اور اب سوشل میڈیا کو "ریگولیٹ" کرنے کی تیاری
کسی کرشمہ ساز کو بے تحاشہ ملکی مسائل کا یک وتنہا مداوا ثابت کرنے کے لئے لازمی ہے کہ اس معاشرے کے تمام اداروں کی ساکھ کو "نظام کہنہ" کا نمائندہ ٹھہراتے ہوئے تباہ وبرباد کردیا جائے۔ وطن عزیز میں ایسے عمل کا آغاز اکتوبر2011ء میں ہواتھا۔ لاہور کے مینارِ پاکستان تلے ایک جلسہ منعقد ہوا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے کرکٹ سے سیاست میں آئے عمران خان نے خود کو باریاں لینے والے آصف علی زرداری اور نواز شریف کا متبادل بناکر پیش کیا۔
موصوف 1996ء سے تحریک انصاف کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائے ہوئے تھے۔ اپنے قیام کے چند ماہ بعد یہ جماعت انتخابی میدان میں اتری تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ایک نشست بھی حاصل نہ کرسکی۔ نواز شریف "ہیوی مینڈیٹ" کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئے۔ ان کی واحد حریف یعنی پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں 18نشستوں تک محدود ہوگئی۔ "ہیوی مینڈیٹ" کے خمار میں نواز حکومت نے احتساب بیورو کے ذریعے اپنے مخالف سیاستدانوں کو "چور اور لٹیرے" ثابت کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔ بتدریج "شرعی نظام" نافذ کرنے کے بہانے خود کو "امیر المومنین" کہلوانے کی کاوشیں بھی شروع کردیں۔
اندرون ملک اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ اپنائے رویے کے برعکس نواز شریف نے پاکستان کے "ازلی دشمن" بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بھارت نے 1998ء میں ایٹمی دھماکہ کیا تو اس کے جواب میں تاہم لیت ولعل سے کام بھی نہ لیا۔ دونوں ملک خود کو ایٹمی قوت ثابت کرچکے تو باہمی مذاکرات کی گنجائش نکل آئی۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے۔ مینارِ پاکستان جاکر پاکستان کی حقیقت کا اعتراف بھی کیا۔ اس کے بعد مگر کارگل ہوگیا۔
کارگل نے جنرل مشرف کو سری نگر کے بجائے ایوان صدر پہنچایا تو وہ پاکستان میں"حقیقی جمہوریت" متعارف کروانے کو ڈٹ گئے۔ ایوب خان کی طرح جمہوریت کو "جڑوں سے مضبوط کرنے" کی ٹھان لی۔ عمران خان کو گمان تھا کہ مشرف کی متعارف کردہ "جمہوریت "ان کی جماعت کو توانا تر بنائے گی۔ مسلم لیگ (نون) سے جدا ہوئے چودھری شجاعت حسین جیسے جہاں دیدہ سیاستدان مگر "نئے سسٹم" میں فٹ ہوگئے۔
داخلی معاملات ان جیسے سیاستدانوں کے حوالے کرکے جنرل مشرف افغانستان کو "دہشت گردی سے پاک کرنے کی مہم" میں امریکہ کیساتھ بھرپور تعاون میں مصروف ہوگئے۔ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے بانی تحریک انصاف نے خیبرپختونخواہ کے نوجوانوں کے دل موہ لئے۔ وہ آج بھی ان کی "Core"بنیادی قوت ہیں۔ 2011ء تک مگر عمران خان کو پنجاب میں نوازشریف کا متبادل ثابت کرنے میں بہت دقت پیش آرہی تھی۔ دریں اثناء "مقتدر" کہلاتی قوتیں بھی "باریاں لینے والوں" کا متبادل ڈھونڈرہی تھیں۔ عمران خان نے ان سے روابط بڑھائے اور پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
آج کے کالم کا اصل موضوع ایسے بھی اس امر پر اصرار کرنا ہے کہ کسی فرد واحد کو ملک کی تمام ترمشکلات کا مداوا ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کے روایتی نظام کو فرسودہ اور بدعنوان ٹھہراتے ہوئے تباہ وبرباد کردیا جائے۔ سوشل میڈیا کی ایجاد نے اس ہدف کا حصول آسان بنادیا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے اسے پروفیشنل انداز میں استعمال کرنے کافیصلہ کیا۔ "نظام کہنہ" کا ایک نسبتاََ کمزور نمائندہ یعنی "صحافت" اس کا پہلا نشانہ بنی۔
عمران خان کے اندازِ سیاست پر واجب سوالات اٹھاتے صحافیوں کو ماہرانہ انداز میں ٹارگٹ کرتے ہوئے تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول نے انہیں"لفافے" ثابت کرنا شروع کردیا۔ اس کے علاوہ فیس بک وغیرہ میں نقب لگاکر ایسی تصاویر بھی بازار میں پھیلادی گئیں جنہوں نے عوام کو یہ پیغام دیا کہ اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے "حق وسچ کے بھاشن دینے والوں کی ذاتی زندگیاں" گناہ آلود" ہیں۔ فقط چند ہی صحافی کردار کشی کی اس مہم کے سامنے ٹک پائے۔ اکثریت عزت بچانے کے خوف سے تحریک انصاف کی ہم نوا بن گئی۔ تحریک انصاف 2018ء کے برس اقتدار میں آئی تو صحافت کو برے لوگوں سے کاملاََ پاک کردیا۔
صحافت پر کامل کنٹرول کے باوجود تحریک انصاف اپریل 2022ء میں اپنی حکومت بچا نہیں پائی۔ اس کی جگہ آئی شہباز حکومت مگر بیانیہ سازی کے ہنر سے قطعاََ محروم تھی۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان اپنے دعوے کے مطابق "مزیدخطرے ناک" ہوگئے۔ اپنی ساکھ کھودینے کے بعد روایتی صحافت ان کی مقبولیت کے روبرو ٹک نہیں سکتی۔ سوشل میڈیا پر چھائے "ذہن ساز" ہی اب حق وصداقت کی علامتیں تصور ہوتی ہیں۔
وقت مگر کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ ہر عروج کے بعد زوال کا آغاز بھی ہوتا ہے اور میری ناقص رائے اب سوشل میڈیا پر "ذہن سازی" کا عمل اپنے انجام کو بڑھ رہا ہے۔ گزرے ہفتے کے آخری دو دنوں میں اسلام آباد کے ایک معزز جج صاحب کے خلاف کردار کشی کی جس مہم کا آغاز ہوا وہ شعوری یا لاشعوری طورپرسوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی "ذہن سازی" کے عمل پر میری دانست میں"خودکش" حملہ تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام عزت مآب ججز اس سے مشتعل ہوگئے۔ پیر کی سہ پہر اس کے فل کورٹ کا ہنگامی مگر مختصر ترین اجلاس ہوا۔ سوشل میڈیا پر ایک عزت مآب جج کی ذات کے بارے میں مچائی واہی تباہی کے جواب میں حکومتی اداروں کی خاموشی پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے سخت سوالات اٹھائے۔ ہمیں یہ سوچنے کو مائل کیا کہ شاید حکومت ہی کردار کشی کی مذکورہ مہم کی حقیقی سرپرست تھی۔
میرے بے شمار دوست شاید میرے خدشات کو حقارت سے ٹھکرادیں گے۔ ان کی خفگی کا خطرہ مول لیتے ہوئے بھی دست بستہ یہ عرض کرنے کو مجبور ہوں کہ اعلیٰ عدالتوں سے ان کے ساتھی ججوں پر سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئے کردار کش حملوں کے خلاف آیاردعمل بالآخر سوشل میڈیا کوبھی روایتی کی طرح "ریگولیٹ" کرنے کا سبب بنے گا۔ روایتی صحافت کی ساکھ عرصہ ہوا تحریک انصاف کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہوچکی ہے۔ اب عمران مخالف قوتیں سوشل میڈیا کی "اصلیت" بے نقاب کرنے کو ڈٹ چکی ہیں۔ عزت مآب ججوں کے دلوں میں سوشل میڈیا کے خلاف اْبلتا غصہ بالآخر ان قوتوں ہی کا مددگار ثابت ہوگا۔