کڑے وقت سے گذرتے نوازشریف کے ساتھ ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا
مختلف النوع وجوہات کی بناء پر 1972 کے ابتدائی مہینوں میں لاہور میں رہنا میرے لئے بہت دشوار ہوگیا تھا۔ چند دنوں کے لئے کراچی چلا گیا۔ زندہ رہنے کو رقم درکار تھی۔ اخبارات میں نوکری کی گنجائش نہیں تھی۔ بالآخر اس شہر کے ایک وکیل سے رابطہ ہوگیا۔ خلیق الزماں ان کا نام تھا۔ اپنے نام کی طرح واقعتاً بہت خلیق آدمی تھے۔ وکالت کے علاوہ شام کو اُردو لاء کالج میں قانون بھی پڑھاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ "تعزیراتِ پاکستان" کا مناسب ترجمہ اور تشریح مارکیٹ میں میسر نہیں ہے۔ انہیں ایک پبلشر مل گیا۔ مجھے قانون کی مختلف کتابوں میں ان کی جانب سے نشان دہ ہوئے صفحات کا اُردو ترجمہ کرنے کی اُجرت ملنا شروع ہوگئی۔ بالآخر وہ کتاب چھپ گئی۔ نصاب کا حصہ ہوئی۔ اس کے پیش لفظ میں مرحوم خلیق الزماں صاحب نے میری محنت اور لگن کا بہت شفقت سے ذکر بھی کیا۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1975 میں اسلام آباد آیا تو 3سال کی سرکاری نوکری سے جی اُکتاگیا۔ کل وقتی صحافت کا جنون لاحق رہا۔ اسی باعث آغا مرتضیٰ پویا صاحب کے نکالے ایک اُردو ہفت روزہ میں نائب مدیر کی نوکری مل گئی۔ اس نوکری کی وجہ سے روزانہ علی الصبح اُٹھ کر راولپنڈی کی سپریم کورٹ جانا ہوتا جہاں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ آخری اپیل کے مراحل سے گزررہا تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا برقرار رہی۔ اُردو ہفت روزہ سے بھی میری فراغت ہوگئی۔
بعدازاں طویل بے روزگاری کے بعد پویا صاحب ہی کے نکالے روزنامہ The Muslim میں رپورٹر کی نوکری مل گئی۔ کرائم میری اولین بیٹ تھی۔ اس کے علاوہ City Pages کے لئے ثقافتی کالم لکھتا تھا۔ 1985 سے قومی اسمبلی کی کارروائی رپورٹ کرنا میری ذمہ داری ہوگئی۔
لمبی تمہید کی معذرت۔ اسے باندھنے کی ضرورت مگر اس لئے محسوس ہوئی کہ آپ کسی صورت اعتبار کرلیں کہ مجھے قانون کی تھوڑی سمجھ ہے۔ آئین اور قانون کو اپنے عملی تجربے سے جتنا سمجھتا ہوں اسے ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ نواز شریف صاحب کو علاج کی خاطر ملک سے باہر بھیجنے کے فقط دوراستے میسر ہیں۔
پہلا راستہ تو یہ ہے کہ نواز شریف صاحب ازخود یا اپنی والدہ، بھائی یا دختر کے ذریعے حکومتِ پاکستان سے باقاعدہ درخواست کریں کہ انہیں بیرون ملک علاج کروانے کی اجازت دی جائے۔ ایک حوالے سے یہ رحم کی درخواست ہوگی۔ وزیر اعظم صاحب سے اس ضمن میں رجوع کرنا ہوگا۔ وہ قائل ہوگئے تو صدر کو ایک سمری بھجوادیں گے۔ عارف علوی صاحب بطور صدر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان نواز شریف کو سنائی سزائیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معاف کردیں گے۔ نواز شریف صاحب کو بیرون ملک علاج کروانے کی اجازت مل جائے گی۔
دوسرا طریقہ وہی ہے جو جمعرات کی صبح شہباز شریف صاحب نے اختیار کیا۔ ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے ضمانت کی درخواست کی۔ اس درخواست میں علاج کے لئے بیرون ملک جانے کے امکانات کا ذکر بھی کردیا۔ میری ناقص رائے میں اگرچہ العزیزیہ کیس میں ہوئی ضمانت ہی اس ضمن میں کافی نہیں ہوگی۔ احتساب عدالت نے ان دنوں نواز شریف صاحب کو رمضان شوگر کیس کے حوالے سے بھی باقاعدہ گرفتار کررکھا ہے۔ اس کیس میں احتساب عدالت سے بھی ضمانت پر رہائی ضروری ہے۔ خالصتاََ قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے میسر ہوئی ضمانتیں مگر کسی صورت اس امر کو یقینی نہیں بناتیں کہ اگر نواز شریف ان کی بدولت علاج کے لئے بیرون ملک روانہ ہوگئے تو ان کی دختر محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کو بھی ان کے ہمراہ جانے کا "حق" مل جائے گا۔ مریم نواز کے خلاف احتساب بیورو نے جو نیا کیس بنارکھا ہے اس کے لئے ضمانت کاالگ سے بندوبست کرنا ہوگا۔
قانونی اعتبار سے ٹھوس حقائق آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ بدھ کی رات سوشل میڈیا کے ذریعے یہ افواہیں کیوں پھیلنا شروع ہوگئیں کہ نواز شریف صاحب کو ان کی دختر سمیت علاج کی خاطر بیرون ملک بھیجنے کی"تیاریاں " شروع ہوگئی ہیں۔
نواز شریف صاحب کی ممکنہ روانگی سے متعلق افواہوں نے تحریک انصاف کے کرپشن دشمن مجاہدین کو بہت ناراض کیا۔ قانون کو سب کے لئے برابر دیکھنے کے خواہاں چند پارسا صحافی بھی ان کے ہمنوا ہوگئے۔ ان سب نے باہم مل کر اعلان کردیا کہ بآلاخر شریف خاندان "ایک اور بیماری"کا "ٹوپی ڈرامہ" لگانے کے بعد اس ملک سے "فرار کا بندوبست کرچکا ہے۔ "مجھے" ٹوپی ڈرامہ" لکھتے ہوئے بخدا بہت دُکھ ہوا ہے۔ دست بستہ عرض کرنے کو مجبور ہوں کہ بطور رپورٹر اسے لکھنا صحافتی اخلاقیات کا تقاضہ تھا۔ ذاتی طورپر اگرچہ میں شعبہ صحافت کے لئے لازمی تصور ہوتے تمام تر "ذرائع" سے گفتگو کے بعد پوری ذمہ داری سے لکھ سکتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کا مرض سنگین ہے۔ اس کی فوری تشخیص ہر صورت ضروری ہے اور ایک قیدی ہوتے ہوئے بھی علاج نواز شریف صاحب کا بنیادی حق ہے۔ انہیں اس حق سے محروم رکھنا انتہائی سفاکانہ عمل ہوگا۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی قوم میں لیکن ٹھوس حقائق پر توجہ دینے کی فریقین کو فرصت نہیں ہوتی۔ محترمہ کلثوم نواز کی سنگین بیماری کا بھی ہمارے ہی ملک میں چند افراد نے نہایت سفاکی سے مذاق اُڑایا تھا۔ انٹرنیٹ پر چھائے Trolls کو اس ضمن میں نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک کے مگر ایک "انسان دوست" اور بہت ہی "لبرل" شمار ہوتے اعتزاز احسن صاحب بھی اس ضمن میں انتہائی سنجیدگی سے سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے برطانیہ میں مقیم چند پرستاروں نے بھی لندن کے ہسپتال میں جیمزبانڈ کی طرح گھس کر محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی بیماری کے "حقائق" برسرعام لانے کی کوشش کی تھی۔ اس تناظر میں بدھ کی رات سے "ٹوپی ڈرامہ" کی ترکیب نسبتاََ "نرم" سنائی دیتی ہے۔
وطنِ عزیز میں تھوڑی معقولیت برقراررکھنے کے لئے ضروری ہے کہ بنیادی حقائق کو بارہا دہرایا جائے۔ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف اپریل 2016 میں پانامہ دستاویزات کے حوالے سے ایک قضیہ اُٹھا۔ اس کی روشنی میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے جس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی گنجائش ہی موجود نہیں ازخود اختیارات کے استعمال سے ایک کیس چلایا۔ ریاستِ پاکستان کے تمام تفتیشی اور جاسوسی اداروں پر مشتمل ایک JIT بنائی۔ اسے نواز شریف صاحب کی دولت کے "حقیقی ذرائع" ڈھونڈنے کا ٹاسک دیا گیا۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے اقامہ کی بنیاد پر نواز شریف صاحب کو "صادق اور امین" ثابت نہ ہونے کے سبب وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیا۔ وہ حکومتی منصب کے لئے تاحیات نااہل بھی ٹھہرادئیے گئے ہیں۔ JIT نے جو مواد جمع کیا تھا اس کی بنیاد پر نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمات چلے۔ ان مقدمات کی نگرانی سپریم کورٹ ہی کے ایک عزت مآب جج فرمارہے تھے۔ ایک کیس میں نواز شریف اور ان کی دختر کو سزا ہوئی۔ وہ اس کیس میں ان دنوں ضمانت پر ہیں۔ نواز شریف کو مگر العزیزیہ میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف ا نہوں نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے۔
اس اپیل پر فیصلہ آنے سے قبل ہی مگر اب رمضان شوگر مل والا نیا کیس شروع ہوچکا ہے جس میں مریم نواز شریف صاحبہ بھی شریک جرم تصور کی جارہی ہیں۔ اپنی نوعیت میں یہ تمام تر مقدمات بہت سنگین ہیں۔ ان سے نجات کا راستہ مگر عدالتی عمل ہی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ عدالتی عمل کے علاوہ اس ضمن میں جو بھی ہوگا وہ وطنِ عزیز کو فقط ایک "بناناری پبلک" کے علاوہ کچھ ثابت نہیں کرے گا جہاں "آئین اور قانون " چند طاقت ور لوگوں کے ہاتھوں کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہوا کرتے ہیں۔
نواز شریف صاحب 2016 سے ایک کڑے وقت سے گزررہے ہیں۔ ان کے بدترین دشمنوں کے لئے بھی ان کا مقدر ہوئی ذلت واذیت کافی ہونا چاہیے۔ نہایت سفاکی سے مگر Do More کا تقاضہ ہوئے چلے جارہا ہے۔ اس تقاضے نے جو ہیجان برپا کررکھا ہے اس سے نجات کی صورت ممکن نظر نہیں آرہی۔