تحریک انصاف کا "ہر صورت" مارچ اور "نیک چال چلن" کی ضمانت
سازشی تھیوریوں سے شدید نفرت کے باوجود منگل کی صبح اٹھ کر یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ تحریک انصاف کے چند اہم رہنمائوں اور شہباز حکومت کے تگڑے وزراء کے مابین چند روز قبل یہ طے ہوگیا تھا کہ ایس سی او کانفرنس کے دوران اسلام آباد میں کسی نوعیت کی ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف کے بے شمار رہ نماں اور کارکنوں کو مگر ممکنہ "مک مکا" کے بارے میں بے خبر رکھا گیا۔ ان میں سے کئی پیر کی شام تک سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر یہ بڑھک لگانے میں مصروف رہے کہ اگر ان کی جماعت کے کسی رہ نما، عمران کی بہنوں یا شوکت خانم کے کسی ڈاکٹر کو عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی اجازت نہ دی گئی تو وہ ایس سی او کے آغاز کے دن یعنی 15اکتوبر بروز منگل ہر صورت اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچیں گے۔ اس کے بعد "آر یا پار" ہوگا۔
ابتدائی پیرا پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں واجب وجوہات کی بنیاد پر سوال یہ اٹھنا چاہیے کہ میرے پاس اپنے دعوے کو سچاثابت کرنے کے لئے کیا ثبوت موجود ہے۔ ہاتھ باندھ کر تسلیم کرتا ہوں کہ ایک بھی نہیں۔ جو دعویٰ کیا اس کی بنیاد فقط ایک رپورٹر کا مشاہدہ ہے۔
گزشتہ برس کی جولائی سے پیر سے جمعرات کی شام آٹھ بجے ایک ٹی وی چینل کے لئے ٹاک شو کرتا ہوں۔ اس کی تیاری کے لئے اپنے گھر جو اسلام آباد کے ایف۔ ایٹ سیکٹر میں واقع ہے وہاں سے ٹی وی چینل کے دفتر جانا پڑتا ہے۔ یہ دفتر ایک ہوٹل کی بیس منٹ میں ہے جو "ریڈزون" کی عقب میں قائم ہے۔ تقریباََ تین مہینوں کے دوران ایف۔ ایٹ سیکٹر کو پارلیمان ہائوس تک لے جانے والی بلیوایریا کی سڑک مگر کئی بار بند رہی۔ آغاز اس کا جماعت اسلامی کی جانب سے غزہ میں ہوئی بمباری کے خلاف احتجاج سے ہوا تھا۔ گھر سے دفتر تک پہنچنے کے لئے 20سے زیادہ منٹ درکار نہیں ہوتے تھے۔ بلیوایریا والی سڑک کنٹینر لگانے کی وجہ سے مگر جب بند ہونا شروع ہوئی تو متعدد بار دفتر پہنچنے میں ایک سے زیادہ گھنٹہ بھی صرف ہوگیا۔
جماعت اسلامی کے پارلیمان کے روبرو موجود ڈی-چوک پر لگائے دھرنے سے نجات ملی تو تحریک انصاف نے اسی چوک پر اپنے قائد کی رہائی کے لئے جلسوں اور دھرنوں کی تڑی لگانا شروع کردی۔ ان کی یلغار روکنے کے لئے بلیوایریا سے پارلیمان جانے والی ہی نہیں اسلام آباد کی متعدد سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کنٹینرلگاکر تقریباََ جام کردی گئی۔ اسلام آباد ویسے بھی پہاڑوں کی وادی میں پھیلے وسیع وعریض میدان کی صورت نظر آتا ہے۔ اس کے متعدد راستوں کو کنٹینروں کی دیواریں لگاکر بند کردیا گیا تو یہاں کے پرانے رہائشی خودکو محصور ہوا محسوس کرنے لگے۔ میں نے متعدد بار اس کالم میں اس کی بابت دہائی مچائی ہے۔
میرے کالموں سے عمران خان کے چند دیوانوں نے اخذ یہ کیا کہ جیسے شریف خاندان سے مبینہ طورپر "لفافہ" لینے والا "آئین کے تحت فراہم کردہ" اس آزادی کے خلاف ذہن سازی میں مصروف ہے جو شہریوں کو جلسے جلوس کے انعقاد کا حق فراہم کرتا ہے۔ "آزادی اظہار" کا جو احترام تحریک انصاف کی "گھٹی" میں شامل ہے اس کا "مزا" عمران حکومت کے ساڑھے تین سالوں کے دوران ذاتی طورپر خوب انجوائے کرچکا ہوں۔ وزیر اعظم کے اگست 2018میں حلف اٹھاتے ہی چند ٹی وی اینکروں کو تخریب کار ٹھہراتے ہوئے ٹی وی سکرینوں سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ میں وہ پہلا اینکر تھا جس کے "فسادی" وجود سے ٹی وی سکرین کو نجات دلائی گئی۔ صحافیوں کو بکائو اور لفافہ ٹھہراکر ذلیل وخوار کرتے افراد جب "آئین اور بنیادی حقوق" کی بات کرتے ہیں تو میرا پنجابی محاورے والا "ہاسا" چھوٹ جاتا ہے۔
بہرحال اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہیں۔ گزشتہ جمعرات مجھے یہ خبر دی گئی تھی کہ چونکہ ایس سی او کی وجہ سے اسلام آباد کی ریڈزون تک جانے والے تمام راستے سیل کردئیے جائیں گے اس لئے ہمارے چینل کا دفتر بھی ان تین دنوں میں بند رہے گا۔ مجھے اپنے گھر سے ڈی ایس این جی کے ذریعے پروگرام کرنا ہوگا۔ میں تین دنوں تک گھر میں محصور رہنے کے لئے اپنا ذہن بناچکا تو اتوار کی شام سات بجے کے قریب خبر آئی کہ ہمارا دفتر کھلا رہے گا اور میں دفتر کی گاڑی میں بٹھاکر پروگرام کی تیاری کے لئے حسب معمول گھر سے دفتر لایا جائوں گا۔ میری مشکل تو نظربظاہر آسان ہوگئی مگر وسوسوں بھرادل ماننے کو تیار نہ ہوا۔ پیر کی سہ پہر مجھے دفتر پہنچانے کو لیکن گاڑی آگئی۔ میں اس میں بیٹھ کر دفتر جاتے ہوئے صحافی کی نگاہ سے سڑک کا جائزہ لیتا رہا۔
مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ حد نگاہ تک کہیں بھی کنٹینر نظر نہیں آئے۔ ریڈزون پہنچنے سے قبل ایک دو مقامات پر پولیس کے ناکے لگے ہوئے تھے۔ ان پر تعینات افراد میرے ڈرائیور سے فقط شناخت کے لئے کوئی کارڈ وغیرہ طلب کرتے مگر مجھے ٹی وی کی وجہ سے پہچاننے کی وجہ سے فوراََ ہی آگے بڑھنے کی اجازت دیتے۔ رینجرز کے چند ٹرک بھی سڑکوں پر متحرک نظر آئے۔ ایک دو جگہ اس کی نفری بھی تعینات تھی۔ وہ مگر گاڑیوں کو روک کر ان میں بیٹھے لوگوں کی شناخت طلب نہیں کررہے تھے۔ دفتر پہنچنے تک پولیس اور رینجرز کی ایسی تعیناتی نے مجھے حیران نہیں کیا۔ پروگرام آن ایئرجانے کے بعد رات نو بجے کے قریب گھر لوٹتے ہوئے مگر حیرت کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی۔
رات نو بجے تک تحریک انصاف کے کئی رہ نما مسلسل دعویٰ کررہے تھے کہ وہ ہر صورت منگل کے دن ایس سی او کے افتتاحی اجلاس کو خاطر میں لائے بغیر ڈی چوک پہنچیں گے۔ اس ضمن میں خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کی کیمرے پر ہوئی ایک گفتگو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی تھی۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ (15اکتوبر کے دن) اسلام آباد جائیں گے تو انہوں نے "انشاء اللہ"، کہا۔ اس سے قبل خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کے اہم رہ نمائوں کا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں اجلاس بھی ہوا تھا۔ اس کے اختتام پر جو پریس ریلیز جاری ہوئی اس میں بھی "ہر صورت" (مارچ کی خاطر) اسلام آباد جانے کا عہد ہوا۔
علی امین گنڈا پور کے "انشاء اللہ" کو میرے شکی ذہن نے اپنے انداز میں لیا اور یہ فرض کرلیا ہے کہ وہ درحقیقت ایس سی او کے اجلاس میں بطور وزیر اعلیٰ شرکت کے لئے تشریف لانے کی "خبر" دے رہے ہیں۔ اس شک کا اظہار اپنے شو میں بھی کردیا۔ دل میں لیکن یہ شبہ شدت سے موجود رہا کہ تحریک انصاف کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے حماد اظہر اور عامر ڈوگر جیسے افراد تو کارکنوں کو "ہر صورت" 15اکتوبر کے روز اسلام آباد پہنچنے کو اْکسارہے ہیں۔ ان کے بیانات اور پیغامات سننے کے بعد مجھے حیرت ہوئی کہ دفتر سے گھر لوٹتے ہوئے بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر نہ تو کنٹینر لگے تھے اور نہ ہی پولیس یا رینجرز کی نفری کو ایسے انداز میں تعینات کیا جارہا تھا کہ وہ 15اکتوبر کی صبح متوقع ہنگامے کو روکنے کی تیاریوں کی نشاندہی کرے۔ جبلت میں موجود رپورٹر بارہا سوال اٹھاتا رہا کہ حکومت 15اکتوبر کے دن ممکنہ طورپر ہونے والی ہنگامہ آرائی روکنے کی کوشش کیوں نہیں کررہی۔
یہ سوچتے ہوئے گھرلوٹا تو تھوڑی دیر کو سوشل میڈیا دیکھنے کے بعد سونے کی تیاری شروع کردی۔ اسی دوران میرے دوست وسیم بادامی کے ٹی وی شو سے فون آگیا۔ بادامی بھائی سے لائن ملی تو وہ پوچھنے لگے کہ تحریک انصاف کی جانب سے 15اکتوبر کے دن کے لئے طے ہوئے ہنگامے کا پروگرام کیوں منسوخ کردیا گیا۔ ان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں اپنے تئیں یہ سمجھ چکا تھا کہ 14اکتوبر کے دن میرا دفتر کیوں کھلا تھا اور سڑکوں پر پولیس اور رینجرز اتنے ریلیکس کیوں نظر آرہے تھے؟ میرے اور آپ جیسے عامیوں سے بالا بالا تحریک انصاف کے چند زعما سرکارمائی باپ کو یقینا "نیک چال چلن" کی ضمانت دے چکے تھے۔