’’نہلے کے بعد ’’دہلا‘‘ آ گیا۔ اب تماشہ دیکھیں
پیر کی رات میں نے اُکتا کر اپنا فون بند کردیا۔ حالانکہ میری بیوی شہر میں موجود نہیں تھی اور اس کی عدم موجودگی میں فون کی گھنٹی بھی بند نہیں کرتا۔ مبادا کے خوف سے۔
فون بند کردینے کی احمقانہ ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ بے تحاشہ افراد نے جن میں سے اکثر سے کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی مجھ سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔ ان سب کا گماں تھا کہ یکے بعد دیگرے ہماری عدالتوں میں اہم ترین معاملات پر سوالات اٹھادئیے گئے ہیں۔ تاثر اس سے پھیل یہ رہا ہے کہ شاید 2008 کا زمانہ لوٹ رہا ہے۔ متحرک عدالت اور اس کے سامنے "بکری" ہوئی حکومت والا دور۔ میرے پاس ان کے سوالات کے معقول جوابات موجود نہیں تھے۔ ان کی تجسس بھری مسرت بلکہ مجھے غیر منطقی محسوس ہوئی۔ میں اپنے گھر تک محدود ہونے کی وجہ سے ٹھوس خبروں سے لاعلمی کی جانب توجہ دلاتا رہا۔ مجھے فون کرنے والوں کی اکثریت مگر یاد دلانا شروع ہوجاتی کہ اپنے کالموں میں گزشتہ کئی ہفتوں سے "نومبر میں کچھ ہوگا" کی "نوید" سنارہا تھا۔ میں انہیں سمجھانے سے قاصر رہا کہ رپورٹنگ اور رائے میں فرق ہوتا ہے۔ ہمیشہ یہ لکھتا رہا ہوں کہ اسلام آباد کے "باخبر" ہونے کے "دعوے دار" حلقے یہ اصرار کررہے ہیں کہ "نومبر(2019) میں کچھ ہوگا؟ یہ اطلاع دینے کے بعد یہ عرض بھی کرتا رہا کہ میں علم نجوم پر ایمان نہیں رکھتا۔ اقبالؔ کا "ستارہ کیا میری تقدیرکی خبردے گا" ذہن پر ثبت ہوچکا ہے۔ جو نظر آرہا ہوتا ہے اس پر نگاہ رکھنے کو مجبور ہوں۔ نظر آنے والے منظر کے پیچھے موجود قوتیں درحقیقت کیا سوچ رہی ہیں اس کے بارے میں قطعاََ بے خبر ہوں۔ محض ماضی کے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں اور حال ہی میں میرے کئی اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ مثال کے طورپر مجھے گماں تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد آنے نہیں دیا جائے گا۔ وہ مگر سندھ سے روانہ ہوکر پنجاب کے اہم ترین شہروں سے گزرتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئے۔ اس شہر میں دو ہفتوں تک براجمان رہے۔ ان کے ہمراہ آئے قافلے کی تعداد ہرصورت 2014 میں دئیے دھرنے کے شرکا کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ وہ بہت منظم اور مہذب بھی نظر آئے۔ ان کے جذبے کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ مولانا اسلام آباد سے "کچھ" لے کر ہی لوٹیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔"کھایا پیا کچھ نہیں -گلاس توڑا?" والا معاملہ نظر آیا۔
عدالتوں سے اب جن معاملات کے ضمن میں رجوع ہورہا ہے ان کے بارے میں "جوجیتا وہی سکندر" کہنا چاہتا ہوں۔ مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے اپنے تئیں دریافت یہ بھی کرلیا ہے کہ ہمیشہ "سکندر" ہی جیتا کرتا ہے۔"مقدر" اسے سکندر نہیں بناتا۔ کامیابی کے "مقدر" سے مالا مال "سکندر" کی قوت کا اصل ماخذ جاننا چاہوں تو میرے منطقی ذہن کو مائوزے تنگ کا وہ فقرہ یاد آتا ہے جس کے ذریعے "سیاسی قوت" کے "اصل سرچشمے" کی نشان دہی کرنے کی کوشش ہوئی۔ آپ کو اس ضمن میں مزید جاننا ہو تو اپنا فون کھولیں۔ گوگل پر جائیں۔"Political Power and MAO" لکھ کر سرچ کا بٹن دبائیں۔ مجھے کانٹوں میں نہ گھسیٹیں۔ مجھ سے رابطہ کرنے والے لوگ اس امر پر بھی بہت حیران تھے کہ عمران خان صاحب کی "انقلابی" حکومت جو کسی کو NRO نہ دینے کی ضد میں مبتلا نظر آتی ہے اب "جنرل مشرف کے تحفظ" کے لئے عدالتوں سے رجوع کر بیٹھی ہے۔ مشرف کے خلاف چلی تحریک کے دوران عمران خان صاحب کی پہلی نظر بندی میری آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی۔ ہمارے ایک بہت ہی شفیق سینئر افضل خان صاحب ہواکرتے تھے۔ ہماری سیاسی تاریخ کے بے شمار تاریخی مراحل کو بطور ایک متحرک صحافی انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ مجھ جیسے پھکڑباز جونیئرز کو سیاست کے اسرار ورموز سے آگاہ رکھنے کی خاطر اپنے گھر بہت چائو سے بلواکر ان سیاستدانوں سے ملواتے جن کے ساتھ ان کی بے تکلفی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو وہ ملتان میں کئی برس گزارنے کی وجہ سے "میرا بھتیجا" پکارتے تھے۔ کئی برس تک دل سے ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی رہے۔ 2002 کے بعد مگر انہیں عمران خان صاحب کی صورت ایک نیا مسیحا ابھرتا نظر آیا۔ میں اس ضمن میں انہیں پکڑائی نہیں دیتا تھا۔ مشرف نے 3 نومبر2007 والی "ایمرجنسی پلس" لگائی تو اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلانے کے اعلانات ہوئے۔ اس تحریک کے بارے میں عمران خان صاحب کے جذبات کو جاننے کے لئے انہوں نے اپنے ہاں کپتان کو بلالیا۔ میرے سمیت چند صحافی بھی وہاں مدعو ہوئے۔ کھانا ختم ہونے کے بعد عمران خان صاحب میرے اور حامد میر کے ہمراہ ان کے فلیٹ سے لفٹ کے ذریعے گرائونڈ فلور پر آئے تو لفٹ کھلتے ہی تین باوردی پولیس والے موجود تھے۔ انہوں نے عمران خان صاحب کو ا ٓگاہ کیا کہ وہ انہیں گرفتار کرکے بنی گالہ لے جاکر ان کے گھر میں نظر بند کردیں گے۔ عمران خان صاحب پولیس کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ مجھے اور حامد میر کو دیکھتے ہوئے بہت معصومیت سے سوال کیا کہ "انہیں (پولیس کو) کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں موجود ہوں "حامد فقط مسکرادیا میں نے ڈھٹائی سے جواب دیا کہ خان صاحب حکومت "تخریب کاروں " کی بابت سب جانتی ہے۔ اسلام آباد ویسے بھی مختصر اور منظم شہر ہے اور موبائل فونز آپ کی لوکیشن بھی بتادیتے ہیں۔ آپ کو پہلی نظر بندی بہرحال مبارک ہو کیونکہ نظر بندی اور گرفتاریاں ہی سیاست دان کو اقتدار کی طرف لے جاتی ہے۔ حامد نے اپنا فون کھول کر پولیس والوں کے سامنے عمران خان صاحب کی گرفتاری کی "بریکنگ نیوز" بھی اپنے چینل کو فراہم کردی۔ اس نظر بندی کے باوجود عمران خان صاحب کو اقتدار میں آنے میں کئی برس لگے۔ 2008 کے انتخابات کا انہوں نے محمود خان اچکزئی سمیت بائیکاٹ کردیا تھا۔ ان انتخابات کے بعد لگی سیاسی گیم سے لہذا باہر ہوگئے۔ اکتوبر2011 کے لاہور والے جلسے سے ان کا بھرپور احیاء شروع ہوا۔ اس کے باوجود 2013 میں بھی موقعہ نہیں ملا۔ جولائی 2018 تک انتظار کرنا پڑا۔ عمران خان صاحب کی پہلی گرفتاری کو یقینی بنانے والے جنرل مشرف کو لیکن اب ان کی حکومت NRO دیتی نظر آرہی ہے۔ ان کے حامی اور ناقد اس کے باعث بہت حیران ہیں۔ عمر کے اس حصے میں لیکن میں "حیران" ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہوں۔ Times Change Values Change والی حقیقت کو پاچکا ہوں۔ خان صاحب ویسے بھی قانون کو سب کے لئے برابر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ انہیں سمجھایا گیا ہوگاکہ اگرسپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات کسی منصب کے لئے "نااہل" ہوئے نواز شریف احتساب عدالت کے ہاتھوں "سزا یافتہ مجرم" ٹھہرائے جانے کے باوجود "شدید علالت" کی بنیاد پر بیرون ملک جانے کی سہولت حاصل کرپائے ہیں تو مشرف صاحب کو جو کئی برسوں سے علالت ہی کی وجہ سے بیرون ملک مقیم ہیں عدالتوں کے روبرو کیوں گھسیٹا جائے۔ خان صاحب کے دل میں "رحم" آگیا ہوگا۔ وزارتِ داخلہ کو لہذا سابق صدر کو بچانے کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کی اجازت مل گئی۔ عمران خان صاحب کے وزیر داخلہ ان دنوں ویسے بھی اعجاز شاہ صاحب ہیں۔ وہ جنرل مشرف کے چہیتے ترین افسروں میں سے ایک ہوا کرتے تھے۔ وزیر قانون اس حکومت کے جناب فروغ نسیم صاحب ہیں۔ وہ جنرل صاحب کے وکیل صفائی رہے ہیں۔ ان دو وزراء کی "پرانی محبتوں " نے کبھی تو کاریگری دکھانی تھی۔ اگرچہ مجھے شدید شبہ ہے کہ مشرف صاحب کے "تحفظ" والی گیم لگانے میں ڈاکٹر بابر اعوان صاحب نے بھی اہم ترین کردار ادا کیا ہوگا۔ عمران خان صاحب کو عزت مآب آصف سعید کھوسہ صاحب کے ایک حالیہ بیان نے یقینا چونکادیا ہوگا۔ اپنی تقریر کے دوران عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے ہوا میں اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے "قانون سب کے لئے برابر" بنانے کا ذکر بھی کیا تھا۔ اس کے بعد "نہلے پہ دہلے" کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کے پاس ایسے موقعوں پر کافی "دہلے"موجود ہوا کرتے ہیں۔ اسی باعث تو "نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا" کہنے کے بعد بھی وہ افتخار چودھری کے غضب سے محفوظ رہے تھے۔ اب ایک اور "دہلہ" پھینکنے کی ضرورت تھی۔ عمران حکومت کی جانب سے "دہلا" آگیا۔ اب تماشہ دیکھیں اور لطف اندوز ہوں۔