’’استاد‘‘ مزید مہربان ہو گیا
انتہائی سطحی سوچ اور متلون مزاجی کے باوجود امریکی صدر عالمی منظرنامے میں کوئی "تاریخی" کردار ادا کرنے کاخواہاں بھی ہے۔ اسی باعث 22 جولائی کے روز پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات سے قبل اس نے ازخود مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے ہمیں مزید حیران کردیا کہ بھارتی وزیر اعظم بھی جنوبی ایشیاء میں دائمی امن کے قیام کے لئے اس سے ثالثی کا طلب گار ہے۔
اس کے دعویٰ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے دل خوش فہم نے یہ امید باندھ لی کہ ہوسٹن میں نریندرمودی کی سواگت کے لئے لگائے تماشے سے خطاب کرتے ہوئے وہ کسی نہ کسی بہانے کشمیر کا ذکر بھی کرے گا۔ مودی کو چاپلوسانہ زبان استعمال کرتے ہوئے یاد دلانے کی کوشش کرے گا کہ بھارت کا "وکاس(ترقی)" برصغیر میں امن کے بغیر ممکن ہی نہیں اور مسئلہ کشمیر کا حل اس حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ٹرمپ مگر ٹرمپ ہے۔ پل میں تولہ، پل میں ماشہ، سنجیدہ مسائل کے تناظر میں اس سے مستقل مزاجی کی توقع رکھنا سادہ لوحی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ذاتی حوالوں سے اتوار کا دن ٹرمپ کے لئے ویسے بھی ایک "بُرا" دن تھا۔ امریکی میڈیا میں اس ٹیلی فون کے تذکرے ہورہے تھے جس کے ذریعے اس نے مبینہ طورپر یوکرین کے صدر سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس کے ملک میں کاروبار کرنے والے جوبائیڈن کے بیٹے کو بدعنوانی کے الزام میں گھیرنے کی کوشش کرے۔ بائیڈن اوبامہ کیساتھ نائب صدر رہا ہے۔ ٹرمپ کاخیال ہے کہ آئندہ صدارتی انتخاب کے لئے ڈیموکریٹ پارٹی بالآخر اسے اپنا امیدوار چن لے گی۔ بائیڈن کی ممکنہ نامزدگی کو بدعنوانی کی کہانیوں سے روکنے کے لئے امریکی صدر کا ایک دوسرے ملک کے سربراہ سے رابطہ اگر درست ثابت ہوا تو ٹرمپ کی اپنی نامزدگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ میڈیا میں اس کی وجہ سے برپا شور سے وہ ٹھوس وجوہات کی بناء پر پریشان تھا۔ یوکرین کے صدر کے ساتھ ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے علاوہ ٹرمپ کے ناقدین مسلسل یہ سوالات بھی اٹھارہے ہیں کہ ایران کے ساتھ اب کیا سلوک کرنا ہے۔ یمن کے حوثیوں نے چند دن قبل سعودی عرب میں تیل کی فراہمی کے لئے لگائی تنصیبات پر میزائل برسائے۔ امریکی صدر نے ایران کو اس حملے کا براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ بڑھک بھی لگائی کہ امریکہ ایران کو "سبق" سکھانے کے لئے فوجی اعتبار سے پوری طرح تیار ہے۔ ایران کو سبق سکھانے کا فیصلہ مگر سعودی عرب کو کرنا ہوگا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے گویا اپنے قریب ترین حلیف کو "ساہڈے تے نہ رہنا"والا پیغام دیا جس پر امریکی میڈیا میں بہت تنقید ہورہی ہے۔ میڈیا میں برپا شور اور اس کے ذریعے اٹھائے سوالوں سے پریشان ہوا ٹرمپ اتوار کے دن لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے کسی "رونق میلے" کی تلاش میں تھا۔ ہوسٹن میں جمع ہوئے پچاس ہزار بھارتی نژاد امریکیوں نے اس کے لئے میلہ لگادیا۔ اس میلے سے خطاب کرتے ہوئے اس نے جوش خطابت میں یہ اعلان کردیا کہ "انتہا پسند اسلامی دہشت گردی" کے خلاف امریکہ اور بھارت یکسو اور یکجا ہوکر لڑیں گے۔ بھارتیوں نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر جذبات سے مغلوب ہوئے تالیاں بجاکر اس اعلان کا خیرمقدم کیا۔ ٹرمپ کے چہرے پر رونق پھیل گئی۔ اپنی تقریر کے بعد اس نے حاضرین کے ساتھ بیٹھ کر مودی کا طولانی خطاب بھی انتہائی دل جمعی سے سنا اور تقریب کے اختتام پر مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر میدان کا رائونڈ لگاتے ہوئے وہاں سے باہر چلا گیا۔ ہمارے میڈیا میں اس امر پر کماحقہ توجہ نہیں دی گئی کہ "انتہا پسند اسلامی دہشت گردی" کے علاوہ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں بطور خاص سجن جندل کا ذکر بھی کیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی بھارتی سرمایہ کار ہے جو ایک بار نواز شریف سے ملنے پاکستان آیا تو ہمارے میڈیا نے اس کی پاکستان آمد کو سابق وزیر اعظم کے " مودی کا یار" ہونے کے ثبوت کی صورت پیش کیا تھا۔ جندل کی کمپنی امریکہ کے OHIO میں 500 ملین ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کے ساتھ برسوں سے بند ہوئی ایک سٹیل مل کو بحال کرے گی۔ اس کی وجہ سے روزگار کے جو نئے امکانات پیدا ہوں گے امریکی صدر اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گا۔ اس کی Base خوش ہوجائے گی۔ مودی کی ہوسٹن میں ہوئی تقریر واضح انداز میں یہ پیغام دے رہی تھی کہ اس کی تقریر تیار کرنے والوں نے ٹرمپ کی اناپرست طبیعت کا بھرپور تجزیہ کررکھا ہے۔ اس کی پہاڑ جیسی انا کی تسکین کے لئے مودی کے منہ سے وہ الفاظ کہلوائے گئے جن کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم نے "اعتراف" کیا کہ اس نے مذاکرات کا ہنر سیکھنے کے لئے ٹرمپ کی لکھی ایک کتاب "The Art of Deal" کا بھی غور سے مطالعہ کیا تھا۔ اس حوالے سے مودی نے گویا خود کو ٹرمپ کا "شاگرد" کہا۔ 50 ہزار بھارتیوں کے روبرو مودی کے اس "اعتراف" نے ٹرمپ کا دل موہ لیا۔ "استاد" مزید مہربان ہوگیا۔ "پیکچرابھی باقی ہے"۔ ہوسٹن میں فقط تقاریر ہی نہیں ہوئیں۔ مودی نے اس شہر میں قائم تیل اور گیس کی چند بڑی کمپنیوں سے ان کی پیداوار خریدنے کے سمجھوتے بھی کئے ہیں۔ سجن جندل کی جانب سے امریکہ میں بھاری بھر کم سرمایہ کاری کے علاوہ اب مزید سمجھوتوں کا انتظار ہے۔ ان کے ذریعے چند امریکی مصنوعات کے لئے بھارتی منڈی نظر بظاہر کھول دی جائے گی۔ ٹرمپ کی America First والے نعرے کی اس کے ذریعے تسکین ہوجائے گی۔ بھارتی فوج کو جدید تر بنانے کے نام پر امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں سے بھی معاہدوں پر دستخط ہونا ہیں۔ ٹرمپ کی انا اور امریکی سیٹھوں کے کاروباری مفادات پر توجہ دیتے ہوئے مودی سرکار نے یقینا ایک اچھا شولگایا ہے۔ ہمیں اس سے پریشان ہونے اور خود کو کوسنے کی البتہ ضرورت نہیں۔ دورِ حاضر کی اولین ترجیح سفاکانہ منافع خوری ہے۔ اس دور میں "انسان" بے وقعت ہوچکے ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق کے پامالی پر فکر مند ہونے کی کسی کو فرصت نہیں۔ میڈیا میں رچائے کھیل تماشوں کی بدولت توجہ فروعی امور کی جانب مبذول کردی جاتی ہے۔ ہماری جبلتوں میں نسلوں سے موجود تعصبات کے اظہار کے لئے سوشل میڈیا ہے جو لوگوں کو واہی تباہی بکنے میں مصروف رکھتا ہے۔ مودی کی ہوسٹن میں ہوئی تقریر میں اہم ترین مقام میری عاجزانہ رائے میں پاکستان کا نام لئے بغیر طعنہ زنی اور بڑھک بازی ہی نہیں تھی۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا دفاع بھی بہت اہم تھا۔ اس کالم میں اکثر یاد دلاتا رہا ہوں کہ یہ بات خداراہمیشہ ذہن میں رکھیے کہ مودی سرکار نے مذکورہ آرٹیکل کو اپنی پارلیمان کے ذریعے ختم کیا ہے۔ مودی نے نہایت مکاری سے اس امرکا ذکر کیا۔ ٹرمپ کی موجودگی میں بھارتی نژاد سامعین کو اُکسایا کہ وہ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر بھارتی پارلیمان کو خراج تحسین پیش کریں جس نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا۔ مکارانہ مہارت سے Manage کئے اس "خراج تحسین" کے ذریعے "دُنیا کی طاقت ور ترین جمہوریت" کے صدر کو آبادی کے اعتبار سے "دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت" کے وزیراعظم نے درحقیقت یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ محض مودی سرکار کا فیصلہ نہیں ہے۔ یہ بھارت کی منتخب پارلیمان کا فیصلہ ہے۔ نریندرمودی کے لئے اس فیصلے سے روگردانی ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ اس ضمن میں اب "بے بس" ہوچکا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اس کالم میں تواتر سے عرض گزار رہا کہ بھارت کو مؤثر جواب وپیغام دینے کے لئے پاکستان کی پارلیمان کا پلیٹ فارم بھرپور انداز میں استعمال کیا جائے۔ مجھ جیسے دو ٹکے کے صحافیوں کی داد فریاد کے باوجود ہماری پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلوانے میں بہت دیر لگائی گئی۔ یہ اجلاس بالآخر طلب ہو بھی گیا تو وہاں جو بچگانہ تماشے لگے انہیں یاد کرتے ہوئے گھن آتی ہے۔ بھارت کی پارلیمان میں، آپ کو بہت اعتماد سے یہ کہہ رہا ہوں، ہماری پارلیمان سے کہیں گنا زیادہ تعداد میں "چور اور لٹیرے" موجود ہیں۔ درجنوں کے خلاف قتل اور زنابالجبر جیسے سنگین مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ "منتخب پارلیمان" کا مگر جمہوری ثقافت کی عادی دُنیا میں ایک اجتماعی احترام واہمیت ہے۔ ہم اپنے گھر میں پاکستانی پارلیمان کو جوبھی کہتے رہیں مگر دُنیا کو مسئلہ کشمیر جیسے اہم موضوعات پر مؤثر ترین پیغام پہنچانے کے لئے اسے بروئے کار لانا ہوگا۔ ہزاروں خامیوں کے باوجود ہماری جمہوریت آج بھی ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ قتل کی ایسی وارداتیں نہیں دِکھارہیں جو آبادی کے اعتبار سے "دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت" میں روزمرہّ کا معمول بن چکی ہیں۔ اس جمہوریت کو مزید صحت مند، مثبت اور توانابنائیں۔ دُنیا ہمیں سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوجائے گی۔