جو ڈوبا سو پار!
متعدد باتیں سمجھنا چاہتا ہوں۔ مگر دل سے آواز ابھرتی ہے کہ بالکل آگاہی حاصل نہیں کرنی۔ جو بھی گتھی سلجھانے کی بات کرتا ہے، اس سے کافی دور چلا جاتا ہوں۔ اس لیے کہ کئی معاملات مخفی رہنے چاہیں۔ انھیں پہیلیاں ہی معلوم ہونا چاہیے۔
ورنہ دنیا میں عقل، فکر اور وجدان کا توازن برباد ہو جائے گا۔ مسئلہ ایک اور بھی ہے سنجیدہ ترین سائنسی علوم کا طالب علم رہا ہوں بلکہ ہوں۔ کسی طرح بھی جدید علوم سے باغی نہیں۔ پھر بھی اس بات کو سمجھنے میں بڑی دیر لگی کہ علم کی کسوٹی پر ہر امر کو پرکھا نہیں جا سکتا۔ یہ ازحد اہم نکتہ ہے۔ میڈیکل سائنس میں ہر انسان کے پاس پانچ اہم ترین، خدا کی ودیعت کی ہوئی برابر کی قوتیں ہیں۔ یہ حواس خمسہ کہلاتے ہیں۔
مگر جدید ترین سائنس ہی ان کی نفی کر دیتی ہے۔ مکمل اور بھرپور نفی۔ کیا آپ ہر آواز سن سکتے ہیں۔ بالکل نہیں۔ آواز کی ایک مخصوص رینج کے علاوہ ہم، آواز کی موجودگی میں بھی کچھ نہیں سن سکتے۔ مطلب کیاہے کہ ہمارے اردگرد آوازوں کاایک طوفان ہے مگر ہم انھیں بالکل نہیں سن پاتے۔ کیوں کہ ہمارے پاس انھیں سننے کی استطاعت نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح دیکھنے کی طاقت کا معاملہ ہے۔ ہم سمجھتے نہیں ہیں کہ چند رنگ اور ان کی آمیزش کے سوا کچھ بھی دیکھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ مگر اس سے تو کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ رنگ تو ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں ہیں۔ ہم صرف اور صرف چند رنگ ہی دیکھ سکتے ہیں۔
سائنس کے اعتبار سے عرض کر رہا ہوں۔ پھر اسی سائنس سے دلیل دے رہا ہوں کہ ہمیں بہت کم شعور حاصل ہے۔ یہیں سے رنگ و بو کی وہ دنیا شروع ہوتی ہے جوصرف تیسری آنکھ ہی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ ہر انسان کے پاس یہ وجدان نہیں ہے۔ یہ خدا کی وہ دین ہے جو صرف اور صرف چند معدودے انسانوں کو حاصل ہے۔ اس میں سے ولی، قطب، ابدال، اور صوفی برابر ہوتے ہیں۔ ایک عہدہ تو ذہن سے نکل ہی گیا۔
قطبِ مدار۔ وہ بزرگ جو ایک وقت میں صرف ایک ہی ہوتے ہیں۔ اصل حکومت اور اختیار انھیں کے پاس ہوتاہے۔ ہاں ایک عرض ضرور کرتا چلوں۔ یہ تمام بزرگ ہرگز ہرگز کرخت نہیں ہوتے۔ عام لوگوں سے ان کا رویہ ریشم کی طرح نرم ہوتا ہے۔ انکا گداز رویہ مقناطیس کی طرح انسانوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ اور ان کی ایک نظر سے روحانی میکدے کے تمام جام بھر جاتے ہیں۔
یہ آپ کے اردگرد ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اپنی شناخت کو معلوم اور نامعلوم کے درمیان رکھتے ہوئے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ بس آپ کو کچھ بھی معلوم نہیں ہونے دیتے۔ کمال یہی ہے اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ اتنے ہمہ جہت لوگ ہیں جو سب کچھ چرا کر آپ کولوٹ لیتے ہیں۔ اور معلوم بھی نہیں ہونے دیتے۔ یہ کبھی بھی بے ایمانی نہیں کرتے۔ آپ کو ہزاروں نہیں، کروڑوں گنا واپس بھی کر دیتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ خدا کی مرضی سے ہی کرتے ہیں۔
ویت نام کی وسیع جھیل میں کشتی پر سوار تھا۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ وسیع کشتی کے اندر بہت پرتعیش بار تھی۔ لوگ ناونوش میں مصروف کار تھے۔ ہر نسل اور رنگ کے لوگ۔ اچانک ایک دوست اٹھا اور کشتی کی چھت پر چلا گیا۔ وہاں جا کر زور زور سے سورہ رحمن کی تلاوت شروع کر دی۔ میں بھی چھت پر چلا گیا۔ اردگرد پانی ہی پانی اور دور، پہاڑوں اور غاروں کا ایک سلسلہ۔ ایسے محسوس ہوا کہ دور پہاڑوں سے ورد شروع ہو گیا کہ اے انسان! تو میری کس کس نعمت کا شکر ادا کرے گا۔ پانی ساکت ہو گیا۔
کشتی کی پوری چھت شیشے کی بن گئی اور ہر طرف سے صرف یہی صدا آنے لگی کہ اے انسان تو میری کس کس نعمت کا شکر ادا کرے گا۔ نور اور رنگ کا ایک ایسا سیلاب جو روح کو تر کرتا گیا۔ مستی اور کیف کے وہ سودے، جو بہت کم محسوس ہوتے ہیں۔ بلکہ محسوس ہی نہیں ہوتے۔ یہ سب کیا تھا۔ اسے کیا بتایا جا سکتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ بتانے کی ضرورت کیا ہے۔ بالکل اسی طرح لندن میں ایک دوست کے ساتھ کار میں سفر کر رہاتھا۔
پوچھنے لگا کہ کونسا میوزک سنو گے۔ سوال کا جواب بہت مشکل تھا۔ کیونکہ بنیادی طور پر فارسی، اردو اور عربی کا ملغوبہ سا سنتا ہوں۔ امیر خسرو کے کلام پر جان چھڑکتا ہوں۔ خواجہ اجمیریؒ اور نظام الدین اولیا ؒکو چاہنے والوں میں سے ہوں۔ جواب دیاکہ غلام فرید صابری قوال نے "تاجدارحرام " نام کی جو قوالی گائی ہے اسے لگا دو۔ اسے اکثر آدھا آدھا سنتا رہتا ہوں۔
پوری سننے کی اللہ نے ابھی تک استطاعت ہی نہیں دی۔ گاڑی میں غلام فرید اور ان کے بھائی کی آواز گونجنے لگی۔ پھر نظر سے ہر چیز غائب ہو گئی۔ ایک دو منٹ کے بعد، ا پنے دوست کو عرض کی کہ خدارا اس قوالی کو بند کر دو۔ اسے مزید سن نہیں سکتا۔ یہ وہ جذبہ ہے جو خدا کے نیک بندوں کے دستر خوان سے صرف ایک لقمہ کی صورت میں حاصل کیا ہے۔ باقی دستر خوان پر ہزاروں طرح کے پکوان سجے ہوتے ہیں۔ میری تو صرف ایک لقمے سے ہی بس ہو چکی ہے۔
دراصل یہ بابے بہت بڑے ڈاکو ہیں۔ ان کے لمبے لمبے چوغوں میں ہزاروں فٹ کی جیبیں لگی ہوتی ہیں۔ یہ بڑے آرام سے آپ کا سب کچھ اپنی زنبیل میں ڈال کر غائب ہو جاتے ہیں۔ جب بھی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو اپنی مرضی سے دوبارہ خزانہ واپس کر دیتے ہیں۔ ہرگز بددیانتی نہیں کرتے۔ پندرہ برس پہلے، دہلی میں نظام الدین اولیاءؒ کے مزار پر حاضری دینے کا اتفاق ہوا۔ چھوٹے سے کمرے میں مرقد موجود تھا۔
ہر مذہب اور وضع کے لوگ مودب کھڑے تھے۔ کیا ہندو، کیا سکھ اور کیا مسلمان۔ کوئی فاتحہ پڑھ رہا تھا تو کوئی ماتھا ٹیک رہا تھا۔ سکھ نوجوان تو حالت سجدہ میں تھا اور زارو قطار رو رہا تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے وہ دعا پڑھی اور باہر دالان میں بیٹھ گیا۔ وہاں بہت کم لوگ تھے۔ آرام سے بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عام سا شخص جس نے انتہائی رنگین رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی۔ قریب آیا۔ پوچھنے لگا کہ لاہور سے آئے ہو۔
ذہن بھک سے اڑ گیا۔ اسے کیسے معلوم ہوا کہ میں لاہور سے آیا ہوں۔ وہ شخص شکل اور حلیے سے کافی غیر معزز معلوم ہو رہا تھا۔ لاہور میں کہاں رہتے ہو۔ میں خاموش سا رہا۔ اچانک کہنے لگا کہ حضرت امیر خسرو کے مزار پر دعا پڑھ لی ہے۔ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ امیر خسرو بھی وہیں آرام فرما رہے ہیں۔ انکا مرقد بھی چھوٹے سے کمرے میں تھا۔ دعا پڑھنے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ان کا ایک شعر مجسم ہو کر بند آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا۔ بھنگڑے ڈالنے لگا اور ڈھول بجانے لگا۔ چوری آنکھ سے دیکھا تو دس بارہ لوگ فاتحہ خوانی میں مصروف تھے۔ باہر تو مکمل خاموشی تھی۔ پھر یہ آواز کیسی تھی۔ معلوم نہ ہو پایا۔ کیا اعلیٰ شعر تھا۔
خسرو دریا پر یم کا الٹی وا کی دھار
جو اترا سو ڈوب گیا جو ڈوبا سو پار
یہ کلام ذہن میں آیا۔ مگر سمجھ نہ پایا۔ شاید مقصد بھی یہی تھا کہ بالکل نہ سمجھ پاؤں۔ خیر گھبرا کر واپس دالان میں فرش پر بیٹھ گیا۔ بازاری آدمی جس نے سوال کیا تھا تھوڑی دور چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ بلکہ دوبارہ دیکھا تک نہیں۔ جب واپس جانے لگا تو زور سے آواز دی۔ حاضری تو قبول ہو گئی۔ خاموشی سے واپس چل پڑا۔ کیا یہاں کوئی رجسٹر رکھا ہوا ہے جہاں لوگوں کی حاضری لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ غیر حاضری کا رجسٹر بھی کہیں نہ کہیں موجود ہو گا۔ مگر یہ کون لکھ رہا ہے اور کیوں لکھ رہا ہے۔
کیا یہ رجسٹرعامی سے نظر آنے والے آدمی کے پاس ہے۔ اگر ہے تو اس وضع قطع کے بندے کے پاس کیوں؟ کسی نورانی چہرے والے بزرگ کے پاس کیوں نہیں۔ بہر حال تیزی سے واپس آ گیا۔ اجمیر شریف جانے کا ارادہ تو تھا۔ مگر ویزہ نہ لے پایا۔ حالانکہ سرکاری سطح پر یہ بڑے آرام سے مل جاتا۔ پر شاید اجمیرشریف کے رجسٹر میں میری غیر حاضری درج ہو چکی تھی۔ بغیر کسی وجہ کے، بس جا نہیں پایا۔ پراب تو لگتا ہے کہ کہیں بھی نہیں جا پایا۔ مسلسل ایک سفر میں ہوں اور سامنے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ یا شاید سب کچھ موجود ہے۔ معلوم نہیں مگر اب تو معلوم سے ہی خوف آتا ہے!