حکومتی اتحادیوں کا "تخت یا تختہ" والا ذہن
اتوار کی شام حکومت نے پیر کی سہ پہر پانچ بجے بلائے قومی اسمبلی کے اجلاس کے لئے تین صفحات کا ایجنڈا جاری کیا۔ آئین میں کسی بھی نوعیت کی ترمیم کا ارادہ اس میں ظاہر نہیں ہوا۔ اتوار کے روز لکھے کالم کو دفتر بھجوانے کے بعد مگر میرے اندر عرصے سے مردہ ہوا رپورٹر اطمینان سے نہیں بیٹھا۔ بارہا یہ خیال ستاتارہا کہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت فی الوقت نظر بظاہر موجود نہیں۔ اس کے باوجود متحرک رپورٹروں کی بے پناہ اکثریت تواتر سے اس شک کا اظہار کیوں کئے چلے جارہی ہے کہ آئین میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
آئین میں محض ایک ترمیم نہیں بلکہ متعدد ترامیم کی یکمشت منظوری کی توقع باندھنے والے اس امر پر متفق ہیں کہ شہباز حکومت، اس کے اتحادی اور ایک ریاستی ستون کا سہارا فراہم کرنے والے بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ عدلیہ ریاست کا سب پہ بالادست ستون ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ طیش کے عالم میں اگرچہ ان میں سے کسی ایک کو یاد نہیں رہا کہ عدالت کے ریاست کے دیگرستونوں سے بالادست نظر آنے کا عمل افتخار چودھری کے زمانے سے شروع ہوا تھا۔ موصوف طویل عرصے تک جنرل مشرف کی آمریت کے دوران ایک تابعدار قسم کے جج رہے تھے۔
بلوچستان سے اپنی جی حضوری کاوشوں کی بدولت سپریم کورٹ تک پہنچے توکافی عرصہ نیویں نیویں ہی رہے۔ چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد مگر ان کے جی میں قوم کی مسیحائی فرمانے کی خواہش مچلنے لگی۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ان کے ارادوں کو بروقت بھانپتے ہوئے موصوف کے پرکاٹنے کی کوشش کی۔ اپریل 2007ء کے پہلے ہفتے میں وہ ایوان صدر طلب کئے گئے۔ چند فائلیں دکھا کر ان سے استعفیٰ طلب کیا گیا۔ موصوف نے انکار کردیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے اسے دہرانے سے کیا حاصل۔
افتخار چودھری کی "عوامی تحریک کی بدولت" چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے بعد پارلیمان جو جمہوری نظام کی بنیاد تصور ہوتی ہے اپنا وقار تیزی سے کھونے لگی۔ اس کے اراکین کو بحال ہوئے چیف جسٹس نے جعلی ڈگریوں والے ثابت کرنا شروع کردیا۔ اس کے علاوہ بے تحاشہ حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹسوں کے ذریعے عمل پیرائی میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردیں۔ ان نوٹسوں کی بدولت عوام تک پیغام یہ پہنچا کہ حکومت کے لئے اقدامات کی اکثریت خلق خدا کی بہتری کا محض ڈرامہ رچاتی ہے۔ حقیقی مقصد ان کا حکمرانوں کے لئے بڑے منصوبوں کی تکمیل کیلئے وقف ہوئی بھاری بھرکم رقوم میں سے "کمیشن" کا حصول ہوتا ہے۔
افتخار چودھری کے ازخود نوٹسوں کے ذریعے پیغام یہ بھی ملا کہ منتخب پارلیمان میں ازخود احتساب کا کوئی موثر فورم موجود نہیں۔ سپریم کورٹ جیسے ادارے ہی ازخود نوٹسوں کے ذریعے جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آئے "چوروں اور لٹیروں" کا احتساب کرسکتے ہیں۔ افتخار چودھری کے سپریم کورٹ سے ہوئے احتساب کے عمل کو وسیع پیمانے پر سراہا گیا۔ میڈیا کی اکثریت اس عمل کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑی ہوگئی۔ ایک لمحے کو یوسف رضا گیلانی کی بطور وزیر اعظم سپریم کورٹ کے ہاتھوں فراغت کے دور رس نتائج پر بھی غور نہیں کیا۔
افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدالت کی جانب سے سماج سدھارنے کی مہم میں تھوڑا وقفہ آیا۔ بعدازاں مگر ثاقب نثار چیف جسٹس ہوئے تو اپریل2016ء میں نام نہاد پانامہ پیپرز دھماکے کی صورت رونما ہوگئے۔ تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کا ان دستاویزات کی بدولت ازخود نوٹس کے ذریعے احتساب شروع ہوگیا۔ عدالت نے نواز شریف کے خلاف جس احتسابی عمل کا آغاز کیا اس نے عمران خان کے اس سیاسی بیانیے کو بھرپور مواد فراہم کیا جو پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو "چوروں اور لٹیروں" پر مبنی افراد کے جتھے بیان کرکے پیش کرتا جن کے مابین اقتدار میں آنے کی "باری" لینے کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔
حقیقت یہ بھی رہی کہ جمہوری عمل کو "گائیڈ" کرنے والے ادارے کو ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ جیسے ججوں کی صورت طاقتور اتحادی میسر ہوگئے جو منتخب وزیر اعظم کو "اس کی اوقات" میں رکھنے میں مددگارثابت ہوئے۔ "اقتدار میں باریاں" لینے والوں سے بالآخر 2018ء میں ہوئے انتخاب کی بدولت نجات حاصل کرلی گئی۔ اس کے نتیجے میں جو حکومت برسراقتدار آئی وہ کامل تین برسوں تک ریاست کے دو طاقتور ستونوں کے ساتھ "سیم پیج" پریکساں ہونے کے مزے لیتی رہی۔
اکتوبر2021ء سے مگر "سیم پیج" والوں کے طاقتور ترین فریق کو محسوس ہونا شروع ہوگیا کہ پاکستان کا ایک اور وزیر اعظم خود کو دیگر اداروں پر بالادست سمجھتے ہوئے اپنی مرضی پر عمل پیرا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کے تبادلے کے حوالے سے اپنائی لیت ولعل نے سیم پیج والوں کو بہت کچھ سوچنے کو مجبور کردیا۔ دریں اثناء باجوہ صاحب کے 6سال بھی پورے ہونے والے تھے۔ وہ قوم کی "مزید خدمت" کو بے چین تھے۔ بات فقط ریاستی اداروں کے مابین زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حصول کے لئے ہوئی ریشہ دوانیوں تک ہی محدود رہتی تو شاید معاملات اتنے بے قابو نہ ہوجاتے۔
پاکستان کی معیشت مگر دیوالیہ کی جانب بڑھنا شروع ہوچکی تھی۔ بنیادی وجہ اس کی آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد سے انکار تھا۔ حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے عمران حکومت نے بلکہ تیل کی قیمت کو منجمد کردیا۔ بجلی کی قیمت بڑھانے سے بھی انکار ہوا۔ عمران حکومت کی مخالف قوتیں مگر عوام کی بے پناہ اکثریت کو یہ سمجھانے میں قطعاََ ناکام رہیں کہ ملک اقتصادی طورپر دیوالیہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ محلاتی سازشوں میں خاموشی سے مصروف رہ کر عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کروادیا گیا۔
وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد عمران خان اپنے ارادے کے مطابق "مزید خطرے ناک" ہوگئے۔ روزانہ کی بنیاد پر شہر شہر جاکر جلسے کئے۔ سوشل میڈیاکو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ عدالتی نظام کا موثر ترین حصہ بھی انہیں تواتر سے بہ جانب حق قرار دیتا رہا۔ اس کے بعد 9مئی ہوگیا۔ ریاست کا طاقتورترین ادارہ انتہائی سنجیدگی سے یہ سوچتا ہے کہ نو مئی کے روز جو کچھ ہوا وہ عوام کا برجستہ ردعمل نہیں تھا۔ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کا ہدف طاقتور ترین ادارے میں اضطراب پھیلانا اور وحدت کمان کے تصور کو زک پہنچانا تھا۔
عدالتی رویے کو اس دن کے بعد سے لہٰذا ایک اور نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ اسی باعث عجلت میں بلائے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں سے آئین میں"اچانک" ہوئی ترامیم کا ذکر چھڑ گیا۔ اتوار کی صبح تک مجھے یقین تھا کہ دو تہائی اکثریت سے محروم حکومت اپنے ارادوں کی تکمیل نہیں کر پائے گی۔ اتوار کے دن چند ٹھوس اشارے ملے ہیں جو مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہے ہیں کہ بالآخر حکومت اور اس کے اتحادیوں نے "تخت یا تختہ" کا ذہن بنالیا ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اپنی سوچ کیسے بروئے کار لائے گی۔