ایک خط، ایک کہانی
آج کے کالم میں ایک خط کو جگہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ ایک خاتون کا مراسلہ ہے، جو ایسی مجبور عورت کی روداد ہے، جو اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے غلط کام کر کے اپنے اخراجات پورے کر رہی ہے۔ یقیناً ہمارے ملک کے ہر شہر اور قصبے میں ایسی خواتین موجود ہیں جو مجبوراًایسے کام میں ملوث ہوگئی ہیں جومعاشرے میں برا سمجھا جاتاہے بلکہ بہت ہی برا۔
بہرحال یہ خط مجھے موصول ہوا، لہٰذا میں اسے قارئین کی خدمت میں کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں اصل نام وغیرہ تبدیل کردیے ہیں۔ خاتون نے تو یہ خط وزیراعظم عمران خان کی توجہ کے لیے لکھا ہے لیکن سمجھ نہیں آتی کہ اس محترمہ نے مجھے کیوں خط لکھا حالانکہ میرے کالم حکمران طبقے کے لیے نہیں ہوتے، بہرحال خط کی طرف آتا ہوں۔
"میرااصل نام کیا ہے، مجھے اس کا بالکل علم نہیں ہے، البتہ اس وقت میرے جو حالات ہیں اور میں ان کا شکار کیونکر ہوئی ہوں، وہ ذہن میں ضرور محفوظ ہے۔ ماں باپ کا تو خیر مجھے پتہ ہی نہیں۔ بچپن جس عورت کے پاس گزرا اسے لوگ بائی کہا کرتے تھے۔ یہ خاتون تھی تو اس بازار سے لیکن بہت اچھی اور رحم دل تھی۔
ہر وقت غریبوں کی مدد کرتی رہتی تھی۔ مجھے اسی نے پالا ہے، ہم جیسے کم نصیبوں کا پیشہ کیا ہو گا، اسے میں یوں کہوں گی، وہی دنیا کا قدیم ترین پیشہ، جو ازل سے کچی مٹی سے گندھی ہوئی بیکار سی عورتوں سے منسوب ہے۔ میں وسطی پنجاب کے ایک قصبہ سے تعلق ہوں۔ انگوٹھاچھاپ ہوں۔ لکھ پڑھ نہیں سکتی کیونکہ کبھی اسکول نہیں گئی۔ یہ خط اپنے جیسی ایک عورت سے لکھوا رہی ہوں، وہ بیچاری لکھ اور پڑھ سکتی ہے، کبھی بچوں کو پڑھایا کرتی تھی، یہ بھی میری طرح بدقسمت ہے۔ خاوند نے طلاق دے دی۔ اب چار بچوں کو پالتی ہے۔ لہٰذا مجبوری میں یہ بھی ہمارے جیسی ہی ہو چکی ہے۔
میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی لکھاری، میرے جیسی عورت کے خط کو اپنی تحریر میں جگہ دے گا لیکن پھر بھی آپ کو مراسلہ بھیج دیا ہے، اس امید پرکہ کوئی نہ کوئی تو میری اور میری جیسی ان گنت عورتوں کی کہانی بیان کرے گا۔ پہلے کچھ اپنے حالات کے بارے میں عرض کرتی ہوں۔ میرے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ ان کے باپ کے متعلق بات کرنا بالکل لا حاصل ہے کیونکہ وہ کہاں ہے، مجھے اور میرے بچوں کو علم نہیں ہے۔ ویسے بھی ہماری دنیا میں صرف ماں ہی ہوتی ہے۔
لہٰذا اپنے بچوں کے لیے میں ماں بھی ہوں اور باپ بھی۔ مجھے تعلیم حاصل نہ کر سکنے کا بہت دکھ ہے، اس لیے اپنی اولاد کو پڑھانا چاہتی ہوں۔ گورنمنٹ کے اسکولوں میں تو تعلیم کا حال تو یقیناً آپ کو بھی معلوم ہوگا لہٰذا میں محلے کے نزدیک ایک پرائیویٹ اسکول میں اپنے بچوں کا داخلہ کرانے کے لیے چلی گئی۔
اسکول کے پرنسپل نے ایک فارم بھرنے کے لیے کہا، میں نے درخواست کی کہ آپ ہی پر کرلیں، میں نے کوائف بتائے لیکن بچوں کی ولدیت کے خانے کی باری آئی تو میں نے اسے خالی چھوڑ دیا۔ اس پر پرنسپل کہنے لگا کہ وہ اس طرح تو بچوں کو اسکول میں داخلہ نہیں دے سکتا۔ میں نے جواب دیا کہ جب بچوں کو پالنے پوسنے سے لے کر ان کے تمام تعلیمی اخراجات میں نے پورے کرنے ہیں تو خاوند یا والد کا نام کیوں لکھواؤں، آپ بس ماں کا نام ہی لکھیں لیکن پرنسپل نہ مانا لہٰذا میں بچے کو واپس لے کر آگئی۔ اب بچے سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں۔ پتہ نہیں ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ کبھی سوچتی ہوں، جہاں میرا کوئی مستقبل نہیں ہے تو میری اولاد کا کیا ہوگا۔
جس گھر میں رہتی ہوں، اس میں میرے جیسی تین مزید عورتیں بھی رہتی ہیں۔ ہماری ذات برادری مختلف ہے، ایک غیرمسلم ہے۔ اس کے باوجود ہمارے گھر میں کبھی کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوتا، سب ایک دوسرے کا خوشی و غمی میں ساتھ دیتی ہیں، ہمارے مکان میں سب برابر ہیں۔ چلتے چلتے محترم وزیراعظم سے یہ پوچھنا تھا، بادشاہ سلامت! جب ہم جیسی ان پڑھ اور غریب عورتیں ایک ہی گھر میں مل جل کر امن سے رہ سکتی ہیں تو پڑھے لکھے لوگ کیوں امن سے نہیں رہ سکتے۔ یہ کیوں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہیں۔
اتنی باہمی نفرت اور رقابت کیسی! خیر مجھ جیسی ان پڑھ عورت کی بات کوئی کیوں سنے گا۔ میری حیثیت تو پاؤں کی جوتی سے بھی کم تر ہے۔ ہاں، ایک بات بتانا بھول گئی۔ ہمارے علاقے میں ایک مولوی صاحب ہیں۔ وہ بہت اچھے انسان ہیں، ہمارے لیے کچھ بہتر کرنا چاہتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہے ہمارے لیے بہتری کا کام کرتے رہتے ہیں۔ کاش سارے مذہبی لوگ ایسے ہوجائیں۔
طوائفوں کی شادیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ میری دوست نے بھی ایک شخص سے شادی کی تھی۔ مگر چند ماہ بعد وہ واپس آ گئی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب گود میں ایک بچہ تھا۔ بادشاہ جی! ہمیں شریف لوگ ہمت کر کے اپنے گھر لے تو جاتے ہیں۔ مگر کچھ عرصہ بعد، وہ اتنا بھاری پتھر اٹھا نہیں پاتے۔ گھریلو جھگڑے، رشتہ دار اور عزیزوں کے طعنے سن سن کر ان کے اندر سے نیکی کا جذبہ، احساس گناہ میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ تقریباً ساری شادیاں ناکام ہی ہو جاتی ہیں۔
بس باتیں ہی باتیں ہیں، پارسائی کے بودے سے نعرے ہیں۔ ایک جملہ ضرور کہتی ہوں کہ اکثر شرفاء کے گھروں میں محفلیں جمتی ہیں۔ وہاں شرافت کے لیبل کے نیچے ہر طرح کا کام ہوتا ہے۔ مگر کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ طبقہ امرا کے لوگ ہیں۔ جناب وزیراعظم صاحب!آپ ہمارے جیسی بدنصیب عورتوں کے مسائل سننے کے لیے کوئی "بڑے صاحب" مقرر کیوں نہیں کرتے، شاید ایسے ہی ہمارے مسائل حل ہوجائیں اور ہم بھی معاشرے میں عزت کے ساتھ جی سکیں۔
بادشاہ سلامت! لوگ ہمیں چھپ چھپ کر ملتے ہیں۔ رات کے اندھیروں میں ہمیں نامعلوم جگہو ں پر لے جاتے ہیں۔ دن کے اجالے میں اگر کوئی چہرہ مانوس سا لگے تو وہ نظریں چرا لیتا ہے۔ کوئی واقف نہیں بنتا۔ بلکہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں جانتے ہی نہیں۔ پوچھنا تھا کہ اگر وہ"برے آدمی" نہیں گردانے جاتے تو ہمیں کیوں لوگ بدکردار کہتے ہیں۔
کیا یہ ناانصافی نہیں ہے۔ ہمیں شرافت سے رہنے کے لیے معاشرتی ماحول کیوں نہیں ترتیب دیتے۔ ہم بھی عام عورتوں کی طرح گھر بسانا چاہتی ہیں۔ مگر کوئی بھی ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔ اگرگورنمنٹ ہمارا ساتھ دے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں کوئی ہنر ہی دے دیجیے۔ ہمارے لیے کام سیکھنے کی تربیت گاہیں بنوا دیجیے۔ جہاں سے فارغ التحصیل ہو کر ہم بھی عزت سے اپنی زندگی گزار لیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہنر سیکھنے سے ہماری زندگی بدل جائے۔
وزیراعظم جی! میں کچھ عرصہ پہلے لاہور گئی تھی۔ جہاں آپ کی تصویریں لگی دیکھیں۔ تصویر کے سامنے دعا مانگی تھی کہ خدا آپ کو صحت اور مزید عزت دے۔ شایدآپ کے حکم سے ہمارے جیسے لوگوں کا مقدر بدل جائے۔ بادشاہ جی! آخری بات بھول نہ جاؤں۔ بجلی کا بل بہت زیادہ آتا ہے، بجلی کے نرخ تو کم کروا دیجیے۔ بات لمبی ہوگئی ہے لہٰذا رخصت چاہتی ہوں۔
اس خط میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن کالم میں سارا خط شایع کرنے کی جگہ نہیں ہے، اس لیے اختصار کا سہارا لینا پڑا، اس خط میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ بھی نیا نہیں ہے اور معاشرہ بھی پرانا ہی ہے، حکمران اور امراء کا چلن بھی نہیں بدلا ہے، لیکن کیا حکمرانوں کو اس جانب توجہ نہیں دینی چاہیے؟ یہ سوال صدیوں سے پوچھا جارہا ہے لیکن آج بھی صرف سوال ہی ہے، جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔