شہباز شریف ’’برادر یوسف‘‘ ہرگز نہیں
مولانا فضل الرحمن کے "آزادی مارچ" سے آج گریز کا ارادہ ہے۔ ٹھوس معلومات تک رسائی کے بغیر جو دکھائی دے رہا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے تئیں اس موضوع پر کافی "تجزیہ" بگھارچکا ہوں۔ ریگولر اور سوشل میڈیاکی پھیلائی چسکہ فروشی کے سبب "تجزیہ" مگر آج کی صحافت میں آئوٹ آف فیشن ہوچکا ہے۔
"نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز" کے نام پر ہمیں چوبیس گھنٹے باخبر رکھنے والی سکرینوں پر جو "نوٹنکیاں چلائی جاتی ہیں ان کی Ratings گررہی تھی۔ فواد چودھری صاحب جو غالباََ ایڈم سمتھ کے بعد دورِ حاضر کے سب سے بڑے معیشت دان بھی ہیں جب وزیر اطلاعات تھے تو صحافتی اداروں کو اپنا "بزنس ماڈل" درست کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ ہماری رہ نمائی فرماتے ہوئے البتہ یہ حقیقت نظرانداز کردی کہ "خبر" میڈیا کی بنیادی پراڈکٹ ہوا کرتی ہے اور کمیونی کیشن کے گرو یاددلاتے رہے ہیں کہ اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو "خبر" نہیں بنتی۔ آدمی کتے کو کاٹ لے تو "خبر" بنتی ہے۔ مصیبت ہماری صحافت کی مگریہ ہوگئی کہ "آدمی" نے جب "کتے" کو کاٹناشروع کردیا تو اسے بیان کرنا پاکستان کے "سافٹ امیج" کیلئے نقصان دہ ٹھہرادیا گیا۔
اس کے بعد دریافت یہ بھی ہوا کہ میڈیا درحقیقت کوئی "بیانیہ(Narrative) مرتب کرتا ہے۔ پاکستان جیسی "نظریاتی مملکت" کا بھی لٰہذا ایک "بیانیہ" ہونا چاہیے۔ یہ "بیانیہ" ترتیب دینے کے لئے صاف، ستھرے، ایماندار اور محب وطن صحافی درکار ہیں۔ 2014 سے مگر تحریک انصاف نے بہت مہارت اور محنت سے خلقِ خدا کو یہ سمجھایا کہ وطن عزیز کے صحافی "لفافہ" ہوچکے ہیں۔ "پرانے پاکستان" میں مشہور ہوئے صحافیوں کو ضمیر فروش ثابت کرنے کے بعد "نئے پاکستان" کو باضمیر صحافیوں کی ضرورت تھی۔ ان صحافیوں کی کھیپ تیار ہوگئی تو فواد چودھری صاحب وزیر اطلاعات نہ رہے۔ ان دنوں ان کی رہ نمائی کا فریضہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کمال خوبی سے سرانجام دے رہی ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر اپنے دبنگ انداز میں چھائی ہوئی ہیں۔ عمران خان صاحب کے دیرینہ ساتھی تحریک انصاف میں "نووارد" ڈاکٹر صاحبہ سے حسد میں مبتلا ہیں۔ کابینہ کے اجلاسوں میں ان کی بدخوئی میں مصروف رہتے ہیں۔ سہاگن مگر وہی کہلائے جو پیامن بھائے اور وزیر اعظم عمران خان صاحب ڈاکٹر صاحبہ کی کارکردگی سے انتہائی مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے "آزادی مارچ" کے "تجزیے" کے لئے ٹاک شوز ہیں۔ حافظ حمد اللہ کو تحریک انصاف کی کسی خاتون نمائندہ کے ساتھ بٹھادیں تو "رونق" لگ جاتی ہے۔ اس "رونق" سے اگرچہ ہمارے Politically Correct "لبرل" خواتین وحضرات خوش نہیں ہوتے۔ انہیں گلہ ہوتا ہے کہ "مولوی" حضرات کو "خواتین کی توہین" کے لئے Space فراہم کی جارہی ہے۔ "روشن خیال" پاکستان میں Bigotry کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ذاتی طورپر اگرچہ میں بے وقوف یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے "لبرل" خواتین وحضرات کو "مولویوں " کی سکرینوں پر رونمائی سے خوش ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنی گفتگو سے اپنے "رجعت پسندانہ" تصورات کو بے نقاب کررہے ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہوں تو خیال آیا کہ میں نے تو مولانا فضل الرحمن کے "آزادی مارچ" سے گریز کا ارادہ باندھا تھا۔ ناک کو سیدھا پکڑنے کے بجائے ہاتھ گھما کر پکڑتے ہوئے "آزادی مارچ" کے تناظر ہی میں یاوہ گوئی کررہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے خود کو مگر تسلی دی ہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔ مولانا کے "آزادی مارچ" کو نظرانداز کروں تو میری دانست میں دو ایسے موضوعات رہ جاتے ہیں جن کے بارے میں لکھتے ہوئے ڈنگ ٹپایا جاسکتا ہے۔ کرتارپور راہداری کا افتتاح یا نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ جس کی قیادت اب شہباز شریف صاحب کے "آہنی ہاتھوں " میں ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے ایک بہت ہی محنتی اینکر شاہزیب خانزاہ صاحب کے ایک پروگرام کی بدولت زوردار بحث چھڑچکی ہے۔ انکشاف ہوا ہے کہ شہباز صاحب مولانا فضل الرحمن کے "آزادی مارچ" سے فاصلہ برقرار رکھنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کی اکثریت کو اس ضمن میں ان کا رویہ قابل قبول نظر نہیں آرہا۔ سوال اٹھتا ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ شہباز شریف صاحب کے ساتھ میری پہلی ملاقات 1990کے انتخابات کے بعد ہوئی تھی۔ ان کے بھائی وزیر اعظم منتخب ہوکر اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے۔ شہباز صاحب ان کی ہمہ وقت معاونت کے لئے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بیٹھ کر چٹکیاں بجاتے ہوئے اپنی جماعت کے ایم این ایز کو اپوزیشن بنچوں سے اُٹھے اعتراضاف کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے اُکساتے رہتے تھے۔ اس ضمن میں ان کا رویہ مجھے فٹ بال میچ میں حصہ لینے والے کسی جنونی ٹیم کے کپتان والا محسوس ہوتا تھا۔ شہباز صاحب کی پھرتی کو میں The Nation کے لئے قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں لکھے انگریزی کالم میں چسکہ لیتے ہوئے بیان کرتا۔ شہباز صاحب نے ایک دو بار مجید نظامی صاحب سے میرے اندازِ تحریر کی اشاروں کنایوں میںشکایت کرنے کی کوشش کی۔
نظامی صاحب سنی ان سنی کرتے رہے۔ ایک دن مگر شہباز صاحب کو یاد دلایا کہ "نصرت صاحب بھی آپ جیسے لاہوری ہیں۔ آپ جانیں اور وہ"۔ اس فقرے کے بعد شہباز صاحب نے میرے بہت ہی سینئر نذیر ناجی صاحب کی وساطت سے اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں ملاقات کا وقت عطا کیا۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ پہلی ملاقات سے آج تک جب بھی ان سے سامنا ہواشہباز صاحب نے میرا بہت احترام کیا۔ ہمیشہ گرم جوشی سے گلے ملے۔ ان کے اندازِ سیاست اور حکمرانی مگر مجھے کبھی پسند نہیں آئے۔ مستقل میرے پھکڑپن کا شکاررہے۔ سیاست دان کے ساتھ صحافی کا وہی معاملہ ہے جو گھوڑے کا گھاس کے ساتھ ہوتا ہے۔ قصیدہ گوئی کا ہنر مجھے نصیب نہیں ہوا۔ بنیادی طورپر ملکی سیاست کو ہمیشہ "ہوتا ہے شب وروزتماشہ میرے آگے" کی مانند لیتا رہا ہوں "تماشہ" ہورہا ہو تو جگت بازی اور پھکڑپن کی گنجائش پیدا ہوتی رہتی ہے۔ میرے اندر موجود بھانڈ کوشہباز صاحب اپنے انداز سے جگت بازی کے ذریعے رزق کمانے کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ میں انہیں "بھاگ لگے رہن" کی دُعا دینے کو مجبور ہوں۔ اس تمہید کے بعد مگر تھوڑی سنجیدگی سے یہ التجاکرنے کو مجبور ہوں کہ اس بات کوہرگز فراموش نہ کیا جائے کہ نواز شریف شہباز شریف کے بڑے بھائی ہیں۔ شہباز صاحب ان سے بے تحاشہ محبت کرتے ہیں۔ اپنے بھائی کا "برادر یوسف" کہلوائے جانے کو وہ ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔ اس وقت انہیں اپنے بڑے بھائی کی صحت کی فکر لاحق ہے۔ ان سے تفصیلی ملاقات ہوئے کئی برس گزرچکے ہیں۔ اپنے گھر تک محدود ہوا لیکن میں شہباز صاحب کی اپنائی حکمت عملی کا ذاتی تحفظات کے باوجود بخوبی اندازہ لگاسکتا ہوں۔ غالباََ اس حکمت عملی کی Operative لائن ہے: "جان ہے تو جہان ہے"۔ ان کی نظر بظاہر خواہش ہے کہ نواز شریف ہر شے بھلاکرفی الوقت اپنی صحت پر توجہ دیں۔ اس خواہش کو بروئے کارلانے کے لئے شہباز صاحب شاید آج کی مقتدر قوتوں سے ہر نوعیت کا سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں۔ سمجھوتے کی اس خواہش کی بابت جائز بنیادوں پر کئی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ یہ کہنا مگر زیادتی ہوگی کہ شہباز صاحب دیدہ دانستہ اپنے بھائی کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کو تباہ وبرباد کرنا چاہ رہے ہیں۔
نوازشریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کی ان دنوں کی سیاست کا ٹھوس تجزیہ کرنا ہو تو ہمیں شہباز صاحب کی ذات کے علاوہ اس جماعت کی "بنیادی ساخت" پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس جماعت کی اکثریت "سنجیدہ اور تجربہ کار" سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ کے تناظر میں یہ بات بھی اپنی جگہ "انہونی" ہے کہ ان میں سے ایک شخص بھی 2018 کے بعد سے ٹی وی سکرین پر آکر یہ بات کھل کر کہنے کی جرأت سے محروم ہے کہ "میاں (نوازشریف) نے ہمیں مروادیا"۔ ایسے افراد سے اس سے زیادہ کی توقع بھی خام خیالی ہے۔