حادثہ ایک دَم نہیں ہوتا
9مئی 2024ء کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے بیٹھ گیا۔ دس سے زیادہ منٹ گزرچکے ہیں اور ذہن میں ابتدائی کلمات بھی مرتب نہیں ہوپارہے۔ 9مئی کی مناسبت سے "موقع بھی ہے" والا خیال چاہ رہا ہے کہ آج سے ایک برس قبل ہوئے ان واقعات کو یاد کیا جائے جو بالآخر "سانحہ" کہلائے۔ مذکورہ واقعات نے ریاست کے طاقتور ترین ادارے کو وطن عزیز کی ایک مقبول ترین کرشماتی شخصیت کا بدترین مخالف بنادیا۔ موصوف کی بنائی سیاسی جماعت-تحریک انصاف- اس کے بعد سے اب تک سنبھل نہیں پائی ہے۔
عمران خان سمیت اس کی صف اوّل کے کئی رہ نما متعدد الزامات کے تحت جیل میں ہیں۔ گرفتاری سے بچے افراد طویل عرصے کی روپوشی کے بعد 8فروری کے انتخابات کے قریب منظر عام پر آئے۔ ان میں سے چند متاثر کن اکثریت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے منتخب بھی ہوگئے۔ علی امین گنڈاپور اس ضمن میں خیبرپختونخواہ کی وزارت اعلیٰ کے حصول کے بعد مزید خوش نصیب ثابت ہوئے۔
عمر ایوب خان بھی اس تناظر میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تسلیم کئے جانے کے بعد اپنے سیاسی کیرئیر کے اہم ترین مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ حماد اظہر جیسے رہ نمائوں کی مشکلات مگر ختم نہیں ہورہیں۔ کسی زمانے میں متحرک ترین نظر آتے مراد سعید بھی عرصہ ہوا ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں۔
صف اوّل کی قیادت کے علاوہ تحریک انصاف سے وابستہ سینکڑوں نوجوان مختلف مقدمات میں گرفتار ہونے کے بعد جیلوں میں مقید ہیں۔ ضمانتوں پر رہا ہوئے افراد بھی سہمے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف پر آئے کڑے وقت کے باوجود تاہم اس جماعت کے بانی کے بے شمار پرستارہمہ وقت "فدائین" والا رویہ اختیار کرنے کو بے چین ہیں۔
ریاست کا طاقتور ترین ادارہ مذکورہ بالا حقائق سے ناآشنا نہیں۔ ریاستی طاقت اور قوت کو ہر صورت بالاتر رکھنے کی منطق مگر اسے مجبور کررہی ہے کہ 9مئی 2023ء کے دن کو فراموش نہ کرے۔ وہ یہ بھولنے کو آمادہ نہیں کہ اس روز قائد تحریک انصاف کی گرفتاری سے مشتعل ہوکر تحریک انصاف کے حامی ہجوم نے بلوائیوں کی صورت پاکستان کے مختلف شہروں میں دفاعی تنصیبات پر حملے کئے تھے۔ مختلف شہروں میں شہیدوں کی یاد میں قائم یادگاروں کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یوں ایک "ریڈ لائن" کراس کردی گئی۔ اسے بھلادیاگیا تو مستقبل میں 9مئی 2023ء جیسے واقعات اکثر رونما ہوتے رہیں گے۔
"صحافی" سے کسی زمانے میں تقاضہ ہوا کرتا تھا کہ وہ "حقائق" کو دیانتداری سے بیان کردینے کے بعد قارئین وناظرین کو یہ فیصلہ کرنے دے کہ ایک مخصوص تنازعہ کے بارے میں کس فریق کا موقف درست ہے۔ کسی بھی قضیے میں ملوث فریقین کی سوچ کو "غیر جانبدارانہ" انداز میں رپورٹ کردینے کے دن مگر اب ختم ہوچکے ہیں۔ دورِ حاضر میں نظام کہنہ سے اکتائے عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ خود کو "ریاست کا چوتھا ستون" تصور کرتی "صحافت" بھی "استحصالی نظام" کی اجرتی قاتلوں جیسی آلہ کار ہے جس کا واحد وحتمی مقصد حکمرانوں کی سوچ کو درست ثابت کرنا ہے۔
انٹرنیٹ کی سہولت سستے ترین موبائل فون کی وجہ سے غریب ترین شخص کو بھی میسر ہوچکی ہے۔ وہ پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود اپنے فون پر موجود ٹک ٹاک جیسی ایپس کے ذریعے "حالاتِ حاضرہ" سے آگاہ رہتا ہے۔ مجھ جیسے "کالم نگاروں" کی دانش" سے وہ محفوظ ہے۔ پڑھا لکھا ہو بھی تو حقارت سے ہمارے خیالات پڑھتے ہوئے ان میں سے "خوئے غلامی" کو نمایاں کرتے فقرے ڈھونڈ کر ہماری بھد اڑانے میں مصروف رہتا ہے۔
دورِ حاضر میں"صحافت" کا جو "روپ" نمایاں ہوا ہے اس کے ہوتے ہوئے قارئین کی اکثریت 9مئی 2023ء کے ایک برس بعد مجھ جیسے قلم گھسیٹ سے یہ توقع نہیں باندھے گی کہ وہ گہری تحقیق کے بعد منکشف کرے کہ اس روز درحقیقت کیا ہوا تھا۔ توقع مجھ سے فقط یہ باندھی جائے گی کہ "تھوڑی جرات دکھاتے ہوئے ایمانداری" سے بیان کردوں کہ اس روز جو ہوا اس کے بارے میں کس کی سنائی داستان درست ہے۔ ریاست کا طاقتور ادارہ اس روز ہوئے واقعات کو اس کی حمیت پر ہوا حملہ قرار دینے میں درست ہے یا نہیں۔ وہ اگر درست نہیں تو کیا تحریک انصاف کی سوچ بلاشواہد درست ہے کہ نو مئی 2023ء کے دن ریاست کے مقتدر ادارے نے اپنے ہی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے "فالس فلیگ" کہلاتا ایک آپریشن کیا۔ مقصد جس کا تحریک انصاف کو "ریاست دشمن" کے طورپر "بدنام" کرتے ہوئے اس کی قیادت کو سیاسی عمل سے باہر دھکیلنا تھا۔
9مئی 2023ء کے روز جو واقعات ہوئے انہیں سادہ ترین زبان میں بیان کرنے کے بعد سیاہ یا سفید ٹھہرانے کا "ہنر" میری گرفت میں نہیں۔ ملکی سیاست کے طویل مشاہدے نے سبق سکھایا ہے تو فقط اتنا کہ "وقت کرتاہے پرورش برسوں -حادثہ ایک دم نہیں ہوتا"۔ میری دانست میں 9مئی 2023کے روز جو "انہونی" ہوئی اس کے لئے تحریک انصاف نے عمران حکومت کے خلاف اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل ہی تیاری شروع کردی تھی۔ بانی تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل یہ دھمکی دی تھی کہ اگر وہ کامیاب ہوگئی تو وہ "مزید خطرے ناک" ہوجائیں گے۔ میں پسند کروں یا نہیں۔ موصوف اپنے وعدے پر قائم رہے۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو روزانہ کی بنیاد پر شہر شہر جاکر لوگوں کو یہ داستان سنائی کہ ان کی مخالف جماعتیں تو کسی قابل ہی نہ تھیں۔ کرکٹ کی بدولت کرشمہ سازی کی چمک سے مالا مال ہوئے بانی تحریک انصاف بالآخر وزارت عظمیٰ تک پہنچے تو دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا ملک ان کی خوددار وطن پرستی سے خفا ہوگیا۔ انہیں چلی کے آلندے اور ایران کے ڈاکٹر مصدق کی طرح عبرت کی مثال بنانے کا فیصلہ ہوا۔ موصوف کو گماں تھا کہ کئی برسوں سے ان کے ساتھ "سیم پیج" پر رہا ادارہ "امریکی وار" ناکام بنانے کیلئے ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ وہاں موجود "میر جعفر وصادق" مگر واشنگٹن کے ساتھ مل گئے۔
بانی تحریک انصاف نے روایتی اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے جو بیانیہ تشکیل دیا اس کا توڑ شہباز حکومت ڈھونڈ نہ پائی۔ جن کو وہ "میر جعفر وصادق" ٹھہرارہے تھے وہ ان دنوں کے صدر عارف علوی کی وساطت سے انہیں"ٹھنڈا" کرنے کی کوششوں میں مبتلا رہے۔ بانی تحریک انصاف "ٹھنڈے" نہ ہوئے اور بالآخر 9مئی ہوگیا۔ سیاق وسباق پر ایماندارانہ غور کے بغیر 9مئی 2023ء کی دیانتدارانہ تفہیم ممکن ہی نہیں اور اخباری کالم کی جگہ بہت محدود ہوتی ہے۔