Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Orya Maqbool Jan
  3. Secular Jamhoori Munafiqat Ka Khatima

Secular Jamhoori Munafiqat Ka Khatima

سیکولر جمہوری منافقت کاخاتمہ

یہ اس بیانیے کی شکست ہے جو میرے ملک پاکستان کی وجہ تخلیق کی نفی کرنے کے لیے شروع دن سے دانشوروں نے تخلیق کیا تھا۔ یہ بھارت کی ستر سالہ منافقت کے خاتمے اور ہندو تعصب کے اصل چہرے کی نقاب کشائی کا دن ہے۔ یہ شیخ مجیب الرحمن، اسکی نظریاتی باقیات اور اس کی بنگالی عصبیت پر شروع کی گئی آزادی کی تحریک کی مکمل موت کا لمحہ ہے۔

اس انجام کا آغاز اسی دن سے لکھا جا چکا تھا جب دسمبر 1971ء میں بنگلہ دیشی جو اس وقت مشرقی پاکستانی کہلاتے تھے انہوں نے اس دور کے قوم پرست کمیونسٹوں اور بھارت نواز سیکولروں کے پراپیگنڈے کی چکاچوند میں آکر یہ خواب دیکھ لیا تھا کہ ہر وہ شخص جو بنگالی بولتا ہے، خلیج بنگال کے آس پاس رہتا ہے، بنگالی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا ہے، دریا میں کشتی رانی کرتے اور میگھا چھانے پرسریلے گیت گاتا ہے، ٹیگور کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ستیہ جیت رائے کی عالمی شہرت یافتہ بنگالی فلموں کو اپنی شناخت تصور کرتا ہے، ایک بنگالی قوم کا حصہ ہے۔

پاکستان بنتے ہی یہ گمراہ کن پراپیگنڈہ صرف مشرقی پاکستان میں ہی نہیں بلکہ مغربی پاکستان میں بھی اسی زور و شور سے کیا جاتا تھا۔ یہاں کا دانشور کہتا تھا کہ ایک تہذیب کے پالے، ایک تاریخ کے امین اور ایک سرزمین کے بیٹے کیا صرف "ہری اوم" کہنے، "ست سری اکال" پکارنے یا "اللہ اکبر "کا نعرہ بلند کرنے سے علیحدہ قومیں بن سکتے ہیں۔ مورخوں کی تاریخ نگاری، شعراء کی شاعری اور افسانہ نگاروں کی افسانہ تراشی 1947ء سے لے کر 1971ء تک اپنے عروج پر تھی۔ کیسے کیسے فقرے تراشے گئے تھے، تاکہ نظریہ پاکستان کی نفی کی جاسکے، " ہم تین ہزار سال سے بنگالی، پشتون اور بلوچ ہیں جبکہ چودہ سو سال سے مسلمان اور چند برسوں سے پاکستانی"۔ یہ ویسے ہی فقرے ہیں جو مشرکین مکہ سید الانبیاء ﷺ کے اس دین کے مقابلے میں بولا کرتے تھے جو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے تعصبات کی جڑ کاٹنے کے لیے آیا تھا۔

گنگا جمنی تہذیب کی رنگارنگی اور پنجاب و سندھ کی بھارتی پنجاب اور راجستھان کی تہذیبوں کے یکساں خدوخال پر زور و شور سے پروگرام کیے جاتے تھے۔ کہا جاتا، "لاہور کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے"، کیسا شاندار فقرہ ہے جو ایک لمحے میں، مشرقی پاکستان میں رہنے والوں کو مغربی پاکستان سے متنفر کر دیتا تھا، نفرت کا بیج بو دیتا تھا۔ صرف چوبیس سال کے اس زہر آلود پروپیگنڈے، سیاسی عدم استحکام، فوجی و سیاسی غلطیوں اور بھارتی افواج کی براہ راست مداخلت اور حملے کے نتیجے میں مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوگیا۔ لیکن بھارتی افواج کی فتح کے بعد، ٹھیک اسی دن بنگالی قومیت کا نعرہ بھی خلیج بنگال میں غرق ہوگیا۔

وہ کلکتہ جو بنگالیوں کی شناخت اور مرکز نگاہ تھا، وہاں پر آباد ہندو بنگالیوں نے مسلمان بنگالیوں کو اپنا نسلی بھائی اور ہم قوم ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔ اس وقت کسی کو اکھنڈ بھارت یاد نہ آیا۔ بس اتنا کہا گیا کہ بنگلہ دیش اب ایک علیحدہ ملک ہوگا، کیوں؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ صرف اس لئے کہ مغربی اور مشرقی بنگال کی یہ لکیر انگریز نے کھینچی تھی۔ نہیں، اس لیے کہ وہاں وہ بنگالی رہتے تھے جو کلمہ طیبہ پڑھتے تھے۔ ملیچھ یعنی ناپاک تھے۔ اس دن سے دنیا کے نقشے پر دو قومیتیں وجود میں آگئیں، بنگالی اور بنگلہ دیشی۔ منافقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اصل میں یہ دو قومیں تھیں مسلمان اور غیر مسلم۔

آج ٹھیک اڑتالیس سال بعد، دسمبر ہی کے مہینے میں، شہریت کے متعلق بھارت کی لوک سبھا میں میں منظور ہونے والا سٹیزن شپ ایمینڈمنٹ بل (CAB)، دراصل اس نئے تخلیق کردہ ملک بنگلہ دیش اور نئی تخلیق کردہ قومیت "بنگلہ دیشی" کا منطقی نتیجہ ہے۔ وہ مشرقی پاکستان جنہیں"خوشحال" اور "مہربان" بھارت کا چہرہ ایک دوست کے روپ میں دکھایا گیا تھا۔ اسی خوبصورت فریب کا شکار بنگلہ دیشی، غربت و افلاس سے تنگ آکر بھارت کے پڑوسی علاقوں بنگال اور آسام کی طرف ہجرت کرنے لگ گئے۔

1971ء سے پہلے کسی نے افلاس سے مجبور ہو کر بھارت ہجرت نہیں کی تھی۔ لیکن تکلیف دہ حقائق یہ ہیں کہ 1971ء سے 2019ء تک کے 48 سالوں میں نوزائیدہ بنگلہ دیش کے ڈیڑھ کروڑ بنگلہ دیشی بھوک و افلاس سے تنگ آکر محنت مزدوری کے لیے بھارت کے مختلف شہروں میں جا کر آباد ہو گئے۔ بھارت کی وزارت داخلہ کے مطابق ہر سال تین لاکھ بنگلہ دیشی "خوشحال" بنگلہ دیش سے "بدحال" بھارت کی جانب روزگار تلاش کرنے کے لئے ہجرت کرتے ہیں۔ بھارت والوں نے شروع شروع میں تو انہیں سستے مزدوروں کے طور پر لیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب انہیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ بنگال اور آسام میں مسلمانوں کی آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے تو خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔

مغربی بنگال میں 1961ء سے 1971ء تک ہندوؤں کی آبادی 26 فیصد کے حساب سے بڑھی اور مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد کے حساب سے، لیکن 2001ء سے 2011ء تک ہندوؤں کی آبادی صرف 11 فیصد کے حساب سے اور مسلمانوں کی آبادی 22 فیصد کے حساب سے بڑھی۔ آسام میں تو یہ معاملہ اس قدر تیز ہوا کہ چاروں جانب خطرے کے سائرن بجنے لگے۔ 1961ء سے 1971ء تک آسام میں ہندوؤں کی آبادی 35 فیصد کی شرح سے بڑھتی رہی جبکہ مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد کی شرح سے بڑھی جبکہ 2001ء سے 2011ء کے درمیان ہندوؤں کی آبادی بڑھنے کی شرح صرف 11 فیصد رہ گئی اور مسلمان 30 فیصد کی شرح سے ہی بڑھتے رہے۔

اس مسلسل ہجرت نے پورے بھارت کی آبادی میں بھی ہندو مسلم شرح کو بری طرح متاثر کیا۔ یوں تو مسلمان آبادی میں اضافے کی شرح ہمیشہ سے ہی زیادہ رہی ہے یعنی 1197ء کی دس سالہ مردم شماری کے مطابق ہندوؤں کی آبادی میں 24 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا تھا جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 31 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا۔ لیکن 2011ء میں ہندوؤں کی آبادی میں شرح اضافہ گر کرصرف 17 فیصد رہ گئی جبکہ مسلمان آبادی اسی شرح سے آج بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔

آسام وہ صوبہ تھا جہاں ان بنگلہ دیشی مسلمانوں کی آمد کے خلاف 1979ء میں ہنگامے شروع ہوئے جو 1985ء تک چھ سال جاری رہے۔ یہ ہنگامے انتہائی خونی شکل اختیار کر گئے تو آخرکار 15 اگست 1985ء کو وزیراعظم راجیو گاندھی کی موجودگی میں ایک معاہدہ طے پایا کہ جو غیر ملکی جنوری 1966ء سے مارچ 1971 تک آسام میں آکر آباد ہوئے ہیں انکی شہریت ختم کر دی جائے گی اور 1971ء کے بعد آسام آنے والوں کو زبردستی بنگلہ دیش واپس بھیج دیا جائے گا۔

یہ سب وہ بنگلہ دیشی ہیں جن کی زبان، رنگ، نسل، قوم اور علاقہ وہاں کے لوگوں سے مشترک ہے، لیکن ان سے نفرت صرف ایک وجہ سے ہے، اور وجہ ہے "لا الہ الا اللہ"۔ جوسیاست دان /دانشور زور و شور سے بولتے تھے کہ ہم نے دسمبر 1971ء میں دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے آج انہی کے ہر گھر سے ہندو قومیت کے روپ میں دو قومی نظریے کا پرچم بلند ہو رہا ہے۔

1985ء کے بعد آنے والا بھارت کا ہر دن بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس نظریے کی فتح کا دن ہے کہ یہ بھارت صرف اور صرف ہندوؤں کے لئے تھا، ان کے لئے ہی رہے گا اور کوئی اور ناپاک وجود یہاں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ یہ شہریت کا بل ایک زناٹے دار تھپڑ ہے بنگلہ دیش اور افغانستان کی اس سیاست پر جو انہوں نے بھارت کے بل بوتے پر پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر کی۔ آج اس بل نے اعلان کردیا کہ مسلمان خواہ بنگلہ دیش سے ہو یا افغانستان سے، بھارت دھرتی پر قابل قبول نہیں، البتہ ہندوؤں کو خوش آمدید۔

اس سے بڑھ کر دو قومی نظریہ کی بلندی و سرفرازی اور فتح کیا ہوگی اور اس سے زیادہ اس بیانیے کی شکست کیا ہوگی کہ اس برصغیر میں صرف ایک تہذیب کی چادر اوڑھنے والی ایک قوم رہتی ہے۔ ستر سالہ منافقت کا دور ختم ہوا۔ سیکولر اور لبرل جمہوریت کا نقاب تار تار ہوا۔ رہے نام اللہ کا۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad