وسیع تر قومی مفاد
گزشتہ کئی دنوں سے عمران خان صاحب کی بے پناہ چاہت میں مبتلا تحریک انصاف کے چند سرکردہ رہ نما اس خدشے میں مبتلا نظر آرہے تھے کہ ان کی جماعت وحکومت کا "کرپشن کے خلاف جنگ" والا بیانیہ کمزور ہورہا ہے۔ نواز شریف "سزا یافتہ مجرم" ٹھہرائے جانے کے باوجود عدالتی مداخلت کی بدولت بیرون ملک علاج کے لئے روانہ ہوگئے۔ اب ان کی دُختر کے لئے وطن سے باہر جانے کی راہ ڈھونڈی جارہی ہے۔ دریں اثناء "توسیع" کے حوالے سے سپریم کورٹ میں سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے۔ وہاں سے اس ضمن میں نئے قانون کا تقاضہ ہوا اور بعدازاں عدالت ہی کی جانب سے ایک "تاریخی" فیصلہ بھی آگیا۔
ان تمام واقعات نے جو ماحول بنایا اس نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کئی اراکین قومی اسمبلی کو "ان ہائوس تبدیلی" والے دعوے کو سنجیدگی سے لینے کو مجبور کردیا۔ اسلام آباد کے چند گھروں میں ان اراکین کی پُراسرار ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مذکورہ اراکین میں سے کئی ایک نے وقفہ سوالات اور نکتہ ہائے اعتراضات کے ذریعے اپنی ہی جماعت کے وزراء کو شرمندہ کرنا شروع کردیا۔
تحریک انصاف کے کراچی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی وسندھ اسمبلی اس ضمن میں بہت نمایاں رہے۔ ان کے ایک وفد سے وزیر اعظم کو طویل ملاقات بھی کرنا پڑی۔ اس سے قبل ایک اور اجلاس کے دوران گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے کئی اراکین نے اس شبے کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی سے غالباََ وزیر اعظم کا "مک مکا" ہوگیا ہے۔ مہر خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک اہم رہنما نے یہ گلہ بھی کیا کہ اس نے مراد علی شاہ سے "نجات" پانے کے لئے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے 28 اراکین اسمبلی اپنے ساتھ ملالئے تھے۔ اب وہ شرم کے مارے ان سے منہ چھپاتے پھررہے ہیں کیونکہ مراد علی شاہ کے خلاف پیش قدمی کا اشارہ نہیں مل رہا۔
وزیر اعظم بہت اعتماد واطمینان سے اپنے لوگوں کے شکوہ شکایات سنتے رہے۔ کرکٹ کے کھیل سے متعلق Well Left والا رویہ اپنائے رکھا۔ بالآخر ان کی حکومت کو وہ Space مل گئی ہے جس کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کروایا جائے گا کہ "کرپشن کے خلاف جنگ" جاری ہے۔ احسن اقبال نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو بھی اس ادارے نے چند سوالات کا جواب دینے کے لئے طلب کرلیا ہے۔ خورشید شاہ کی ضمانت منسوخ کروائی گئی ہے۔ ایف آئی اے نے نون لیگ سے وابستہ کئی رہ نمائوں کے خلاف انکوائری شروع کردی ہے۔
تحریک انصاف کو میسر جس Space کا میں ذکر کررہا ہوں وہ واضح طورپر یہ عندیہ دے رہی ہے کہ حکومت چند ہی دنوں میں "توسیع" سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کرنا چاہے گی۔ اسے وہ قانون متعارف کروانے کی فی الوقت جلدی نہیں جس کا تقاضہ ہوا ہے۔ مذکورہ قانون کو 28 مئی تک پاس ہونا ہے۔ آنے والے ایک یا دو ماہ "نظرثانی" کی کاوش میں صرف ہوجائیں تو بھی حکومت پریشانی محسوس نہیں کرے گی۔
احسن اقبال کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد فوری طورپر اگرچہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا مسئلہ گھمبیر ہوجائے گا۔ حکومت بضد ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن کے "توسیع" کی بدولت کام کرتے سیکرٹری کو ترقی دے کر چیف الیکشن کمشنربنادیا جائے۔ نواز شریف کے نام سے وابستہ پاکستان مسلم لیگ کے چند رہ نمائوں کو ان کی نامزدگی پر خاص اعتراض نہیں تھا۔ اس جماعت ہی کے چند "جلے بھنے" لوگوں اور "تخریب کار" تصور ہوتے صحافیوں کے ایک گروہ کو مگر یاد آگیا کہ بابر یعقوب صاحب 2018 کے الیکشن کے دوران بھی الیکشن کمیشن کے بااختیار سیکرٹری تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کا اصرار ہے کہ جولائی 2018 کے انتخابات اس سے "چرائے" گئے تھے۔ وہ کم از کم "صاف وشفاف" تو ہرگز نہیں تھے۔
اصرار ہوا کہ ان کی جگہ وزیر اعظم ہی کی جانب سے نامزد دیگر اراکین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیا جائے۔ اسلام آباد میں دعوے یہ بھی ہوئے کہ عمران خان صاحب کے نامزد کردہ فضل عباس میکن صاحب کے نام پر "اتفاق" ہوگیا ہے۔ اس کے عوض اپوزیشن کی جانب سے نامزدافراد کی فہرست میں سے الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے دو "ممبر" چن لئے جائیں گے۔ بات مگر بنی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا الیکشن کمیشن ان دنوں آئینی اور قانونی اعتبار سے ہر صورت غیر فعال ہے۔ ایک تحریری آئین کے تحت چلائے جانے کے دعوے دار ملک کا میڈیا اور سیاست دان اس ضمن میں ہرگز فکرمند نظر نہیں آرہے۔
آئین اور قانون کے تقاضے اور "باریکیاں " ریگولر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وڈیوز پر توجہ کی بدولت ہماری نگاہ میں نہیں آتے۔ خلقِ خدا کی اکثریت کو ان دنوں ویسے بھی اصل فکر یہ لاحق ہے کہ ان کے گھروں میں گیس میسر نہیں۔ گیس کی فراہمی کا سردی کی شدت میں بحران لاکھوں گھرانوں کے لئے عذاب کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس ضمن میں لیکن "احتجاج" کی کماحقہ صورت نظر نہیں آرہی۔ اپوزیشن کے چند رہ نما کبھی کبھار اس کا ذکر کردیتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں اس بحران کا ذکر Ratings نہیں دیتا۔ اخبارات میں بھی اس کے بارے میں واویلا نظر نہیں آتا۔ خلقِ خدا کی بے پناہ اکثریت غلاموں والی بے بسی کی طرح اس بحران کو برداشت کررہی ہے۔
مجھ جیسے کالم نگاروں سے بھی توقع یہ باندھی جاتی ہے کہ کوالالمپور میں عمران خان صاحب ہی کی فرمائش پر منعقد ہوئی کانفرنس میں وزیر اعظم کی عدم شرکت کے بارے میں چسکہ فروشی کروں۔
قارئین کی خواہش کا احترا م کرتے ہوئے میں نے اپنے بھائی محمد مالک کے ایک ٹی وی پروگرام میں وزیر اعظم کے مشیر خصوصی زلفی بخاری صاحب کی اس ضمن میں گفتگو کو بہت غور سے سنا۔ بخاری صاحب اپنے تئیں ہمیں یہ سمجھاتے سنائی دئیے کہ عمران خان صاحب کو درحقیقت ترکی کی جانب سے "اسلامو فوبیا" کے خلاف بنائے ڈرامے بہت پسند آئے تھے۔ ان کے "Cinematic" اثر کو سراہتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان کی خواہش فقط اتنی تھی کہ پاکستان، ملائیشیاء اور ترکی اپنے وسائل کو یکساں کرکے ایک ایسا ٹیلی وژن نیٹ ورک بنائیں جو "اصل اسلام" کا ترجمان ہو۔"مسلم دُنیا" کے بارے میں حقائق بیان کرے۔ OIC کے مقابل اسلامی ممالک کی ایک تنظیم کھڑی کرنے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔ ملائیشیاء کے ڈاکٹر مہاتیر محمد جانے کیوں اس جانب چل پڑے۔
بخاری صاحب کی گفتگو سنتے ہوئے مجھے ہرگز سمجھ نہیں آئی کہ وہ "خارجہ اُمور" کی نزاکتوں کو کس حیثیت میں بیان کررہے ہیں۔ بعدازاں مگر یا دآگیا کہ سہاگن وہی کہلائے جو پیامن بھائے۔ زلفی بخاری صاحب خارجہ امور کے حوالے سے اہم نہ ہوتے تو وزیر اعظم کے جولائی میں ہوئے دورئہ امریکہ کے دوران ان کی ٹرمپ کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے والی دُختراوّل اور ان کے شوہر سے خصوصی ملاقات نہ ہوتی۔ جیرڈکشنر اور اس کی اہلیہ سے ملاقات کا وقت حاصل کرنے کو دنیا کے کئی طاقت ور حکمران اور سرمایہ کار بے چین رہتے ہیں۔ ان دونوں کا وقت ہر حوالے سے بہت قیمتی ہے۔ زلفی صاحب کی ملاقات مگر ان دونوں سے ہوئی اور اس کے بارے میں ہنستی مسکراتی تصویریں بھی دیکھنے کو ملیں۔
اس ملاقات کو یاد کرتے ہوئے میرے جھکی ذہن میں یہ حقیقت بھی اُبھری کہ ٹرمپ خاندان کو ہوٹل کے کاروبار سے بہت دلچسپی ہے۔ نیویارک ہی میں پی آئی اے کی ملکیت "روز ویلٹ" ہوٹل بھی ہے۔ اسے Prime Property شمار کیا جاتا ہے۔ نیویارک کے پرانے یہودی خاندان اپنے بچوں کی شادیاں اسی ہوٹل میں رچانے کے عادی ہیں۔ اسلام آباد میں "دھندے" سے متعلق باخبر حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ حکومت پاکستان اس ہوٹل کو بیچنا چاہ رہی ہے۔ مجھے دھندے کی بابت ککھ علم نہیں۔ قلم گھسیٹ کر سفید پوشی کی زندگی گزارنے تک محدود ہوں۔"وسیع تر قومی مفاد" میں لیکن یہ خیال آیا ہے کہ ٹرمپ خاندان کو روز ویلٹ ہوٹل کی خریداری کی جانب راغب کیوں نہ کیا جائے۔ زلفی بخاری صاحب کی Hard Sell صلاحیتیں اس ضمن میں ہمارے کام آسکتی ہیں۔