تنخواہ داروں کا کچومر نکالتا بجٹ اور وزیر خزانہ کا اطمنان
اتوار کی رات نیند آنے سے قبل یہ بدخبری آگئی تھی کہ پٹرول کی قیمت میں 7روپے 45پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اضافے کا یہ اعلان جولائی 2024ء سے شروع ہونے والے مالی سال کیلئے بنائے بجٹ کی منظوری کے فوری بعد ہوا ہے۔ اس بجٹ نے میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والوں کے علاوہ روز کی روٹی روز کمانے والے دیہاڑی دار کے روزمرہّ استعمال کی تقریباََ ہر شے کی قیمت سیلز ٹیکس کے نفاذ سے بڑھادی ہے۔ اس کے باوجود نہایت ڈھٹائی سے دعویٰ یہ ہورہا ہے کہ شوکت عزیز اور شوکت ترین کے بعد بینکاری سے حکومتی فیصلہ سازی کے ایک اور مرکزی کردار ہوئے اورنگزیب صاحب کا پیش کردہ بجٹ وطن عزیز کیلئے اچھی خبر ہے۔ مہنگائی کی شرح کو قابل برداشت بناتے ہوئے یہ بجٹ ملکی معیشت کوبتدریج بحران سے نکال کر پہلے استحکام اور بالآخر خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کردے گا۔
اچھے دنوں کی آمد کے جو دعوے ہورہے ہیں ان کی حقیقت صرف ایک ہی جماعت تھوڑی تحقیق کے بعد بے نقاب کرسکتی تھی۔ و ہ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوئی قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اسے مگر سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہونے کے باوجود خواتین ا ور اقلیتوں کے لئے مختص نشستیں نصیب نہ ہوئیں۔ ان کے حصول کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوا۔ اعلیٰ ترین عدالت اس جماعت کی فریاد پر غور کرتے ہوئے مختلف دھڑوں میں تقسیم نظر آئی۔ فل کورٹ کے بنچ پر بیٹھے عزت مآب ججوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں ملکی سیاست کو مفلوج بنادینے کی تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن کی جانب منتقل کرتے سنائی دئے۔ 8فروری 2024ء کے روز ہوئے انتخاب کئی اعتبار سے اب بے حد مشکوک نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ دریں اثناء امریکی ایوان نمائندگان سے ریکارڈ بناتی اکثریت کے ساتھ ایک قرارداد بھی منظور ہوگئی۔ مذکورہ قرارداد نے 8فروری 2024ء کے دن ہوئے انتخاب پر مزید سوالات اٹھادئے۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے علاوہ دنیا کی واحد سپرپاور کہلاتے ملک کی منتخب پارلیمان سے 2024ء کے انتخاب کے بارے میں جو سوالات اٹھے انہوں نے پاکستان کی پارلیمان کو اخلاقی اعتبار سے کمزور تر بنادیا ہے۔ بد قسمتی سے قومی اسمبلی میں حکومتی بنچوں پر بیٹھی مسلم لیگ (نون) نے اس اہم ترین پہلو پر توجہ ہی نہیں دی۔ اپنی ساکھ کے خلاف اٹھی آوازوں کو ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے ہوئے ریکارڈ ساز عجلت سے اپنا پیش کردہ بجٹ منظور کروانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ 2024ء کے انتخابی عمل پر اٹھائے سوالات کے باوجود ان دنوں سنی اتحاد کونسل کہلاتی تحریک انصاف ہر حوالے سے موجودہ قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہوتے ہوئے اس کا فرض تھا کہ ایوان میں اپنی عددی قوت کو بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے حکومت کے پیش کردہ بجٹ کے عوام دشمن پہلو عوام کے روبرو بے نقاب کرتی۔
تحریک انصاف کی حمایت سے قومی اسمبلی تک پہنچے ہر رکن کو مگران دنوں فقط عمران خان کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنا مقصود ہے۔ وہ بجٹ پر توجہ دینے کے بجائے "قیدی نمبر804" کی تصاویر ایوان میں لہراتے ہوئے ان کی رہائی کے لئے ڈیسک بجاتے دہائی مچاتے رہے۔ نعرہ بازی سے ان کے گلے خشک ہوجاتے تو ایوان سے واک آئوٹ کا اعلان کردیتے۔ ان کے ایوان سے نکل جانے کے بعد حکومت کو سرعت سے بجٹ منظور کروانے کے لئے مطلوب مراحل سے گزرنا مزید آسان ہوجاتا۔
اپوزیشن جماعتوں کی بجٹ سیشن کے حوالے سے اپنائی ناقص حکمت عملی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر خزانہ نے "سپرٹیکس" کے عنوان سے ہنر مند تنخواہ داروں پر ایک اور ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ سو طرح کے جتن کے بعد غیر ملکی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان 2024-25ء کے بجٹ میں تنخواہ داروں کے اوپر عائد کردہ ٹیکسوں کے نفاذ کے فیصلے کے بعد پاکستان میں کاروبار بڑھانے والے کسی ادارے کو اپنا ہنر اور صلاحیتیں پیش کرنے سے گریز کرے گا۔ ایسے اداروں کیلئے پہلے سے کام کرنے والے بھی دیگر ممالک منتقل ہونے کو ترجیح دیں گے۔
نام نہاد "بگ پکچر" پر توجہ دینے کے بجائے مگر یہ کہتے ہوئے نہایت حقارت اور رعونت سے دعوے ہورہے ہیں کہ ٹی وی چینلوں سے لاکھوں روپے کمانے والے "دروغ فروش" یعنی اینکر خواتین وحضرات اپنی تنخواہوں پر لگے ٹیکسوں سے بلبلااٹھے ہیں۔ حالانکہ یہ سب اینکر خواتین وحضرات حکومت پر متمول طبقوں سے واجب ٹیکس جمع کرنے کا شوربرپا کرتے ہوئے شام سات بجے کے بعد ٹی وی سکرینوں پر لگائی دوکانوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔ جو طعنے دئے جارہے ہیں اگر انہیں تسلیم بھی کرلیا جائے تو ہاتھ اور پائوں کی تمام انگلیاں ملاکر جو تعداد بنتی ہے اس سے بڑھ کر کوئی ایک شخص بھی کسی ٹی وی چینل سے اتنی تنخواہ وصول نہیں کرتا جو "سپرٹیکس" کے قابل ہو۔ میں ہمیشہ "تنخواہ دار" کی بات کرتے ہوئے نجی کاروباری اداروں سے منسلک ہر اس ہنرمند کو نگاہ میں رکھتا ہوں جو تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان میں رہنا چاہتا ہے اور اپنی صلاحیتیں اسی ملک کی معیشت کو سنوارنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
آج سے تقریباََ تین دہائی قبل من موہن سنگھ نے بھارت میں ایسا ماحول بنایا تھا جس نے کمپیوٹر سائنس کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی نوجوانوں کو اس امر پر اپنی پالیسیوں سے (حکم کے ذریعے نہیں) مائل کیا کہ وہ امریکہ جیسے ملکوں میں اپنی زندگی بسر کرنے کے بجائے وطن لوٹ آئیں۔ ان کے بھارت لوٹنے کے بعد بنگلوراور حیدر آباد امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں قائم "سیلیکون وادی" کی ٹکرکے شہر شمار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ پاکستان بھی اپنے کئی شہروں کو ایسے ہی مراکز میں تبدیل کرسکتا تھا۔
ہمارے حاکموں نے مگر اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔ روایتی اشرافیہ اور مختلف کاروباروں کے اجارہ دار سیٹھوں کے نازہی اٹھاتے رہے۔ بذاتِ خود ایک باصلاحیت اور غیر ملکی تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ بینکار ہوتے ہوئے اورنگزیب صاحب نے ماضی کی پالیسیوں کو نہ صرف برقرار رکھا۔ انہیں عام شہریوں، دیہاڑی داروں اور تن خواہ داروں کے لئے بلکہ مزید سفاک بنادیا ہے۔ کاش "قیدی نمبر804" کی رہائی پر توجہ مرکوز رکھتے تحریک انصاف کے اراکین پارلیمان اپنی عددی قوت کو وزیر خزانہ کے دل میں تھوڑی ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کے لئے بروئے کار لاسکتے۔