نواز شریف کے ’’بھٹو‘‘ بننے کا دھڑ کا اور فضل الرحمان کا پلان بی
میں تو غالبؔ کی نقالی میں عرصہ ہوا اپنے گھر تک محدود ہوچکا ہوں۔ پرانی دلی کی گلی قاسم جان کے ایک شکستہ مکان میں محصور ہوئے وہ دوستوں کو خط لکھ کر دل کا بوجھ اُتار لیا کرتے تھے۔ میرے لئے اُردو اور انگریزی کے کالم ہیں اور انہیں لکھنے کی وجہ سے روزمرہّ کے دال دلیہ کا بندوبست بھی ہوجاتا ہے۔
ٹی وی سکرینوں پر مستقل چھائے میرے کئی معتبر دوست البتہ حیران کن حد تک متحرک ہیں۔ ہماری سیاست کے تقریباََ تمام فریقین تک انہیں ہمہ وقت رسائی میسر ہے۔ حتمی فیصلہ ساز بھی انہیں بریفنگ کے لئے مدعو کرتے رہتے ہیں۔ ربّ کریم انہیں مزید توانائی اور رسائی سے نوازے۔
سخت حیرت لیکن مجھے اس وقت ہوتی ہے جب میرے ان معتبر ومتحرک دوستوں کی اکثریت اپنی تحریروں اورٹی وی سکرینوں پر رونمائی کے ذریعے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس ملک کی سیاسی اعتبار سے طاقت ور شخصیات اور قانون کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے والے کئی ادارے نواز شریف کی صحت کے بارے میں بہت متفکر ہوچکے ہیں۔ خاص طورپر عمران حکومت کی وفاقی کابینہ میں موجود "تجربہ کار" وزراء کے ہاتھ پائوں "پھول" چکے ہیں۔ انہیں یہ "فکرلاحق ہے کہ پنجاب کو کہیں ایک بھٹو"نہ مل جائے۔
طاقت ور لوگوں سے میری ان دنوں ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔ ان سے ملاقات کرنے والے کئی معتبر ومتحرک ساتھیوں سے کبھی کبھار گفتگو مگر ہوجاتی ہے۔ ان کی باتوں کو بہت غور سے سننے کے بعد میں خود کو یہ اصرار کرنے پر مجبور پاتا ہوں کہ دورِ حاضرکے حکمرانوں کی اکثریت کے ہاتھ پائوں کسی صورت نواز شریف کی صحت کی بابت "پھولے" نہیں ہیں۔ نجی ملاقاتوں میں ان میں سے کئی افراد بلکہ انتہائی سنجیدگی سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی لگی تو "کونسی قیامت" آگئی تھی۔
غیر جذباتی انداز میں ان کے سوال پر غور کریں تو اقرار کرنا ہوگا کہ بھٹو کی پھانسی سے "کوئی قیامت"نہیں آئی تھی۔ یہ سانحہ 4 اپریل 1979 کو ہوا تھا۔ ان کی پھانسی کو یقینی بنانے والے جنرل ضیاء اس کے بعد مستقل نو سالوں تک اس ملک پر گج وج کے حکمرانی کرتے رہے۔ 17 اگست 1988 کا فضائی حادثہ نہ ہوا ہوتا تو شاید بقیہ کئی سال بھی ہمارے طاقت ور ترین صدر ہتے۔ فضائی حادثے کے بعد انتخابات ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اس ملک کی وزیر اعظم بننے کی حقدار نظر آئیں۔ انہیں حلف اٹھوانے میں لیکن لیت ولعل برتی گئی، چند شرائط تسلیم کروائی گئیں۔ ان شرائط کی بدولت جنرل ضیاء کے ایک چہیتے ترین افسر غلام اسحاق خان کو اس ملک کا صدر منتخب کروانا پڑا۔ جنرل ضیاء کی افغان پالیسی کے پروموٹر صاحبزادہ یعقوب علی خان صاحب کو وزارتِ خارجہ کا منصب ملا۔ وی اے جعفری بھی ان دنوں ہماری افسر شاہی کے ایک کلیدی کردار تصور ہوتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے حلف اٹھانے سے قبل جنرل ضیاء کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق صاحب نے IMF کے ساتھ ایک بیل آئوٹ پیکیج پر طویل مذاکرات کے بعد دستخط کئے تھے۔ اس پیکیج پر کامل عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے وی اے جعفری صاحب محترمہ بے نظیربھٹو کے مشیر برائے خزانہ تعینات ہوئے۔ پاکستان کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ، پنجاب، نواز شریف کے سپرد ہوا۔ محترمہ اپنے اقتدار کے دو برس مکمل بھی نہیں کر پائی تھیں تو غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت کو برطرف کردیا۔ نئے انتخابات ہوئے تو نواز شریف پہلی بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ آصف علی زرداری کو جیل بھیج دیا گیا۔ پیپلز پارٹی اپنے نام نہاد "قلعہ"یعنی سندھ میں بھی حکومت نہ بناپائی۔ وہ صوبہ جام صادق علی کے سپرد ہوا۔ جام صاحب نے اپنے طرز حکمرانی سے پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاء کے دور میں واپس دھکیل دیا۔
"بھٹو" محض ایک علامت کی صورت یقینا آج بھی زندہ ہے۔ وہ مگر وہ وطنِ عزیز میں "سول بالادستی" کے فقدان کا ذکر کرتے ہوئے ماتم کنائی کے جواز فراہم کرتا ہے۔ یہ بات اگرچہ حقیقت ہے کہ "بھٹو" کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو 1993 میں ایک بار پھر وفاقی حکومت بنانے کی سہولت میسر ہوئی۔ پنجاب مگر پھر بھی اسے نصیب نہیں ہوا۔ سندھ میں اپنی صوبائی حکومت کو وہ ایم کیو ایم سے بچانے میں ہمہ وقت مصروف رہی۔ بالآخر 1993 میں بنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو "بھٹو" کے نام کی وجہ سے ایوان صدر پہنچے "فاروق بھائی" نے بھی آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کی بدولت برطرف کردیا۔
2008 کے انتخابات کے نتائج میری ناقص رائے میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نہیں بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا شاخسانہ تھے۔ ان کے اندوہناک قتل نے بھی لیکن پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اکثریت نہیں دلوائی تھی۔ وہ شہباز شریف صاحب کے ہاتھ لگا۔
خدارا تسلیم کرلیجئے کہ دورِ حاضر کے بااختیار افراد نواز شریف صاحب کی صورت "پنجاب سے ایک بھٹو" پیداہوا نہیں دیکھ رہے۔ یقین انہیں یہ بھی ہے کہ اگر وہ خدانخواستہ "بھٹو" بن بھی گئے تو "دنیا کی وہی رونق" برقرار رہے گی۔ اس امر کا دورِ حاضر کے با اختیار افراد کو یقین نہ ہوتا تو منگل کے روز کئی گھنٹوں کے غوروخوض کے بعد عمران حکومت کی وفاقی کابینہ سابق وزیر اعظم کو ملک سے باہر بھجوانے کے لئے فروغ نسیم کی قیادت میں ایک ذیلی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ نہ کرتی۔
فروغ نسیم وفاقی کابینہ میں اس ایم کیو ایم کی نمائندگی کرتے ہیں جسے "محب وطن" تسلیم کیا جاتا ہے۔ "محب وطن" تسلیم ہونے سے قبل فروغ نسیم صاحب نے اگرچہ اس جماعت کے بانی کو لندن جاکر منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت جیل جانے سے بچایا تھا۔ فروغ صاحب جنرل مشرف کے وکیل بھی رہے ہیں۔ ذاتی تجربات کی بنیاد پر انہیں خوب علم ہے کہ قانون کے شکنجے میں جکڑے افراد علاج کے نام پر بیرون ملک چلے جائیں تو وطن لوٹنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی باعث وہ مصررہے کہ بیرون ملک روانگی سے قبل نواز شریف اپنی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے بھاری بھر کم رقم پر مشتمل "سکیورٹی بانڈ" جمع کروائیں۔
تحریک انصاف کو اپنا "حقیقی بیانیہ" بھی یاد آنا شروع ہوگیا ہے۔ منگل کے روز ہوئے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فواد چودھری، فیصل واوڈااور علی زیدی جیسے نظریاتی رہ نمائوں نے بہت شدومد سے وزیر اعظم صاحب کو یہ "بیانیہ" یاد دلوایا۔ قانون کو "سب کے لئے برابر" دکھانے کی فریاد ہوئی۔ "دو نہیں ایک پاکستان" والا وعدہ یاد دلایا گیا۔ وزیر اعظم اپنے پرستاروں پر مشتمل Base کو مطمئن کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ڈھیل، ڈیل یا NRO کے تصور کو ہر صورت رد کرنے پر اتفاق ہوا۔
سیاسی معاملات کو زیر بحث لاتے ہوئے ہمیں ہرگز یاد نہیں رہتا کہ آج کا پاکستان اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکا ہے۔ ایسے ماحول میں تحریک انصاف خود کو "چوروں اور لٹیروں " سے نرمی برتنے کو مجبور محسوس نہیں کرتی۔ اپنی کشادہ دلی اور انسان دوستی کو اس نے ویسے بھی بھارتی سکھوں کے لئے کرتارپور کا کوریڈور بناکر دنیا کے روبرو ثابت کردیا ہے۔ سدھو اس کوریڈور کے افتتاح سے شاداں ہوکر عمران خان صاحب کے قصیدے پڑھ رہا ہے۔ نام نہاد Big Picture کے تناظر میں کرتارپور کوریڈور کے افتتاح کے بعد عمران حکومت "عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم" کو تھوڑی ریلیف فراہم کرتے ہوئے اپنی "انسان دوستی" اور "رحم دلی" ثابت کرنا نہیں چاہتی۔ اسے تو بلکہ اپنی Base کو یہ دکھانا ہے کہ خواہ "سکیورٹی"بانڈ" کی صورت ہی سہی نواز شریف سے مبینہ طورپر"قوم کی لوٹی ہوئی دولت" میں سے خاطر خواہ حصہ "وصول " کرلیا گیا ہے۔ "کپتان" اپنے قول کا پکا ہے۔ اس نے بارہا کہا تھا "میں انہیں رلائوں گا"۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کے سنجیدہ اور تجربہ کار رہ نما ان دنوں تحریک انصاف کے پرستاروں کی نظر میں داد فریاد ہی میں مصروف نظر آرہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا Plan-B بھی اس تناظر میں "کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا" نظر آرہا ہے۔ کرتارپور راہداری کے بعد اب عمران حکومت کو افغانستان میں دائمی امن کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس ضمن میں پیش رفت کو یقینی بنانے کے لئے بہت عرصے تک امریکہ کے معتوب ہوئے "حقانی نیٹ ورک" کے تین رہ نمائوں کو رہا کردیا ہے۔ کرتارپور کوریڈور کے بعد افغانستان میں بھی امن قائم ہوگیا تو عمران خان صاحب کے لئے امن کا نوبل انعام تقریباََ یقینی ہوجائے گا۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ۔