خدارا! عدالت کو کسی کا فریق نہ بنائیں
یہ بات تو بہت پرانی ہوگئی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ آج کے مابعداز حقائق (Post Truth) دور میں مستقل اُبلتے ہیجان کی وجہ سے یہ سوچنے کو مجبور ہورہا ہوں کہ شاید سیاست کے دماغ میں یادداشت کا خانہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ فقط لمحہ موجود کے بارے میں سیاق وسباق پر غور کئے بغیر اپنے تعصبات کی غلام ہوئی رائے بناتی ہے اور اس رائے پر مرنے مارنے کے انداز میں ڈٹ جاتی ہیں۔
تحریک انصاف کی اندھی عقیدت میں مبتلا "سپاہ ٹرول" نواز شریف صاحب کے ضمن میں ہفتے کی سہ پہر آئے فیصلے سے تلملائی ہوئی ہیں۔ عدالت کی فراست پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ قانون "سب کے لئے برابر" نظر نہ آنے کے بارے میں ماتم کنائی جاری ہے۔ بے وسیلہ اور غریب قیدیوں کے دُکھ یاد آرہے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے کو اُکسایا جارہا ہے کہ ان میں سے جانے کتنے اسیر مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہوں گے۔ انہیں دلاسہ دینے کو مگر سردرد کی گولیاں بھی میسر نہیں ہیں۔ وہ خون تھوکتے اور ایڑیاں رگڑتے جہانِ فانی سے فراغت کی دُعائیں مانگ رہے ہیں۔
ان بے وسیلہ قیدیوں کے مقابلے میں"مالدار اشرافیہ" ہے۔ اس نے مبینہ طورپر "حرام کی کمائی" سے محلات بنائے۔ احتساب کے شکنجے میں جکڑے گئے تو "بیمار ہوگئے"۔ اپنے علاج کے لئے بیرون ملک جانے پر بضد ہیں۔ " سزا یافتہ قیدی" مگر اپنی صحت کی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے کاغذ کے اس ٹکڑے پر دستخط کرنے کو تیار نہیں جس کے ذریعے یقین دلانا تھا کہ اگر "سزا یافتہ مریض" صحت یاب ہوکر وطن واپس نہ لوٹے تو اسے سرکار کو ساڑھے سات ارب ادا کرنا ہوں گے۔ شریف خاندان نے مطلوبہ بانڈ کو "اغواء برائے تاوان" کے برابر پکارا تو "چمڑی جائے دمڑی نہ جائے" کے عنوان سے سوشل میڈیا پر طعنوں کی بھرمار شروع ہوگئی۔
عدالت کی فراست پر سوالات اٹھاتے وطنِ عزیز کو "کرپشن فری" بنانے کے جنون میں مبتلا غول نیکوکاراں کو یاد ہی نہ رہا کہ آج سے کئی صدیاں قبل نہیں محض تین سال قبل یعنی 2016 کے اپریل کی چار تاریخ کو پانامہ دستاویزات کے منظرِ عام پرآنے کی وجہ سے شوروغوغا کا طوفان برپا ہوا تھا۔ ہمارے ہاں ایک 4 اپریل 1979 میں بھی آیا تھا۔ وہ 4 اپریل ایک وزیر اعظم کو "قاتل" ٹھہراکر پھانسی پر لٹکانے کی وجہ سے مشہور ہوا۔
اب کی بار جو دستاویزات منکشف ہوئیں ان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کا براہِ راست نام نہیں لیا گیا تھا۔ ان کی اولاد کی جانب سے لندن میں خریدے فلیٹوں کا تذکرہ تھا۔ عمران خان صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں لہذا مطالبہ ہوا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت جس کے فیصلے کے خلاف اپیل کی گنجائش نہیں، پانامہ دستاویزات کا ازخود جائزہ لیتے ہوئے یہ طے کرے کہ کہیں نواز شریف نے "کرپشن کے ذریعے" جمع کی ہوئی رقوم کو منی لانڈرنگ کے ذریعے اپنی اولاد کو منتقل تو نہیں کیا۔ تھوڑی لیت ولعل کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب مزید تحقیق کو آمادہ ہوگئے۔ روزانہ کی بنیاد پر عزت مآب ججوں نے فریقین کے دلائل سنے۔ بالآخر "کرپشن" نہیں"اقامہ" نوز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت اور تاحیات نااہلی کا باعث ہوا۔
احتساب کے محکمے کو یہ حکم بھی جاری ہوا کہ وہ ریاستی اداروں پر مشتمل ایک JIT کی جانب سے ہوئی تحقیقات کی روشنی میں نواز شریف کے خلاف کرپشن کے ریفرنسز تیار کرے۔ ان ریفرنسز کی فوری سماعت ہو۔ اس سماعت کی نگرانی سپریم کورٹ کے ایک اور معزز جج کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی۔
عمران خان صاحب اور ان کے متوالے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس "تاریخی فیصلہ" پر بہت شاداں ہوئے۔ ملک میں"انصاف کو یقینی بنانے" اور "طاقتوروں کو احتساب" کے شکنجے میں جکڑنے والے "اقدامات" کا شکر" ادا کرنے کے لئے تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ایک شاندار جلسے کا اہتمام بھی کیا۔ اس جلسے میں"تاریخی فیصلہ" کرنے والے منصفوں کے نام لے کر انہیں قوم کا "ہیرو" پکارا گیا۔
مجھ جیسے بدنصیب فریاد کرتے رہے کہ عدالت ہم سب کی ہوا کرتی ہے۔ خدارا اسے سیاسی تفریق میں کسی ایک فریق کا "سرپرست" نہ بنائیں۔ ہماری فریاد کو "لفافوں کی چیخیں" ٹھہراتے ہوئے حقارت سے نظرانداز کردیا گیا۔ ہفتے کی شب آیا فیصلہ بھی ایک معزز عدالت ہی کی جانب سے آیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ انصاف فراہم کرنے کا حتمی فورم بھی نہیں۔ حکومت کو اگر یہ فیصلہ قبول نہیں تو اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ہفتے کے روز آئے فیصلے کے خلاف اپیل میں جائے بغیر ہی سوشل میڈیا کے ذریعے طعنوں کی بھرمار شروع ہوگئی۔
"متوازی عدالت" لگانے سے میں نے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ انتہائی ثابت قدمی سے اصرار کرتا رہا ہوں کہ کسی شخص کو "مجرم" قرار دینا صحافیوں کا فریضہ نہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر لیکن "ذرائع" کی مہربانی سے میسر دستاویزات لہراتے ہوئے لوگوں کو رسوا کرنے والی رونق لگائی جاتی رہی۔ اس رونق میں"ملین" اور "بلین" کا فرق بھی بھلادیا گیا۔ کسی ایک شخص نے بھی مجھ جیسے جاہلوں کو یہ سمجھانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ پاکستان جیسے بے تحاشہ آبادی والے ملک کی جسے ریاستی معیشت کو بچانے کے لئے کئی بار IMF سے Bail out Packages لینا پڑے ہیں، باقاعدہ Formal اور بے قاعدہ (Informal) معیشت کا مجموعی اعتبار سے ممکنہ حجم کیا ہوسکتا ہے۔ ممکنہ طورپر جوحجم عام محاورے کے مطابق کیک کہلاتا ہے اس میں سے دولت کی ہوس میں مبتلا ہوئے "بدعنوان سیاست دان" اجتماعی طورپر کتنا بڑا ٹکڑا ہڑپ کرسکتے ہیں۔ بے تحاشہ لوگوں کو دستاویزات لہراتے ہوئے ہم صحافیوں نے مگر محاورے والا "مردہ" بنادیا اور ان کا گوشت نوچنا شروع ہوگئے۔
یہ لطیفہ بھی وطنِ عزیز ہی میں ممکن رہا کہ ہمارا ہر سیاست دان بلااستثناء اس وقت تک قطعی "بدعنوان" ٹھہرایا گیا جب تک اس نے بنی گالہ حاضری دے کر تحریک انصاف کے رنگوں والا پٹکا عمران خان صاحب کے ہاتھوں اپنے گلے میں نہیں ڈلوایا۔ "تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی" والی تیرگی۔ محاورے کی زبان والی کالک صرف اس کا نصیب ہوئی جس نے عمران خان صاحب کے آگے سرنگوں نہیں کیا۔
ہفتے کی رات سے عدالتوں سے شکوہ کرتے ہوئے غول نیکو کاراں اس داد وتحسین کو بھی بھلا بیٹھا جو ثاقب نثار صاحب بحیثیت چیف جسٹس سمیٹتے رہے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید سے منسوب قصوں کی طرح وہ اچانک "چھاپے" مارنا شروع ہوگئے۔ خود کودورِحاضر کا "بابا رحمتے" قرار دیا۔ کئی باعزت اور اپنے ہنر میں یکتا تصور ہوتے پروفیشنل ان کے روبرو حاضر ہوتے تو پہلا سوال یہ ہوتا کہ "تمہاری تنخواہ کیا ہے"۔ نسبتاََ بہتر مگر مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق "معقول" نظر آتی تنخواہ ہی کسی کو "بدعنوان" تصور کرنے کے لئے کافی شمار ہوتی۔
صوفیائے کرام "حسد" کو انسانی بے چینی کا اہم ترین سبب قرار دیتے رہے ہیں۔ اسی باعث "قناعت" کا رویہ اپنانے پر اصرار کرتے رہے۔ دوسروں کی "چوپڑی" پر نگاہ رکھنے کے بجائے اپنی "سوکھی روٹی" پر ربّ کا شکریہ ادا کرتے رہے۔ ہمارے خود ساختہ "بابے" نے مگر میرے جیسے ناشکروں کے دلوں میں سلگتی حسد کی آگ کو بھڑکانا شروع کردیا۔ اپنے اس رویے سے بے تحاشہ دادوتحسین سمیٹی۔ مستقل یہ وعدہ کرتے رہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اس "ڈیم" پر پہرا دیں گے جو انہوں نے عوام سے لئے چندے سے تعمیر کرنا تھا۔ جو ڈیم انہوں نے تعمیر کرنا تھا اس کی زمین اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ وہ مگر وہاں تو کیا اپنے شہر لاہور میں بھی ان دنوں نظر نہیں آتے۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی قوم کے لئے اب یہ وقت آگیا ہے کہ اپنے دلوں میں موجود کدورتوں اور تعصبات کی شناخت کرنا شروع ہوجائیں۔ عدلیہ اور ریاستی اداروں کو غیر جانب دار رکھنے پر اصرار ہو۔ وہ تفریق کی زد میں آجائیں تو بالآخر وہی ہوتا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے شام جیسے ممالک میں ہورہاہے۔