نامہ بر (قسط اول)
تجسس ضرور تھا کہ ایک فعال سیاسی جماعت کے اکابرین، تمام لفظی اسلحہ، خنجر اور تلواریں لے کر سابقہ چیف جسٹس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ یکہ بعد دیگرے منفی بیانات کی بوچھاڑ جاری ہے۔ تو یہ شخص، ثاقب نثار خاموش کیونکر ہے۔ سوائے ایک پختہ بیان کے، کہ اس سے منسوب آڈیو، مختلف تقاریر کو جوڑ کر بنائی گئی ہے۔
اس کے علاوہ یہ ریٹائرڈ جج کوئی بات کیوں نہیں کر رہا۔ انھیں ذہنی سوالات کے جواب تلاش کرتاثاقب نثار کے ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوئی۔ سنجیدہ اور متین انسان جو قانون کے شعبہ میں لاہور ہائی کورٹ میں دہائیوں سے پریکٹس کر رہا تھا۔ ذہنی سوالات کا اظہار اس شخص سے کیا۔ تو اس محترم انسان نے چند دن کا وقت مانگا کہ پوری تحقیق کے بعد جواب دوں گا۔ دو دن پہلے پھر ثاقب نثار کے اس دوست نے دل کھول کر سامنے رکھ دیا۔ انھی کا بیانیہ، من و عن پیش کرنا چاہونگا۔ اس میں ایک لفظ بھی میری طرف سے شامل نہیں ہے۔
"یہ بالکل درست ہے کہ نواز شریف کے دور اقتدار میں ثاقب نثار اور آصف کھوسہ کو لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا۔ بلکہ اس سے پہلے، ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ثاقب نثار، سیکریٹری قانون بھی رہے۔ ان اوقات میں بھی لاء سیکریٹری اور سیاسی جماعت یعنی مسلم لیگ ن کے معاملات بہت خوش گوار نہیں رہے۔ وجہ یہ کہ اس دورانیہ میں، اٹارنی جنرل کی طرف سے، مسلم لیگ ن سے وابستہ وکلاء کو ہر سطح پر قانونی مشیر لگانے کے متعلق مسلسل سفارشات موصول ہوتی رہیں۔ اس دور کے اٹارنی جنرل، خود آ کر بنفس نفیس، سیاسی بنیادوں پر وکلاء کی تعیناتیوں پر اصرار کرتے رہے۔
جس کام کو ثاقب نثار، بطور لاء سیکریٹری مسلسل انکار کرتے رہے۔ لازم ہے کہ یہ سفارشات، اٹارنی جنرل، بلند ترین سیاسی سطح سے ہدایات وصول ہونے کے بعد ہی کرتے تھے۔ بہر حال ثاقب نثار نے کوشش کی کہ مختلف سرکاری اداروں میں، سیاسی بنیادوں پر، قانونی مشیروں کی تعیناتی کم سے کم ہو۔ ان کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہی۔ یہ یکسر ایک دوسری بات ہے۔
اسی پیریڈ میں کراچی کے ایک مشہور وکیل کی قانونی فیس کا معاملہ بھی ابھر کر سامنے آنا۔ حکم موصول ہوا کہ ان وکیل صاحب کو پچاس لاکھ روپیہ دے دیے جائیں۔ ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کے پاس اتنی بھاری فیس دینے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ بہر حال ان کی موجودگی میں یہ معاملہ بہتر طور پر حل نہ ہو پایا۔ بطور سیکریٹری قانون، تمام کام نہ کرنے پر، بہرحال بلند ترین سطح کے سیاسی حلقوں اورثاقب نثار کے مابین خاموش ناراضگی کا عنصر ضرور موجود تھا۔ جب ہائی کورٹ میں تعیناتی کا معاملہ آیا۔
تو خالد انورکے بھرپور اصرار پر حکام اعلیٰ نے ثاقب نثار کو ہائی کورٹ کا غیر مستقل جج تعینات کردیا۔ اگر خالد انور کا دباؤ نہ ہوتا تو شایدیہاں ثاقب نثار کو اس وقت کے وزیراعظم ہرگز ہرگز جج نہ بناتے۔ بہر حال اس کے بعدثاقب نثار کچھ عرصہ کے لیے پنڈی بینچ میں تعینات کیے گئے۔ راولپنڈی میں مسلم لیگ ن کے اندر دھڑے بازی کی بدولت، ان کی عدالت میں ایک سیاسی کیس آیا۔ جس میں دونوں سیاسی حریفوں کے درمیان جیتنے کے لیے صرف ایک ووٹ کا فرق تھا۔ اس کیس میں، سیف الرحمن نے ثاقب نثار کو فون کیا اور ایک گروپ کے حق میں فیصلہ کرنے کی سفارش کی۔
اس زمانے میں سیف الرحمن نواز شریف کے معتمد خاص تھے۔ اور ان کی حکم عدولی کا تصور کرنا بھی محال تھا۔ مگر ثاقب نثار، ان کی سفارش کو خاطر میں نہ لائے۔ یہ معاملہ توخیر تھا ہی۔ مگراس کے علاوہ ایک انتہائی نازک کیس ثاقب نثار کی عدالت میں پہنچ گیا۔ سیف الرحمن کے بھائی کو وزیراعظم نے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کر دیا۔ شومی قسمت سے، کسی شخص نے عدالت میں پٹیشن دائر کر دی کہ وہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین لگنے کی شرائط کو پورا نہیں کرتے۔ جج صاحب نے قانونی طور پر اس معاملے کو قابل سماعت قرار دیا۔
اور فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔ اب یہ اصول پسندی، بادشاہ کی برداشت سے باہر تھی۔ کس کی برداشت سے، یہ سب لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس کے رد عمل میں، ثاقب نثار کو فوری طور پر پنڈی بینچ سے ملتان ٹرانسفر کر دیا گیا۔ وجہ تو ہمیشہ انتظامی ہی بتائی جاتی ہے۔ بہر حال، سیف ارحمن کے بھائی کے کیس میں نوٹس جاری کرنے یا شاید سٹے دینے کی پاداش پر ثاقب نثار، پنڈی سے ملتان پہنچا دیے گئے۔ یہ سبق سکھانے کی ابتداء تھی۔
ابھی تک، جج صاحب کو مستقل نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی وہ لاہور ہائی کورٹ کے مستقل جج نہیں تھے۔ جب قانون اور طریقہ کار کے مطابق انھیں مستقل کرنے کا معاملہ صدر رفیق تارڑ کے سامنے پیش ہوا، تو بلند ترین سطح سے احکامات کی وجوہ، انھیں مستقل نہ کیا گیا۔ یہ ایک طرح، مسلم لیگ ن کی سیاسی قیادت یا سسٹم کی اس شخص پر مکمل بد اعتمادی کا اظہار تھا۔ جزئیات میں جائے بغیر عرض کرنا چاہوں گا۔ کہ جب تک میاں صاحب، وزیراعظم رہے، ثاقب نثار کو مستقل جج نہیں بنایاگیا۔ بلکہ انھیں نوکری سے فارغ کرنے کا ایک بھرپور منصوبہ تھا۔ 1999 میں میاں نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی۔
پرویز مشرف تخت نشین ہو گئے۔ ثاقب نثار کو مستقل جج پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا۔ وقت گزرتا گیا۔ میاں صاحب، جب جلا وطنی سے واپس آئے۔ تو ثاقب نثار کے گھر ایک بار، ان کے قریبی عزیز کی فوتگی پر تشریف لائے۔ اور بالکل اسی طرح ثاقب نثار بھی میاں صاحب کے گھر ان کی ایک ذاتی فوتگی پر ضرور گئے۔ اس کے علاوہ، دونوں شخصیات کی آپس میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ جج بننے کے بعد کا دور ہے۔ ہاں ایک اور بات جو پہلے لکھنی چاہیے تھی۔ پنڈی کے ایک سینئر وکیل کے نوجوان بیٹے مری گئے۔
اور وہاں کار ریسنگ کے دوران شرکاء سے ہاتھا پائی کرنے لگے۔ مری کی انتظامیہ نے ان نوجوانوں کی حرکات کی سرزنش کی۔ تو ان وکیل صاحب نے مری انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی۔ اس معاملہ پر صدر تارڑ نے ثاقب نثار کو فون پر سفارش کی کہ انتظامی افراد کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔ ان احکامات کے بالکل برعکس ثاقب نثار نے، انتظامی افسروں کی ضمانت لے لی۔ واقعات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ثاقب نثار اور مسلم لیگ ن کے درمیان بد اعتمادی کی فضا بڑھ رہی تھی۔
وقت کی تیز رفتاری کسی کے آنے یا جانے سے متاثر نہیں ہوتی۔ سیاسی نشیب و فراز اور عدالتی معاملات چلتے رہے۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ ثاقب نثار، چیف جسٹس آف پاکستان متعین ہو گئے۔ اسی اثناء یا اس سے کچھ عرصہ پہلے، مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما نے پارلیمنٹ میں تقریر کی، کہ دیکھو، اب ہمارا چیف جسٹس آ رہا ہے۔
یہ تقریر اگلے دن، انھیں الفاظ کے ساتھ تمام اخبارات میں شایع ہوئی۔ اس بیان سے اس طرح کا تاثر ابھرا کہ ثاقب نثار، مسلم لیگ ن سے ہمدردی رکھنے والے جج ہیں۔ اور اب مقدمات پر ان کی سیاسی جماعت کا اثر انداز ہونا بہت سہل ہو جائے گا۔
پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے اس مسلم لیگی سینئر رہنما کے اس بیان پر حد درجہ تنقید کی کہ وہ کس طرح ایک چیف جسٹس کو اپنی سیاسی جماعت سے منسلک کر سکتے ہیں۔ بہر حال صورت حال، بالکل متضاد سمت میں گامزن تھی۔ موصوف کو یہ بیان دینا بھی چاہیے تھا کہ نہیں۔ اس سے ان کی سیاسی جماعت کو کیا فائدہ یا نقصان ہوا۔ اس کا جواب تو بہرحال وہ بذات خود ہی دے سکتے ہیں۔
(جاری ہے)