’’وارث‘‘ سے ’’ میرے پاس تم ہو‘‘
1980 کی دہائی کے آغاز میں جب امجد اسلام امجد صاحب کے "وارث" کا بہت چرچہ تھا تو ان دنوں اس ڈرامے کی ایک قسط بھی ٹی وی پر نہیں دیکھی تھی۔"میرے پاس تم ہو" کو عمر کے آخری حصے میں دیکھنے کا اشتیاق دل میں پیدا ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مگر علم ہوا کہ اس ڈرامے کی تھیم سے ہماری روشن فکر خواتین بہت خفا ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اس میں عورت کو فطرتاََ "بے وفا" دکھایا گیا ہے۔ اس کی ہیروئین نے اپنے شوہر کو ایک اور مرد کی خاطر چھوڑ دیا تھا۔ یوں کرتے ہوئے اپنے کم عمر بچے کے جذبات کی بھی فکر نہ کی۔ طیش سے مغلوب ہوا مذکورہ ڈرامے کا ہیرو اسے "دوٹکے کی عورت" پکارتا رہا۔
ہیروئین کے بارے میں ایسے توہین آمیز الفاظ کے استعمال نے ہماری روشن فکر خواتین کو بہت اشتعال دلایا۔"میرے پاس تم ہو" کی وجہ سے اُٹھا جھگڑا ٹی وی سکرینوں پر لگائے ٹاک شوز میں بھی پہنچ گیا۔ وہاں ہوئے ایک مباحثے کی ایک کلپ بہت وائرل ہوئی۔ اس کلپ میں عورتوں کے حقوق کی ایک بلندآہنگ علم بردار محترمہ طاہرہ عبداللہ نے میلہ لوٹ لیا۔ طاہرہ ہمارے خاندان کی لاڈلی رکن کی مانند ہیں۔ میں ان کے ساتھ "لبرٹی" لیتے ہوئے بھی محتاط رہتا ہوں۔ ربّ کریم انہیں خوش رکھے۔ میرے اندر موجود پرانی وضع کے ڈھیٹ "مرد" کو برداشت کرلیتی ہیں۔
جوکلپ سوشل میڈیا پر مشہور ہوئی اور مجھے بھی دیکھنا پڑی اس میں "میرے پاس تم ہو" کے مصنف بھی تشریف لائے تھے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اپنے سرپر لگائی وِگ اور گفتگو کے انداز سے مجھے ایک "چلتر" پراپرٹی ڈیلر لگے۔ انہوں نے "مرد" کے دُکھڑے بیان کئے جو ان کی دانست میں اپنی عمر کا وافر حصہ اپنی ماں کی خدمت اور بہنوں کی شادی کے لئے رقم جمع کرنے کی فکر میں گنوانے کے بعد بیوی کی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔ اپنی بچیوں کی تعلیم اور راحت کے لئے بقیہ زندگی ایک مشقتی کی طرح گزاردیتا ہے۔ اس کے باوجود "روشن فکر" خواتین کی تنقید کا نشانہ بنارہتا ہے۔ بے چارہ!!!
موصوف کی گفتگو سنتے ہوئے مجھے اپنی جوانی کے لاہور کا لکشمی چوک یاد آگیا جہاں کے ریستورانوں میں "میرے پاس تم ہو" کے مصنف کے اپنائے رویے اور لہجے والے کئی لوگ اپنے ذہن میں بنی کہانیوں کو فلمی انداز میں سنانے کو بے چین رہتے تھے۔ موصوف کے دلائل سنتے ہوئے کھل کر ہنس بھی نہ سکا۔
آج سے کچھ دن قبل دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے اپنی بیوی اور بچیوں سے جاننا چاہا کہ "میرے پاس تم ہو" کی مارکیٹ رپورٹ کیا ہے۔ میری بیوی جو ان دنوں گھر کا خرچہ چلانے کے لئے مجھ سے زیادہ کام کرتی ہے اس ڈرامے کی "شہرت" سے آگاہ تھی۔ اس نے مگر اس ڈرامے کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی تھی۔ بڑی بیٹی کو کیرئیر بنانے کا جنون ہے۔ وہ بھی مگر لاتعلق سنائی دی۔ چھوٹی بیٹی نے البتہ اعتراف کیا کہ وہ "میرے پاس تم ہو" کی ہر قسط بہت شوق سے دیکھ رہی ہے۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے اس ڈرامے کی تھیم اور کرداروں کا کچھ اندازہ ہوگیا۔ مجھے یہ بھی شبہ ہوا کہ میری بیوی اور بڑی بیٹی، چھوٹی کی "میرے پاس تم ہو" سے "عقیدت" کا مذاق اُڑاتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے آغازمیں اپنے گھر کی خواتین کے ذریعے اطلاع یہ بھی ملی کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے دویا تین سینما" میرے پاس تم ہو" کی آخری قسط اپنی سکرینوں پر Live Stream کریں گے۔ ہمارے گھر کے نسبتاََ قریب جوسینما ہے وہاں میری چھوٹی بیٹی اور اس کی دوستوں کو آخری قسط کے دیدار کے لئے ٹکٹ نہ مل سکی۔ انہیں راولپنڈی کے ایک سینما سے رجوع کرنا پڑا۔ کسی ٹی وی ڈرامے کی آخری قسط کو سینما میں دیکھنے کے لئے اس "کھڑکی توڑ"اشتیاق نے مجھے حیران کردیا۔
ذہن میں تھوڑی دیر کو یہ سوال ضرور اٹھا کہ وہ ڈرامہ جس کی بابت عورتوں کے حقوق کے ضمن میں میری ہمہ وقت نگہبانی کرنے والی محترمہ طاہرہ عبداللہ بہت ناراض ہیں راولپنڈی اور اسلام آباد کی عورتوں ہی میں اتنا مقبول کیوں ہوا۔ اس سوال پر غور کرنے کے بجائے مگر ایک سابقہ ڈرامہ نگار ہوتے ہوئے اس امر پر زیادہ خوشی محسوس ہوئی کہ شاید "میرے پاس تم ہو" کی وجہ سے انٹرٹینمنٹ کی دُنیا میں رونق لوٹ آئے۔ ہمارے سینما ہمارے ہاں ہی بنائے ڈراموں اور فلموں کی وجہ سے آباد ہونا شروع ہوجائیں۔
اتوار کی شام مگر رات کا کھانا مجھے بہت دیر سے ملا۔ مغرب کے بعد گرم چائے بھی نصیب نہ ہوئی۔ احتجاج کی عادت نہیں۔ بستر پر لیٹاانتظار کرتا رہا۔ بالآخر دریافت یہ ہوا کہ میرے گھر میں بھی "میرے پاس تم ہو" کی آخری قسط دیکھی جارہی ہے۔ نوکر چھٹی پر چلا گیا ہے۔ ڈرامے میں اشتہاروں کے لئے جو وقفے ہوئے ان کے دوران بیگم صاحبہ نے کھانا تیار کیا جو شایدزندگی میں پہلی بار میرے ذائقے کی تسکین نہ کرپایا۔
بالآخر اطلاع یہ بھی ملی کہ "میرے پاس تم ہو"کا ہیرو خود سے جداہوئی سابقہ بیوی کو اس کی خواہش اور اپنے بچے کے اصرار پر ملنے گیا تھا۔ ناظرین کو قوی امید تھی کہ شاید بچھڑے دل دوبارہ بہم ہوجائیں گے۔ ہیرو نے آخری ملاقات میں لیکن Forget and Forgive سے انکار کردیا۔ آخری لمحات میں شدتِ جذبات سے اسے دل کا دورہ پڑا۔ جانبرنہ ہوپایا۔ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی کئی خواتین کے ہیرو کی المناک موت پر بے تحاشہ رونے کی خبریں بھی ملیں۔
میں نے فرض کرلیا کہ اس کے بعد "میرے پاس تم ہو" کا Sequel بھی بنایا جائے گا۔ شاید اس میں مذکورہ ڈرامے میں "بھٹکی" دکھائی عورت "راہِ راست" پر آجائے گی۔ ہمارے معاشرے کو "مشرقی اقدار" کی اہمیت یاد دلائے گی۔ شاید کوئی ایسی تنظیم بھی بنالے جو "میرا جسم-میری مرضی" کا نعرہ بلند کرنے والوں کا ایک بھرپور تحریک کے ذریعے مقابلہ کرے۔
سوشل میڈیا پر چند لوگ مگر بہت چراغ پا تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وطن عزیز کے "حقیقی مسائل " سے توجہ ہٹانے کے لئے "میرے پاس تم ہو" والا ڈرامہ بنایا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ ویسی ہی Diversion قرار پائی جو جنرل ضیاء نے اپنے دور میں "وارث" کو پسند کرتے اور ٹی وی کے ذریعے کرکٹ کو فروغ دینے کے لئے متعارف کروائی تھی۔ میں ایسے خیالات پڑھتے ہوئے دل سے محض یہ دُعا مانگتا رہا کہ کاش ہماری حکمران اشرافیہ اتنی ہی ذہین ہوتی جتنا ہم تصورکئے بیٹھے ہیں۔
دُنیا بھر میں قسط وار ڈرامے لوگوں میں بے پناہ مقبول ہیں۔ امریکہ میں جب ریڈیو"کمرشل" ہوا تو وہاں سے ایسے ڈراموں کی ریت چلی۔ وہ گھریلو خواتین میں بہت مقبول تھے۔ ان کے شوہر جب اپنے کاموں کو چلے جاتے تو گھر کا کام کرتے اور کھانا تیار کرتے ہوئے گھریلو خواتین یہ ڈرامے بہت اشتیاق سے سناکرتیں۔ ان کے درمیان جو وقفے آتے تھے ان میں صابن کے اشتہاروں کی بھرمار ہوتی۔ اسی باعث ان ڈراموں کو Soap Operas پکارا گیا۔ ٹی وی متعارف ہوا تو وہاں بھی ایسے ہی ڈراموں کی بھرمار ہوگئی۔
ان دنوں لاطینی امریکہ کے کئی ممالک ایسے ہی ڈرامے تیار کررہے ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی زبانوں میں ڈب ہوکر بے تحاشہ مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ ان ڈراموں میں وفا اور بے وفائی کا سوال اہم ترین ہوتا ہے۔ غربت کے دُکھ بیان ہوتے ہیں۔ امیر خاندانوں کی پرتعیش مگر سفاک زندگی کو بڑھاچڑھاکر دکھایا جاتا ہے۔
بہت ہی پڑھے لکھے "دانشور" حضرات ایسے ڈراموں کو حقارت سے Kitch یعنی "کچرا" پکارتے ہیں۔"میر ے پاس تم ہو " کے بارے بھی ایسا ہی حکم صادر کیا جاسکتا ہے۔ اسے مگر پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی "توجہ ہٹائو" چال سے منسوب کرنا زیادتی ہوگی۔
میں نے اس ڈرامے کی جو کہانی سنی ہے اسے جان کر بلکہ خوشی ہوئی کہ "میرے پاس تم ہو" کے ہیرو کو بیوی کی "بے وفائی" نے غیرت کے نام پر قتل کے لئے نہیں اُکسایا۔ شاید اسے احساس تھا کہ اس کی غربت نے بیوی کو "بے وفائی" پر مائل کیا۔ اپنی "غربت" سے نجات پانے کے لئے ہیرو نے اسٹاک ایکس چینج میں رقم لگائی اور اس کے دن بدل گئے۔
"میرے پاس تم ہو" کے بارے میں خفا ہوئی روشن خیال خواتین کو نہایت احترام سے میں ان دو پہلوئوں کی طرف توجہ دینے کی درخواست کرتا ہوں۔ مختصر پیغام اس ڈرامے کی کہانی سن کر مجھے تو یہ ملا ہے کہ اگر بیوی "بے وفا" ہوکر تمہیں چھوڑ دے تو اس پر تیزاب پھینک کر اس کی زندگی اجیرن بنانے کی ترکیبیں نہ سوچو۔ سٹاک ایکس چینج پر توجہ دو۔ سٹے بازی کی بدولت ککھ سے لکھ ہو جائو اور Chill کرو۔
ہمارے وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور IMF کی سوچ کے غلام کئی "ماہرین معیشت" کئی برسوں سے ہمیں سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستانی اپنی بچت کو زمین کے ٹکڑے خریدنے میں خرچ کردیتے ہیں۔ پراپرٹی کے دھندے میں "پھنسی" رقم ملک میں ایسی سرمایہ کاری کو فروغ نہیں دیتی جس کی بدولت نئی فیکٹریاں لگیں مزید کاروبار کھلیں اور روزگار کے امکانات پیدا ہوں۔
"میرے پاس تم ہو"لوگوں کو "مثبت سرمایہ کاری" کی ترغیب دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو شاید ایسے ڈرامے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت بھی کونسل کو بہت بھائے گی کہ مرتے وقت ہیرو نے بے وفائی کی وجہ سے جداہوئی خاتون کو اپنا جسم چھونے نہیں دیا۔ اسے "ہاتھ نہ لگائو" کا حکم دیتا رہا۔ سرمد کھوسٹ کو یہ ڈرامہ بہت غور سے دیکھنا چاہیے اورزندگی کو "تماشہ" بنانے کے بجائے وفا کا کھیل بنائے اور اس رقم کو بے پناہ منافع سمیت واپس حاصل کرنے کا ڈھنگ تلاش کرے جو اس نے ایک ایسی فلم بنانے میں ضائع کردی جس کو شاید ہمارے سینمائوں میں دکھانے کی اجازت نصیب نہیں ہوگی۔