کئی سولیاں سرِ راہ تھیں، ایک دلچسپ آپ بیتی
آج سے 3سال قبل ڈاک کے ذریعے ایک کتاب ملی تھی۔ نام تھا اس کا کئی سولیاں سرِ راہ تھیں۔ اس کے مصنف تھے خواجہ آصف جاوید بٹ صاحب جن کا پیشہ وکالت بتایا گیا تھا۔ ذہن پر زور دینے کے باوجود یاد نہ کرپایا کہ ان سے کبھی ملاقات ہوئی تھی یا نہیں۔ کوئی ذاتی حوالے یاد نہ کرسکنے کے باوجود دل سے شکرگزار محسوس کیا کیونکہ اپنے دستخط سے مذکورہ کتاب بھیجتے ہوئے انھوں نے مجھے محبی ومکرمی بھی پکارا تھا۔
عجب اتفاق یہ بھی ہوا کہ مجھے یہ کتاب جمعہ کی سہ پہر ملی تھی۔ رات سونے سے قبل اسے پڑھنا شروع کیا تو کئی گھنٹوں تک اسے ہاتھ سے چھوڑنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ایک دن بعد بھی یہ ہی کیفیت طاری رہی۔ کتاب ختم کرنے کے بعد ہی اطمینان میسر ہوا۔ کئی سولیاں سرِ راہ تھیں، نے جس انداز میں مجھے انگیج کیا وہ حیران کن تھا۔ ادبی حوالے سے یہ کتاب کوئی شہ پارہ، نہیں ہے۔ زبان وبیان کا ہنر بھی اس کی خوبی نہیں۔ سادہ ترین لفظوں میں لکھی آپ بیتی ہے جو ذاتی تجربوں کی بنیاد پر دس برس تک پھیلے اس عہد کی داستان بیان کرتی ہے جب وطن عزیز کے نوجوانوں کی ایک کماحقہ تعداد نے مسلح جدوجہد، کے ذریعے جنرل ضیاء کی آمریت سے نجات حاصل کرنا چاہی۔ انقلاب، کی تیاری کے لیے وہ ملک چھوڑ کر میر مرتضیٰ بھٹو کی بنائی الذولفقار، میں شمولیت کے لیے کسی نہ کسی طرح کابل پہنچے اور پھر بقول فیض احمد فیض تاریک راہوں، میں گم ہوگئے۔
آصف جاوید کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے 1980ء کی دہائی کے بے شمار نوجوان یاد آتے رہے جن کے ساتھ بطور طالب علم شناسائی کے رشتے استوار ہوئے تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں مجھے بھی انقلاب، برپا کرنے کاجنون لاحق تھا۔ 1980ء کی دہائی میں داخل ہوتے ہی مگر دریافت کرلیا کہ انقلاب، لانے کے لیے بھی پہلے زندہ رہنا ضروری ہے اور مجھے زندہ رہنے کے لیے رزق کمانے کا واحد ذریعہ صحافت ہی نظر آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی جانب توجہ دی تو حق وصداقت، کا علم بلند رکھنے کی خاطر مہینوں بے روزگار رہنا پڑتا۔ طویل ترین بے روزگاری جنوری 1979ء سے 1982ء کے مارچ تک مقدر رہی۔ اس دوران چند دوستوں نے اپنے گھروں کا ایک کمرہ میرے سپرد کردیا۔ تھوڑی گمنامی کے بعد پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے۔ ان کی بدولت جو پیسے مل جاتے ان سے عزت نفس کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کرتا۔
اسی دور میں اکثر ایسے نوجوانوں کی خبر ملتی جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ مستقبل کے چی گویرا، بننے کے لیے کابل جاچکے ہیں۔ صحافت میں لوٹا تو ایسے نوجوانوں کے مقدمات کی رپورٹنگ کے لیے فوجی یا خصوصی عدالتوں میں چلاجاتا جنھیں کابل یا لیبیا سے لوٹنے کے فوراً بعد ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ بدترین تشدد ان نوجوانوں کو نفسیاتی طورپر توڑ پھوڑ دیتا۔ بیڑیوں میں جکڑ کر وہ پیشی کے لیے لائے جاتے تو ان کے بوڑھے والدین اور بہن بھائیوں کے اذیت بھرے چہرے کئی دنوں تک مجھے رات کو سونے نہ دیتے۔ انقلابی جدوجہد کی خاطر گھروں سے نکلے نوجوانوں کی وجہ سے ان کے والدین اور بہن بھائی جن کرب ناک لمحات سے گزررہے تھے ان کے مشاہدے نے مجھے اکسایا کہ ریاست کے خلاف جنگ، کے الزام میں پابہ جولاں، ہوئے نوجوانوں میں سے دس کے قریب لوگوں کو چن کر فقط ان کی زندگی پر تحقیق کرتے ہوئے دستاویزی فلم جیسی ایک کتاب لکھ ڈالوں۔ اس کا عنوان بھی سوچ لیا اور دو نوجوانوں سے طویل انٹرویو بھی شروع کردیے۔
رپورٹنگ اور کالم نویسی کی خواہش اور ذمہ داریاں مگر اب علت کی طرح فطرت ثانیہ بن چکی تھیں۔ میری لکھی خبروں اور کالموں کی چھپنے کے روز ہی پذیرائی نے دھیرے دھیرے یہ تصور ذہن میں بٹھادیا کہ فی الحال اخبار کے لیے روزانہ لکھتے ہوئے ہی تھوڑی رقم مگر زیادہ شہرت سے جی خوش رکھا جائے۔ چند برس گزرنے کے بعد غالباً ریٹائرمنٹ نام کی شے نصیب ہوجائے تو اپنے تجربات پر مشتمل کتابیں لکھنے کا وقت بھی مل جائے گا۔ عمر کے آخری حصے میں پہنچا تو دریافت ہوا کہ صحافی کے نصیب میں ریٹائرمنٹ، نہیں ہوتی۔ وہ کسی نہ کسی بیماری کے ہاتھوں معذور، ہوکر مرجاتا ہے۔ معذوری یا موت سے قبل روز کی روٹی روز کمانا مجبوری ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔
کئی سولیاں سرِراہ تھیں، کی جانب لوٹتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ 2021ء کے ستمبر میں ملی کتاب کومیں نے دوہی نشستوں میں ختم کرلیاتھا۔ اس کا ذکر 2024ء کی 2جون کی صبح لکھے کالم میں کیوں۔ جواباً عرض ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے مجھے یہ خدشہ لاحق ہورہا ہے کہ عاشقان عمران خان کی ایک کثیر تعداد بھی ان دنوں طیش کے عالم میں ویسے ہی جذبات کا سامنا کررہی ہے جو جنرل ضیاء کے دنوں میں پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے نوجوانوں کے دلوں میں تلاطم برپا کیے ہوئے تھے۔ ان نوجوانوں کے لیے مگر نہ تو کوئی کابل، ہے نہ ہی میر مرتضیٰ بھٹو۔ ان کا قائد اڈیالہ جیل میں ہے۔ وہ اسے چور اور لٹیرے، سیاستدانوں کایک وتنہا متبادل تصور کرتے ہیں۔ ہم کوئی غلام ہیں؟ کا سوال انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا۔
انھیں مگر سمجھ نہیں آرہی کہ حقیقی آزادی، کی جنگ کیسے اور کس حکمت عملی کے تحت لڑی جائے۔ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے وہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں سے رجوع کرتے ہیں۔ اب ایکس کہلاتے ٹویٹر، فیس بک یا یوٹیوب کی ویب سائٹس کھولیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں قیدی نمبر804کے سوا کوئی موضوع ہی زیر بحث نہیں۔ سوشل میڈیا پر حاوی جذبات کی شدت مگر عملی اعتبار سے فقط 8فروری 2024ء کے دن ہی نمودار ہوئی تھی جب جاہل، اجڈ اور قیمے والے نان کھاکر، ووٹ دینے والے عوام کی ایک بھاری بھر کم تعداد ازخود گھروں سے نکلی اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشان بیلٹ پیپروں پر ڈھونڈ لیے۔ ان پر ٹھپا لگایا اور گھر لوٹ آئے۔
اس بحث میں الجھنا کار بے سود ہے کہ فارم 45یا 47نے کیا گل کھلائے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ نام نہاد فارم 47بھی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ہماری قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی گروہ کی صورت ابھرنے سے روک نہ پائے۔ یہ عملی سیاست کا تقاضا تھا کہ مذکورہ حقیقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیدی نمبر804کی رہائی کے راستے بنائے جاتے۔ کئی سولیاں سرِ راہ تھیں، جیسی خلوص اور دیانت سے لکھی آپ بیتی نہایت تکلیف دہ مراحل کے ذکر کی بدولت یہ سمجھاتی ہے کہ انتہا پسندی سیاسی عمل اور کارکنوں کے لیے آسانیوں کے در نہیں کھولتی۔
میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز یاسر عرفات جیسے انقلابی رہنمائوں کی سرپرستی اور مختلف ریاستوں کی معاونت کے باوجود پیپلز پارٹی کے خلاف ریاست پاکستان کو جارحانہ رویہ اختیار کرنے کو اکساتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہایت صبر واستقامت سے بالآخر اپنے والد کی بنائی جماعت کو اقتدار میں واپس لانا پڑا۔ بھاری بھر کم تعداد کے ساتھ پارلیمان میں موجودگی سے تحریک انصاف کی قیادت کو اپنی طاقت نہایت ذہانت وہوشیاری سے جمہوری عمل کو مضبوط تر بنانے کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔
ریاست کے ساتھ براہِ راست ٹکرائو کی پالیسی فقط اس جماعت ہی کو نہیں بلکہ پاکستان میں بچے کھچے جمہوری نظام، کو بھی شدید زک پہنچائے گی اور ہم ایک بار پھرکامل اندھیرے میں دائروں کے اسی سفر کو مجبور ہوجائیں گے جس سے نجات کے حصول کے لیے آصف جاوید جیسے سینکڑوں پاکستانی نوجوانوں نے 1980ء کی دہائی میں اپنی زندگیاں برباد کردی تھیں۔