عمران کو اس خطے کا ’’اردگان‘‘ بنانے کی کوشش
منگل کی رات خبر چل رہی تھی کہ سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر نے ان سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ختم کروانے کے لئے متحرک کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ شاید اسی باعث وہ ایران کے دورے کے بعد سعودی عرب پہنچے۔ ان کے مصالحتی مشن سے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں اس کی بابت میرے اور آپ جیسے پاکستانیوں کو کچھ علم نہیں۔ فقط دُعا ہی مانگ سکتے ہیں کہ یہ مشن کامیاب ہو۔ عرب اور عجم کا قضیہ جو کئی صدیوں سے مشرقِ وسطی پر مسلط ہے عمران خان صاحب کی کاوشوں سے ختم ہوجائے۔ وہ تاریخ میں عالمی مدبر کے طورپر جانے جائیں۔
سفارت کاری کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے لیکن میں یہ حقیقت بھلانہیں سکتا کہ پاکستان کی ایک "شہ رگ" بھی ہوا کرتی ہے۔ وادیٔ کشمیر اس کا نام ہے۔ 1947سے یہ بھارت کے قبضے میں ہے۔ اس کی وجہ سے 1948، 1965اور کارگل کی جنگیں ہوئیں۔ تمام عالم یہ تسلیم کرتا ہے کہ اگریہ قضیہ حل نہ ہوا تو بالآخر پاکستان اور بھارت کے مابین ایٹمی جنگ بھی ہوسکتی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے فقط جنوبی ایشیاء ہی نہیں دُنیا کے کئی ممالک بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔
شاید اسی جنگ کے خوفناک امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے 22 جولائی 2019 کے روز ڈونلڈٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں عمران خان صاحب کو اپنے دائیں ہاتھ بٹھاکر ازخود مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بھارت نے مگر اس ثالثی کی پیش بندی کے لئے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی۔ لداخ کو اس سے جدا کردیا۔
اس فیصلے کے خلاف عوامی مزاحمت کی راہ روکنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ ہوا۔ موبائل فونزبند کردئیے گئے۔ انٹرنیٹ تک رسائی ناممکن بنادی گئی۔ سینکڑوں سیاسی اور سماجی کارکنوں کو مقبوضہ کشمیر سے گرفتار کرکے بھارت کی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ ثالثی کے خواہش مند ٹرمپ نے اس کی بابت پریشانی کا مناسب اظہار تک نہ کیا فقط اپنی ایک افسر-ایلس ویلز- کے ذریعے بھارت سے درخواست کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے۔ جموں وکشمیر اسمبلی کے انتخابات کا بندوبست کرے۔ انتخابی بندوبست کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت مکاری سے یہ مان لیا کہ جموں وکشمیر کی آئندہ اسمبلی اب بھارت کے دیگر صوبوں میں موجود "صوبائی" اسمبلیوں کی طرح ہوگی۔ لداخ نئی دلی کی براہِ راست نگرانی میں چلائی Union Territory ہوگی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ٹرمپ کو اس کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے "ثالثی" کا وعدہ یاد دلاتے رہتے۔ اس نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالث کا کردار نبھانے کے بجائے ہمیں ایران اور سعودی عرب میں ثالثی کا فریضہ تفویض کردیا۔ ہم نے اسے بخوشی قبول کرلیا۔ غالبؔ سے معذرت کے ساتھ میں "بنا ہے ٹرمپ کا ثالث پھرے ہے اِتراتا" سوچنے کو مجبور ہورہا ہوں۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہ سکتا کہ ہم سے بھی کہیں زیادہ واضح اور سخت الفاظ میں عوامی جمہوریہ چین نے بھارت کو بارہا کہا ہے کہ ریاستِ جموں وکشمیر کا "تاریخی تشخص" تبدیل کرنے سے گریز کیا جائے۔ چین ہی کی بدولت 5اگست 2019 کے بعد والی صورت حال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خواہ بند اجلاس ہی میں مگر زیر بحث آئی۔ حال ہی میں بھارت روانہ ہونے سے قبل چین نے پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنے ملک ہی میں تینوں افواج کے مارچ پاسٹ کے ساتھ خوش آمدید کیا۔ مودی کو یوں واضح پیغام دیا کہ صدر شی جن پنگ کے ساتھ "غیر رسمی" ملاقات میں پاکستان کے خلاف گفتگو سے احتراز برتا جائے۔ بھارت-چین گفتگو بنیادی طورپر ان دو ممالک کے باہمی تعلقات تک محدود رہے۔
چین کی کشمیر کے حوالے سے مدح سرائی کرتے ہوئے اعتراف کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلے کو فقط پاکستان کی محبت ہی میں یاد نہیں رکھتا۔ لداخ کا Status اس کے لئے بھی اہم ترین ہے کیونکہ یہ علاقہ تبت اور ہمارے گلگت بلتستان کا ہمسایہ ہے۔ گلگت سے سلک روٹ کی ابتداء ہوتی ہے۔ سنکیانگ کو اس کے ذریعے چین گوادر سے ملارہا ہے تاکہ سمندری تجارت کے لئے اس کی درآمدات وبرآمدات کو ایک اورر استہ مل سکے۔ چین کے قومی مفادات اور ترجیحات مگر وسیع تر حوالوں سے ہمارے طویل المدتی مفادات وترجیحات سے سفارت کاری کی زبان میں Converge کرتے ہیں۔ ہمیں اس Convergence میں مزید گہرائی اور گیرائی لانے پر توجہ مبذول کرنا چاہیے تھی۔ امریکہ نے ہمارے سرپر لیکن ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کی "پگ" رکھ دی ہے۔ ہم اس "پگ" کو پہن کر بہت خوش ہورہے ہیں۔
ٹرمپ کی پہنائی پگ کو فخروانبساط سے قبول کرتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ترکی کے صدر کے ساتھ ان دنوں کیا ہورہا ہے۔ شام کے شمال مشرقی علاقے داعش کا مرکز بن رہے تھے۔ وہاں مقیم کردوں نے کئی برسوں تک سینکڑوں جانوں کی قربانی کے بعد امن کو بحال کیا۔ امریکہ نے فوجی اعتبار سے ان کی بھرپور معاونت کی۔ برسوں سے قائم کرد۔ امریکی اتحاد کو لیکن ٹرمپ نے ترکی کے صدر اردگان سے ٹیلی فون پر ہوئی ایک گفتگو کے بعد "اچانک" ختم کردیا۔ اپنی افواج کو شام کے شمال مشرقی علاقوں سے واپس بلانے کا اعلان کردیا۔
امریکی انخلاء کی بدولت جو خلاء پیدا ہوا اسے "پُر" کرنے کے لئے ترکی نے اپنی افواج ان علاقوں میں داخل کردیں۔ کردوں نے اب شام کے صدر سے مفاہمت کرلی ہے۔ روسی معاونت سے شام کی باقاعدہ افواج کو کردملیشیاء کے ساتھ مل کر اب ترک پیش قدمی کے مقابلے کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔
کردوں سے "بے وفائی" اختیار کرنے کی وجہ سے امریکی میڈیا میں دہائی مچ گئی۔ کئی یورپی ممالک ہکا بکا رہ گئے۔ سعودی عرب بھی پریشان ہوکر روسی صدر کو اپنے ہاں بلانے کو مجبور ہوگیا۔ امریکی افواج نے جو اڈے خالی کئے ہیں وہاں روسی افواج پہنچ کر "سیلفیاں" لیتے ہوئے سوشل میڈیا پر کامرانی کے جذبات کے ساتھ پوسٹ کررہی ہیں۔ امریکہ میں یہ تاثر پھیلنا شروع ہوگیا ہے کہ ٹرمپ درحقیقت مشرقِ وسطیٰ سے جان چھڑاکر اس کے معاملات کو روس کے حوالے کررہا ہے۔ ٹرمپ اس تاثر کے فروغ کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اپنی خفت اب ترکی پر غصہ دکھاتے ہوئے مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ ترکی کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا اعلان ہوا ہے۔ امریکی نائب صدر ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ ترکی پہنچ رہا ہے۔ ترکی کے صدر کو اس دورے میں تڑیاں لگائی جائیں گی۔ رجب اردگان مگر اب پیش قدمی سے باز نہیں رہ سکتا۔
صدر اردگان کی سیاسی مشکلات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ موصوف نے اپنے کیرئیر کا آغاز استنبول کے میئر کی حیثیت سے کیا تھا۔ اب اس شہر کا میئر اردگان کی مخالف جماعت سے ہے۔ ترکی کے دس بڑے شہروں میں سے نو میں حزب مخالف کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ ترکی کی انتخابی سیاست پر نگاہ رکھنے والوں نے اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ دریافت کیا ہے کہ اردگان کی جماعت سے ترکی کے استنبول سمیت تمام بڑے شہر دیگر وجوہات کے علاوہ اس وجہ سے بھی ناراض ہورہے ہیں کہ شام سے پناہ کی تلاش میں آئے 30 لاکھ افراد ان شہروں میں موجود ہیں۔ شامی مہاجرین کی اس بے پناہ تعداد کی بدولت مقامی افراد کے لئے روزگار کے حصول میں بہت دشواری ہورہی ہے۔
اپنی سیاسی قوت کو برقرار رکھنے کے لئے صدر اردگان تہیہ کئے ہوئے تھا کہ ترکی کی شام کی سرحد سے جڑی پٹی سے کم از کم 20 میل آگے بڑھاجائے۔ شام سے "آزاد" کروائے علاقوں میں نئی بستیاں آباد ہوں۔ ان بستیوں میں بالآخر فی الوقت ترکی میں مقیم شامی مہاجرین کو بسایا جائے۔ اردگان کی سیاسی مجبوریوں اور ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹرمپ نے کمال مکاری سے شام کے شمال مشرقی علاقوں سے امریکی افواج کو باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اسے واضح انداز میں گویا شام پر حملے کو اُکسایا۔ ترکی نے مگر جب پیش قدمی شروع کردی تو اسے اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بناتے ہوئے معاشی اعتبار سے مفلوج کرنے کی تیاری شروع کردی۔ شام پر کئی برسوں سے مسلط خانہ جنگی کو مزید خوفناک بنانے کا اہتمام بھی کردیا۔
ترکی اور شام کے تناظر میں نمودار ہوئی نئی حقیقتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں بہت سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان کو ایران اور سعودی عرب کے مابین "ثالثی" کی راہ پر ڈالنے والے ٹرمپ کے ان دو ممالک کے بارے میں اصل ارادے کیا ہیں۔ کہیں عمران خان صاحب کو اس خطے کا "اردگان" بنانے کی کوشش تو نہیں ہورہی؟