مارک تو بیوقوف سیاستدان تھا؟
مارک ہاپٹ مان(Mark Haptmann) جرمنی کاانتہائی لائق اور نوجوان سیاستدان ہے۔ ابتدائی طور پر پولٹیکل سائنس کا استاد رہا۔ سیاست اس کا پہلا اور آخری عشق تھا۔ 2013میں جرمنی کی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا اور یہ اعزاز اسے 2021ء تک حاصل رہا۔ مارک ایک اخبار بھی نکالتا تھا۔
اسی سال، مارچ 2021 میں جرمنی کے ایک رسالے Der speigiنے مارک کے متعلق ایک خبر چھاپی۔ انکشاف تھا کہ مارک نے آذر بائیجان کے سفارت خانے سے سولہ ہزار یورو معاوضہ وصول کیا ہے۔ اس کے بدلے میں اپنے اخبار میں آذر بائیجان کے حق میں اشتہار چھاپے ہیں۔
اسٹوری میں یہ بھی کہا گیا کہ بنیادی طور پر مارک، آذر بائیجان کی لابنگ کرتا رہا ہے۔ ذرا سوچیے۔ کہ اس خبر کے بعد مارک نے کیا قدم اٹھایا۔ گھر گیا۔ اہل خانہ کو ساتھ لیا۔ پریس کانفرنس کی جسے پوری دنیا نے سنا۔ مارک نے مدلل طریقے سے کہا کہ اس نے سولہ ہزار یورو قطعاً رشوت کے طور پر نہیں لیے۔ بلکہ یہ ایک اشتہار کا جائز معاوضہ تھا جو اس کے اخبار نے تمام اصول اور قواعد کو سامنے رکھ کر وصول کیے۔ اس نے کسی قسم کا کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ اس کے باوجود وہ پارلیمنٹ کی سیٹ سے استعفیٰ دیتاہے۔ یہ بھی کہا کہ اس کا خاندان اور ذہنی سکون، کسی بھی سیاسی عہدے سے بالاتر ہے۔
مارک ہاپٹ مان کا سیاسی کیریئر 2013 سے شروع ہوا۔ اور مارچ 2021 کو اس کے استعفیٰ سے ختم ہو گیا۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ مارک کو اس کی سیاسی جماعت کے سربراہ یا چانسلر نے ہرگز نہیں کہا کہ استعفیٰ دے دے۔ کسی عدالت نے بھی مارک کو حکم نہیں دیا کہ اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ کسی تحقیقاتی ادارے نے بھی کوئی ایسا ثبوت سامنے نہیں رکھا جس سے ہلکاسا اشارہ تک ملے کہ مارک نے غیر قانونی طریقے سے ایک پیسہ بھی کسی بھی حکومت سے وصول کیا ہے۔ ان تمام محرکات کی غیر موجودگی میں مارک کس وجہ سے مستعفی ہوا۔
اس کا صرف ایک جواب ہے۔ سیاست میں اخلاقیات کے اصول کی بالادستی کو بنیاد قرار دینے کے لیے۔ مارک کے خلاف صرف ایک الزام تھا اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے۔ سولہ ہزار یورو جو پاکستانی تقریباً بتیس لاکھ بنتے ہیں۔ اس کا محض الزام لگنے پر۔ کیا واقعی یہ سیاست میں اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی پاسداری نہیں ہے۔ بالکل ہے۔ ہمارے جیسے ابتر ملک میں تو شاید اس اصول کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ عمل کرنا تو خیر بہت دور کی بات ہے۔
چند دنوں سے پنڈورا لیکس کا چرچا ہے۔ ہر جانب اس کے متعلق باتیں اور بحث جاری ہے۔ ایک ایسی لاحاصل بحث جس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ سب سے پہلے تو یہ تکلیف دہ سچ عرض کروں گا کہ ملکی سیاست میں کسی سطح اور کبھی بھی کوئی اعلیٰ یا ارفع اخلاقی اصول عملی طور پر موجود نہیں رہا۔ ہاں۔ بے مقصد نعرے اور اعلان ضرور ہیں۔
بہر حال پنڈورا لیکس کی جانب آیئے۔ اس میں ہمارے جید سیاست دان، کاروباری حضرات، اور دیگر لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ابھی تک کسی نہ کسی طور پر اقتدار سے وابستہ ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ان کی "آف شور کمپنیاں " ہیں۔ آف شور کمپنی بنانا کسی قسم کا جرم نہیں ہے۔ یہاں تک تو کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس آف شور کمپنی کو استعمال کس مقصد کے لیے کیا گیاہے۔ کیا اس کمپنی میں لوٹی ہوئی دولت جمع کروا کر باہر کے ممالک میں کاروبار یا جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔
کیا کسی اہم شخص نے اس کمپنی کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ٹھیکوں میں رشوت کا پیسہ وصول کرنے کے لیے آف شور کمپنی کو ایک تشخص کے طور پر استعمال کیا گیا ہے؟ اگر آف شور کمپنی کو غیر قانونی رقم کے حصو ل اور ٹھکانے لگانے کا ذریعہ بنایا گیا ہے تو یہ واقعی ایک سنگین جرم ہے جس کی بھرپور قانونی سزا ہونی چاہیے۔
مگرکیایہ سزا ہمارے جیسے ٹوٹے پھوٹے نظام عدل میں ممکن ہے؟ ہماری عدالتوں میں پنڈورا لیکس جیسے کیس میں کارروائی کے بعد مجرم ثابت ہونے والے اشخاص کے لیے کوئی کڑی سزا کی مثال نہیں ملتی۔ دلیل یہ ہے کہ اس لیکس سے پہلے پاناما لیکس نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ پاکستان میں سیکڑوں اہم لوگوں کے نام اس میں شامل تھے۔ مگر سوائے ایک شخص یعنی نواز شریف کے علاوہ کسی کی بھی باز پرس نہیں ہوئی۔
پاناما لیکس کب کی اپنی موت مر چکی ہے۔ اس میں درج کسی ایک پاکستانی سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں آئی اور نہ ہی واپس لائی جا سکتی ہے۔ کسی بھی حکومتی ادارے میں اتنی استطاعت نہیں تھی کہ پاناما لیکس کے ادھم میں سے کم از کم ملک سے باہر بھیجی گئی ناجائز دولت کا ایک ڈالر بھی واپس لا سکے۔ ہاں۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ وزیراعظم پاکستان کو سیاسی طور پر ٹارگٹ کیا گیا۔
اور صرف انھیں ایک ایسے کڑے احتساب سے گزارا گیا۔ جس سے پاناما لیکس میں درج کوئی دوسرا پاکستانی نہیں گزرا۔ یہ نکتہ حد درجہ اہم ہے۔ اس کا ایک صاف سا مطلب ہے کہ پاناما لیکس کو صرف اور صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہی معاملہ پنڈورا لیکس کا ہو گا۔ اس میں حد درجہ اہم ترین سیاست دانوں کے نام موجود ہیں۔ ان میں سے اکثریت مرکزی اور صوبائی وزراء ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ طاقتور لوگ، کسی بھی صورت میں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیں گے۔ وزیراعظم نے ان تمام لوگوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے، چند ادارے بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں جو ان طاقتور لوگوں کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں سوالات کریں گے۔ مگر آپ یہ بات لکھ لیجیے۔ کہ تحقیقات کسی بھی نتیجہ پر پہنچے بغیر اتنی طویل کر دی جائیں گی کہ سب کچھ بے معنی ہو جائے گا۔ پھر کوئی اور آفت ملک پر دھاوا بول دے گی۔ اور پنڈورا لیکس کسی سرکاری عمارت کی بوسیدہ سی الماری میں اپنی موت مار دی جائے گی۔
ہاں! اگر کسی مخصوص شخص کی گوشمالی مقصود ہوئی تو اسے ضرور نشان عبرت بنایا جائے گا۔ ہمارے ملک میں مقتدر حلقے کے احتساب کی کوئی اعلیٰ روایت موجود نہیں ہے۔ کیا وہ لوگ جو ابھی مسند شاہی پر براجمان ہیں۔ کیاانھیں اپنی کرسیوں پر بیٹھنے کا ایک لمحہ کا بھی اختیار ہے۔ ان تمام لوگوں کو فوری طور پر اپنے منصبوں سے استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہیے۔ تحقیقاتی اداروں کے سامنے ایک عام شہری کی طرح پیش ہونا چاہیے۔ اگر یہ انکوائری میں بے گناہ ثابت ہوتے ہیں۔ تو انھیں اپنے عہدوں پر واپس آ جانا چاہیے۔ مگر ایسا ہو گا نہیں۔ خان صاحب کی مرکزی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت چند ووٹوں پر کھڑی ہے۔ اگر خان صاحب نے معمولی سی بھی ہمت دکھائی اور ان طاقتور لوگوں کو اپنے عہدوں سے برخاست کیا تو ان کی مرکزی اور پنجاب کی صوبائی حکومت فوری طور پر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔ حکومت گر بھی سکتی ہے۔
پنڈورا لیکس میں نامزد لوگ اپنے عہدوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اور نہ ہی حکومت انھیں نکالنے کا تکلف کرے گی۔ تحقیقات کا ڈراما بھی لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ مگر اپوزیشن کے ہاتھ میں پنڈورا لیکس کی بدولت ایک مہلک ہتھیار آ گیا ہے۔ اگر اپوزیشن اسے تدبیر سے استعمال کر گئی تو تحریک انصاف کی مشکلات میں گھری حکومت مزید غیر فعال ہو جائے گی۔ اگر عوام، اپوزیشن کی اس تحریک کا حصہ بن گئے تو یہ حکومت گھر بھی جا سکتی ہے۔ مگر ہمارے سیاسی نظام میں معمولی سی بھی اعلیٰ اقدار نہیں ہیں۔
اس لیے گمان یہی ہے کہ چند دن کا طوفان بس تھوڑے سے عرصے میں ختم ہو جائے گا۔ جرمنی کامارک ہاپٹ مان تو بے وقوف تھا کہ معمولی سے الزام پر گھر چلاگیا۔ اسے ہمارے مقتدر طبقے سے تربیت لینی چاہیے تھی تاکہ اب تک پارلیمنٹ میں بڑے آرام سے مزے کر رہا ہوتا۔ ویسے بھی ہمیں جن اخلاقی قدروں کی ضرورت ہے وہ قیامت تک نہ وجود میں آئیں گی اور نہ ہی کوئی ان کی پرواہ کرتا ہے۔ لہٰذا فکر کس بات کی!