ویسی حرکت یاد نہیں۔ سوچتی ہوں کیا صورت ہی ایسی پھٹکار بھری تھی کہ کوئی دو قدم پیچھے چلنے کو تیار نہ تھا۔ تکیہ مراثیاں بھی ایسے ہی جاپہنچی تھی۔ نام نے کتنی دیر ہنسایا تھا۔ کلاسیکل موسیقی کی ایک طرح یہاں پرورش ہوئی۔ بنگلا دیش کی گلو کارہ فردوسی بیگم کی یہ بات اکثر یا د آتی۔ ایک ملاقات میں اُنہوں نے مجھے کہا تھا۔ یہ ویسٹ پاکستانی تو ہمیں میراثی سمجھتے ہیں۔ واقعی تکیہ مراثیاں اِسی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
چوک نواب صاحب میں بڑے غلام علی خان رہتے تھے۔ مسجد وزیر خان میں میرا پڑاو¿ ہونا ضروری تھا۔ یہیں چوک میں موسیقی کے عاشق حیات محمد خان کا گھرتھا۔ اندرون بھاٹی گیٹ کے محلہ چومالہ میں برصغیر کے فنکار محمد رفیع کا گھر ڈھونڈنے اور دیکھنے میں آدھی دیہاڑی گُل کر دی تھی۔ رنگ محل سے کناری بازار، آگے چھتہ بازار، گمٹی بازار سے نکلتی۔ میرزا ادیب کے گھر کا دیدار کرتی، پکوڑے سموسے کھاتی لوہاری جا نکلتی۔ پےسہ اخبار کی خستہ گلاب جامنیں ہمیشہ اُدھر لے جاتیں۔ کبھی رنگ محل سے پانی والا تالاب۔ نقاب سے منہ ڈھانپے بازارِ حسن کا چکر لگتا۔ چوباروں کو دیکھتی۔ بالکونیوں کو تکتی۔ بُہت جی چاہتا سیڑھیاں چڑھ جاو¿ں اور دیکھوں کہ اُن کے دن کیسے ہیں؟ پر بُزدلی آڑے آ جاتی۔
بٹّی گلی کے عقبی محلوں میں بُہت سی ہستیوں کے نقش کنندہ ہیں۔ اعظم مارکیٹ کی پیچ در پیچ گلیوں سے کتنے راستے نکلتے۔ چونا منڈی چلے جاو¿۔ شیرانوالہ گیٹ نکل جاو¿۔ منٹو پارک کی سیر کر لو۔ باہر کے ملکوں کے سیر سپاٹوں اور اُن کے ڈاﺅن ٹاﺅن کی سیروں کے بعد میں طویل عرصے بعد جب اپنے محبو ب سے ملنے نکلی تب میرے اندربہت ساری حسرتیں تھیں۔
ملک کی نامور شخصیتوں کے قدموں کی چاپ مجھے اِن گلیوں میں سنائی دی۔ علامہ اقبال سے لے کر فیض، ناصر کاظمی کِس کِس کا نام لکھوں۔ پر کہیں کوئی پلیک کوئی نشان، کوئی کتبہ، کوئی تختی کچھ نہیں تھا۔ ڈاکٹر انور سجاد تو ابھی بھی مسیحائی اُنہی گلیوں میں بانٹتے پھرتے تھے۔ پاکستان فضائیہ کا ایئر مارشل مصحف علی میر بھی بھاٹی گیٹ کی اِنہی گلی محلوں میں جوان ہوا تھا۔ اِس کی ہر گلی، ہر کوچہ، ہر بازار تاریخی اہمیت کا حامل۔ کاش ہم اِسے تاریخی ورثہ بنا سکتے۔
امرتسر کے گلی کوچوں میں بھی میں اپنے گروپ سے الگ ہو کر گھنٹوں اکیلی پھرتی رہی تھی۔ کہیں اے حمید کا گھر ڈھونڈتی، کہیں منٹو کا اور کہیں عطاءالحق قاسمی کے ابّا کا۔
ایک چھوٹی سی تمنا، ایک چھوٹی سی دعا اندر سے نکل کر لبوں پر آجاتی ہے۔ کاش ورلڈ Heritage میرے اس محبوب کو سر سے پیر تک گود لے لے۔ اور اسے اتنا سنوار دے کہ یہ دنیا بھر میں نمایاں ہوجائے۔