تیسری عالمی جنگ کے گہرے بادل (1)
سوویت یونین کے ٹوٹ جانے، امریکہ کے بحیثیت "واحد عالمی قوت" دُنیا پر قبضہ جمانے اور اس کے بعد ایک بار پھر روس کے بحیثیت ایک عالمی قوت کے اُبھرنے تک کا عرصہ تقریباً تیس سالوں پر محیط ہے۔ ان تیس سالوں میں سے بیس سال امریکہ نے پوری دُنیا پر دہشت گردی کے خلاف (War Against Terrorism) جنگ کے نام پر ایک ہنگام مسلّط کئے رکھا۔ دو ملک، عراق اور افغانستان براہِ راست اس کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنے، جبکہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک تمام مسلم ممالک نے اس جنگ کی ہولناکیوں کا مزہ چکھا۔
اسی دوران عرب بہار کے نام پر ایک ایسی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں لیبیا، مصر، شام اور یمن آج بھی خاک اور خون میں نہائے ہوئے ہیں۔ ان تمام معرکوں میں عالمی ضمیر اور اقوامِ عالم کی حمایت، امریکی قوت و جبروت کے سامنے "جو حکم میرے آقا" والی حالت میں سرنگوں رہی۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد یورپ کو براہِ راست محتاج و دستِ نگر کرنے کے لئے جو اتحاد "نیٹو" (NATO) کے نام پر بنایا گیا تھا، وہ ان بیس سالوں میں امریکی ظلم و تشدد کا ہراوّل دستہ بنا دیاگیا، جبکہ یورپ سے باہر کے آباد خوشحال ممالک مثلاً آسٹریلیا، جاپان اور کینیڈا وغیرہ سب نے سر تسلیمِ خم کیا اور مالی اور عسکری دونوں صورتوں میں امریکی افواج کے جلو میں مسلمان ممالک پر حملہ آور ہونے میں مدد کرتے رہے۔
لیکن گذشتہ دس سال، سوویت یونین کی راکھ سے جس روس کی چنگاری نے جنم لیا ہے وہ اب ایک ایسا شعلۂ جوالہ بن چکی ہے، جس میں ایک بار پھر یہ صلاحیت پیدا ہو چکی ہے کہ وہ یورپ کی اقوام کو خاکستر کر دے۔ پہلی دونوں عالمی جنگوں میں روس برطانیہ اور فرانس کا اتحادی تھا، خواہ وہ زار کی بادشاہت والا روس تھا یا سٹالن کا کیمونسٹ روس۔
یکم جون 2019ء کو یوں تو بحرِہند اور بحرالکاہل (Indo Pacific) کی پینٹاگون نے جنگی حکمتِ عملی کی نقاب کشائی کی، مگر جہاں اس حکمتِ عملی میں چین کو ایک رجعت پسند (Revisionist) قوت کے طور پر اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے (Containment) کا عزم کیا گیا ہے، وہیں امریکی فوجی دماغوں نے روس کو بھی اپنا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے ایک ایسے کینسر سے تشبیہ دی ہے جس میں دوبارہ جان پڑ چکی ہو۔
حکمتِ عملی کے الفاظ یوں ہیں، "Revitalized Malign Actor"۔ روس میں یہ جان ڈالنے والا شخص سوویت یونین کی مشہور خفیہ ایجنسی کے جی بی (KGB) کا تربیت یافتہ شخص ولادی میر پیوٹن ہے، جس نے تئیس سال کی عمر میں 1975ء میں گریجویشن کرنے کے بعد ہی یہ نوکری اختیار کر لی تھی۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اور پوری دُنیا میں امریکی "سی آئی اے" اور سوویت یونین کی "کے جی بی" دونوں، دُنیا کے تقریباً ہر براعظم میں خفیہ جنگ لڑ رہی تھیں۔
پیوٹن نے اس اہم خفیہ ایجنسی میں سولہ سال گزارے۔ یہ سوویت یونین کے لئے بہت اہم زمانہ تھا۔ اس کی نوکری کے آغاز میں ہی افغانستان میں سردار دائود برسر اقتدار تھا اور اس پر امریکی سی آئی اے نے ڈورے ڈالنے شروع کر دیئے تھے۔ افغان جہاد کے اوّلین پیش رو، انجینئر گلبدین حکمت یار اور پروفیسر برہان الدین ربانی کو ذوالفقار علی بھٹو دَور میں پشاور میں پر امن ٹھکانہ مل چکا تھا۔
پیوٹن کی "کے جی بی" اور امریکی "سی آئی اے" کو اس طرح افغانستان میں اُلجھایا گیا کہ اسے وہاں پر مسلسل قابض رہنے کے لئے بھی حالات میسر نہ آ سکے۔ اور اس کی باعزت واپسی بھی مشکل بنا دی گئی۔ افغانستان میں شکست نے سوویت یونین کو عالمی طاقت کی حیثیت سے معزول کر دیا اور اب اس کی حالت امریکی اشاروں پر چلنے والے ایک ملک جیسی ہو کر رہ گئی۔ وہ عظیم سلطنت جو زارِ روس اور پھر کیمونسٹ زمانوں میں یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی، جس میں بارہ ٹائم زون تھے، سمٹنے لگی۔
پانچ وسطی ایشیائی ریاستیں، تاجکستان، ازبکستان، کرغستان، قازقستان اور ترکمانستان علیحدہ ہوئیں، جبکہ یورپ والے روس سے نو ریاستیں، آرمینیا، آذربائیجان، بیلا روس، ایسٹونیا، جارجیا، لیٹویا، لیتھووینیا، مالدوا، اور یوکرین علیحدہ ہو گئیں۔ یہ تمام ریاستیں میخائل گوربا چوف (Mikhail Gorbachev) کے دَور میں علیحدہ ہوئیں جو افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے ٹھیک ایک سال بعد سوویت یونین پر برسراقتدار آیا۔
گوربا چوف کے خلاف جس طرح بغاوت کر کے اسے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا، یہ ایک ایسی داستان ہے جس میں کیمونزم اور گوربا چوف کے نظریے "گلاس نوسٹ" دونوں سے لوگوں کی نفرت نظر آتی ہے۔ اُسی نفرت کے نتیجے میں 29 اگست 1991ء کو ملک بھر میں کیمونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کی گئی اور پھر 6 نومبر 1991ء کو بورس یلسن نے اس پر بحیثیت پارٹی پابندی لگا دی۔ یوں وہ کیمونسٹ انقلاب، جس کا خواب کارل مارکس اور اینگلز نے 1848ء میں کیمونسٹ مینی فیسٹو لکھ کر دیکھا تھا اور جس کی عملی شکل ولادی میر لینن نے اکتوبر 1917ء میں روس میں کیمونسٹ انقلاب برپا کر کے دُنیا کو دکھائی تھی، ٹھیک چوہتر سال بعد دُنیا کے نقشے سے غائب ہو کر تاریخ کے صفحات کی زینت بن گیا۔
پیوٹن اس سارے زوال کی صورت حال کو ایک خفیہ ایجنسی کے آفیسر کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ اس کا عروج اس وقت شروع ہوا جب وہ صرف چند ماہ کے لئے فیڈرل سکیورٹی سروس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہیں سے اس کے روس کو دوبارہ عالمی طاقت بنانے کے نظریات نے مقبولیت حاصل کی اور اسے 9 اگست 1999ء میں ڈپٹی وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا گیا، اور پھر وہ صرف سات دن بعد 84 ووٹوں کے مقابلے میں 233 ووٹ لے کر روس کا وزیر اعظم بن گیا۔
اس کے چھ ماہ بعد ہی صدر بورس یلسن نے صحت کی خرابی کی وجہ سے استعفیٰ دیا اور پیوٹن نگران صدر بنا دیا گیا اور صرف پانچ ماہ بعد 7 مئی 2002ء کو وہ روس کا بااختیار صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ ان گذشتہ بیس سالوں میں اس نے روس کو اس مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ آج وہ دُنیا جو 1991ء میں صرف "واحد عالمی طاقت والی دُنیا" (Unipolar) کہلاتی تھی، اب اس عالمی طاقت، امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے لئے روس ایک ایسی طاقت بن کر اُبھر چکا ہے جو اسے کبھی جنگِ عظیم اوّل اور دوئم میں حاصل تھی۔
یہی طاقت و قوت ہے جس کی وجہ سے گزشتہ دس سالوں سے ایک ایسی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جو ماہرین کے نزدیک کسی بھی وقت ایک بہت ہی بڑی گرم جنگ بلکہ تیسری عالمگیر جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ گزشتہ د س سالوں سے دُنیا بھر کے دفاعی اور عسکری ماہرین اس بات پر متفق چلے آ رہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کا نکتۂ آغاز بحرِاسود (Black Sea) کے آس پاس کوئی بھی علاقہ ہو سکتا ہے اور قوی امکان یہ ہے کہ وہ یوکرین ہو گا۔
ایسا کیوں ہے اور کیا ہے؟ جوبائیڈن نے، گیارہ فروری 2022ء کو امریکی شہریوں کو یوکرین چھوڑنے کے لئے کیوں کہا ہے؟ کیا یہ واقعی تیسری عالمی جنگ کا نکتۂ آغاز ہے؟ (جاری ہے)