چارلی بھی چلا گیا
1972 میں کیڈٹ کالج حسن ابدال پہنچا تو عمر صرف بارہ برس تھی۔ پہلی بار گھر سے اکیلا باہر رہنے کا تجربہ۔ جب والد صاحب کالج چھوڑ کر واپس چلے گئے تو دل بیٹھ رہا تھا۔ اورنگ زیب ونگ الاٹ ہوا تھا۔ سامان لے کر لمبے سے کمرے میں پہنچا تو دس بارہ بچے وہاں موجود تھے۔ سارے یک دم والدین سے دور اور پھر یکایک ایک عسکری کالج میں۔ جس کی تربیت سخت کوش تھی۔
میرے بیڈ کے ساتھ والا لڑکا کچھ زیادہ پریشان تھا۔ ہمیں اس دن بوٹ الاٹ ہوئے تھے۔ یہ بھاری بھرکم تو تھے ہی مگر ان کے نچے لوہے کے بٹن اور ایڑی پر ایک آہنی نال لگی ہوئی تھی۔ بوٹ پہن کر چلنے کی کوشش کی تو پھسل کر گر پڑا۔ ساتھ والا بچہ بھی اسی طرح فرش پر گرگیا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی اٹھنے میں کوئی مدد نہیں کی۔ خود کھڑے ہوئے اور میس کی جانب چل پڑے۔ رات کے کھانے کا ٹائم تھا۔ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔ دیکھا کہ وہی لڑکا بالکل میرے سامنے بیٹھا ہے۔ پلیٹ خالی ہے۔
اور آنکھوں سے آنسو نکل کر پلیٹ پر گر رہے ہیں۔ اسے اپنے والدین اور گھر یاد آ رہا تھا۔ میرا نام خالد محمود ہے۔ بہاولپور سے آیا ہوں۔ واپسی پر خالد سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ آٹھویں جماعت کی کلاسیں شروع ہوئی تو بھرپور پڑھائی شروع ہو گئی۔ خالد بڑی محنت سے پڑھتا تھا۔ مگر دن کے ایک حصے میں وہ رجسٹراٹھاتا تھا۔ اور اپنے والد محترم کو لمبے لمبے خط لکھتا رہتا تھا۔ التجا صرف ایک کہ مجھے اس کالج سے واپس بلاؤ، میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔ والد صاحب، محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ گھبرا کر بھاگے بھاگے آئے۔
والد صاحب نے اسے واپس لے جانے سے انکار کر دیا۔ ان کی نظر میں کیڈٹ کالج پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے بہترین تعلیمی اور تربیتی درسگاہوں میں شامل تھا۔ ویسے آج میں بذات خود بھی یہ بات مانتا ہوں۔ میں جو کچھ بھی ہوں، ڈاکٹر بنا، بڑے آرام سے سی ایس ایس کر لیا۔ یہ صرف اور صرف حسن ابدال کی حد درجہ سخت محنت کروانے کی عادت کی بدولت ہوا۔
خیر چھٹیاں ہو گئیں۔ واپس آئے تو خالد محمود بالکل بدل چکا تھا۔ اسے اب گھر یاد آنا بند ہو چکا تھا۔ اس سے دوستی شروع ہو گئی۔ ہمارے کلاس روم بھی یکساں تھے۔ کھیلنے کے میدان بھی اور میس بھی ایک تھا۔ اب ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے خالد محمود کا نام پوری زندگی کے لیے تبدیل کر دیا۔ انگریزی زبان کے لیکچرارشفقت صاحب نے خالد محمود کو کسی انگریزی ڈرامے کی نسبت سے "چارلی" کہنا شروع کر دیا۔ خالد کے بال مکمل طور پر گھنگھریالے تھے۔ چارلی کا تخلص یا کنیت خالد کی شخصیت کے ساتھ ایسا نتھی ہوا جو پچاس برس اس کے ساتھ رہا۔ کیڈٹ کالج میں چارلی اب ایک مشہور نام تھا۔
خالد محمود کو تیرنے سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ سوئمنگ پول کے اندر جانے سے گھبراتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اسکول میں تیراکی لازمی قرار دی گئی تھی۔ چارلی کو ہاؤس ماسٹر صدیقی صاحب مرحوم نے بہت بار سوئمنگ کی طرف رغبت دلائی مگرچارلی کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتا تھا۔ پھر ایک دن ہاؤس ماسٹر نے فیصلہ کیا کہ جو لڑکے تیرنے سے ڈرتے تھے۔ انھیں زبردستی پول میں پھینک دیا جائے۔ ان کی حفاظت کے لیے ماہر ترین سینئرز کی ایک ٹیم بھی لگا دی گئی۔ جب چارلی کی باری آئی۔ تو وہ پول سے تھوڑے فاصلے پر دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ دوڑتا ہوا پول کے کنارے آیا۔ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ اور انتہائی تیزی سے واپس بھاگ گیا۔ صدیقی صاحب غصے سے سرخ ہو گئے۔ انھوں نے ایک رسی منگوائی اور زبردستی چارلی کو پول میں لے کر گئے۔ یہ ناقابل فراموش واقعہ بہت مشہور ہوا۔ مگر نتیجہ یہ نکلا کہ چارلی تھوڑے عرصے میں ماہر تیراک بن گیا۔
خالد اور میری دوستی کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ ہم دیوانہ وار پڑھتے رہتے تھے۔ چھٹی والے دن جب دوسرے طالب علموں کے عزیز و اقارب ملاقات کے لیے آئے ہوتے تھے۔ تو میں، چارلی اور رضوان ہاشم، کالج کی مسجد میں جا کر اکیلے پڑھتے رہتے تھے۔ رضوان فوج میں ڈاکٹر بن گیا تھا۔ اور برگیڈیئر بن کر ریٹائرڈ ہوا ہے۔
حد درجہ شریف اور مذہبی انسان۔ خیر ہم سارے اتنی محنت کرتے تھے کہ ٹیچر بھی حیران ہو جاتے تھے۔ میں اور چارلی، صبح بہت جلدی اٹھ جاتے تھے۔ ہاسٹل کے ٹی وی روم میں میں آنے والے دن کا سبق ذہن نشین کرتے رہتے تھے۔ چارلی، میرا، علی حماد اور عمران راشد کا ایک گروپ سا بن گیا۔ علی حماد اور عمران راشد، امریکا میں حد درجہ کامیاب ڈاکٹر ہیں۔
ویک اینڈ پر ہم چاروں بس میں بیٹھتے تھے۔ پنڈی پہنچتے تھے۔ کوئی فلم دیکھتے تھے۔ پیسے جمع کر کے کسی درمیانے درجے کے ہوٹل میں کھانا کھاتے تھے۔ اور پھر رات گئے واپس آ جاتے تھے۔ چارلی سیکنڈایئر ایف ایس سی تک پہنچتے پہنچتے چھ فٹ کا ہو چکا تھا۔ رنگ سرخ و سفید اور حد درجہ بذلہ سنج اور حاضر دماغ انسان۔ 77 میں ہم سارے کیڈٹ کالج سے نکلے تو تمام کا داخلہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ہو گیا۔ یہاں چارلی اور میں ایک ہی ہاسٹل میں منتقل ہو گئے۔ 1978 سے لے کر 1984 تک ہم سب لوگ میڈیکل کالج میں اکٹھے رہے۔
پڑھائی تو خیر تھی ہی۔ مگر لاہور کا سحر، پھر فوجی کالج سے باہر آ کر اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی، ایک عجیب کیف تھا۔ رات گئے چارلی یک دم اٹھتا اور ہم ہاسٹل کے پیچھے گوالمنڈی کے علاقے میں ملک ٹی ہاؤس میں چائے پینے چلے جاتے۔ لکشمی میں کوئی ہزاروں بار ہم سب باجماعت کھانا نوش کرنے نکل جاتے۔ ایک بڑی دلچسپ بات۔ چارلی بڑھتے پڑھتے اٹھتا۔ اور فلم دیکھنے کا اعلان کر دیتا۔ ہم سارے ایبٹ روڈ جاتے، کوئی بھی فلم دیکھتے اور پھر رات گئے ہاسٹل واپس آ جاتے۔ چارلی کو محمد علی ایکٹر حد درجہ پسند تھا۔ ندیم اور شبنم کی ان گنت فلمیں اکٹھی دیکھی ہیں۔ کبھی کبھی جب خالد اچھے موڈ میں ہوتا تو محمد علی کی طرح ایکٹنگ کرنا شروع کر دیتا۔ ہر طرف قہقہوں کا طوفان برپا ہو جاتا۔
1984 میں سی ایس ایس کر کے میں سول سروس کے خاردار میدان میں چلا گیا۔ چارلی پنجاب حکومت کے انتقال خون کے محکمہ میں ملازم ہو گیا۔ لاہور میں تو ملاقات رہتی تھی۔ مگر پھر مصروفیات زندگی نے آن دبوچا۔ ملاقاتیں انتہائی کم ہو گئیں۔ مگر ایک دوسرے کی خیریت باہم دوستوں سے معلوم ہوتی رہی۔ خالد زندگی میں ایک حادثے سے نکل کر دوسرے حادثہ کا شکار ہوتا چلا گیا۔ پھر بہاولپور واپس چلا گیا۔ چند سال پہلے جب واپس لاہور آیا تو اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ ہر وقت سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ صحت غیر معمولی طور پر گر چکی تھی۔
لاہور میں ایک ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا۔ خیر اس سے ہر وقت رابطہ رہتا ہی تھا۔ اس کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی۔ کچھ دن پہلے فون پر کہنے لگا کہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت ان پڑھ ہے۔ انھیں ونسٹن چرچل، جواہرلال نہرو اور ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح عمریاں پڑھنی چاہیں۔ شاید آداب حکمرانی آ جائیں۔ اس کا مطالعہ اور مشاہدہ کمال کا تھا۔ ٹھیک تین دن پہلے اطلاع آئی کہ چارلی فوت ہو گیا۔ سانس کی بیماری اسے لے بیٹھی۔ کل صبح اسے سپرد خاک کر دیا گیا۔ میں دو دن سے ذہنی طور پر منجمد بیٹھا ہوں کہ بہترین دوست کی آواز اب کبھی نہ سن پاؤں گا۔ کبھی ملاقات نہ ہو سکے گی۔ اس کے بعد میں زیادہ تنہا ہو گیا ہوں۔ یقین نہیں آتا، مگر سچ تو یہی ہے کہ چارلی بھی چلا گیا! کبھی نہ واپس آنے کے لیے!