امریکی صدر اس حقیقت کا ادراک کریں
منگل کے روز ایک بار پھر امریکی صدر نے چند کلمات ادا کئے۔ ان کے ذریعے تاثر یہ دینے کی کوشش ہوئی کہ واشنگٹن پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ اس کی بدولت دونوں ممالک کے معاملات "بہتری" کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس خطے کے باسی ہوتے ہوئے اگرچہ مجھے اور آپ کو "بہتری" کی کوئی صورت دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے اندازِ سیاست وسفارت کاری کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مجھے اب امریکی صدر کی پاک-بھارت تعلقات کے بارے میں نمایاں ہوتی دلچسپی سے بلکہ خوف آنا شروع ہوگیا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پاکستان سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ امریکہ اس کا کئی دہائیوں سے "محافظ" ہونے کا دعوے دار ہے۔ چند ہی روز قبل سعودی تیل کمپنی کی تنصیبات پر یمن کے حوثیوں نے جدید ترین اسلحے کے استعمال سے فضائی حملے کئے۔ ان حملوں کی وجہ سے سعودی تیل کی پیداوار اور فراہمی کے انتظامات کو شدید دھچکا لگا۔ مارکیٹ میں تھرتھلی مچ گئی۔ دُنیا کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ تیل کی قیمت میں گرانقدراضافہ ہوجائے گا۔ امریکی صدر نے محض ایک ٹویٹ لکھا۔ اس کے ذریعے دُنیا کو آگاہ کیا کہ سعودی تنصیبات پر حملے کے ذمہ دار حوثی نہیں ایران ہے۔ اس ضمن میں "شواہد" سعودی حکومت کو فراہم کردئیے گئے ہیں۔ امریکہ سعودی عرب پر ہوئے حملے کا مؤثر جواب دینے کے لئے فوجی اعتبار سے پوری طرح تیار ہے۔ ایران کو "سبق" سکھانے کا فیصلہ مگر سعودی عرب کو کرنا ہوگا۔ گلی محلے کی زبان میں یہ ٹویٹ سعودی عرب کو ایران پر حملے کے لئے "اشکل" دینے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سعودی عرب مگر محتاط رہا۔ امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ "شواہد" کاجائزہ لینے میں وقت لگایا۔ بالآخر اس امر کی تصدیق کردی کہ حوثیوں کی طرف سے پھینکا اسلحہ ایران میں تیار ہوا تھا۔ "سبق" سکھانے کا مگر فیصلہ نہیں کیا۔ سعودی عرب محتاط رہنے کو جائز وجوہات کی بنا پر مجبور ہوا۔ ایران پر سعودی عرب پر حملے کا الزام لگانے اور مؤثر جواب کے لئے اپنی فوج کی تیاری کے اعلان کے بعد ٹرمپ نے جو مزید ٹویٹس لکھے ان میں دنیا کو یاد دلایا گیا کہ امریکہ نہ صرف اپنی تیل کی ضروریات کو مقامی پیداوار کے ذریعے پورا کررہا ہے بلکہ اس کے پاس دُنیا کے دیگر ممالک کو فراہمی کے لئے بھی وافر مقدار میں تیل موجود ہے۔ آبنائے ہرمز اور خلیج کے سمندروں میں تیل کی فراہمی والے ٹینکرز شاذہی امریکی کمپنیوں کے ہوتے ہیں۔ گلی محلے ہی کی زبان میں اسے "ساڈے تے نہ رہناں" کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ بدھ کے روز البتہ ٹرمپ نے اپنی وزارتِ خزانہ کو یہ حکم دیا ہے کہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کو مزید کڑا بنانے کی تجاویز پیش کی جائیں۔ یہ حکم ایران پر فوجی حملے سے گریز کی امید دلاتا ہے۔ سعودی عرب پر ہوئے حملے کو اولاََ بڑھک بازی اوربعدازاں تیل کی ضروریات کے تناظر میں امریکہ کی "خودکفالت" کے ذکرسے گویا نظرانداز کردیا گیا۔ سعودی عرب کے ساتھ برتی اس بے اعتنائی کو دیکھتے ہوئے میں ٹرمپ سے یہ اُمید کیوں باندھوںکہ وہ پاک-بھارت معاملات میں "بہتری" لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو بے چین ہوگا۔ فرض کیا وہ حقیقی معنوں میں بے چین ہے بھی تو بطور "ثالث" وہ پاکستان اور کشمیریوں کے لئے بھارت سے کیا حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سے "اچھی" خبریں سننے کے دعوے کرتے ہوئے امریکی صدر نے آج تک ایک لمحے کو بھی مقبوضہ کشمیر پر کمیونی کیشن لاک ڈائون کی وجہ سے مسلط ہوئے عذاب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ 22ستمبر کو بلکہ وہ مودی کے سواگت کے لئے ہوسٹن میں ہوئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے "تاریخ" بنائے گا۔
امریکی صدر واقعتا مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات کے بارے میں تھوڑا فکرمند ہوتا تو مودی کو سفارتی ذرائع سے یہ پیغام دے سکتا تھا کہ وہ اسی صورت ہوسٹن والی تقریب میں شریک ہوگا اگر کمیونی کیشن لاک ڈائون واضح طورپر نرم ہوتا نظر آئے۔ ٹرمپ کو مودی نے ہوسٹن والی تقریب میں شرکت کے لئے 26 اگست کے روز مدعو کیا تھا۔ وہ دونوں اس دن فرانس میں موجود تھے۔ ان کی باہمی ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو بھی ہوئی۔ وہاں ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات کو زیر بحث لانے سے گریز کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نے اسے بتایا ہے کہ معاملات اس کے "کنٹرول" میں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات اگر بھارت کے "قابو" میں ہیں تو "ثالثی" کا کردار ادا کرنے کی خواہش کیوں۔ "ثالث" میری نظر میں پاکستان کو 370 کے خاتمے کی وجہ سے اُبھرے "حقائق" تسلیم کرنے پر آمادہ کرتا محسوس ہورہا ہے۔ اسی باعث مجھے ٹرمپ کی پاک-بھارت معاملات میں بڑھتی دلچسپی سے اب خوف آنا شروع ہوگیا۔ "ہوئے تم دوست جس کے" والی کیفیت۔
معاملات کو معمول کے مطابق دکھانے کی خواہش میں بھارتی وزیر اعظم نے بہت مکاری سے حکومتِ پاکستان سے حال ہی میں رابطہ بھی کیا اور اس خواہش کا اظہار کہ اس کے طیارے کو ہماری فضائی حدود سے گزرکرجرمنی جانے کی خصوصی اجازت دی جائے۔ وہاں سے اسے امریکہ کے دورے پر جانا ہے۔ یہ بات عیاں تھی کہ عمران حکومت موجودہ حالات میں بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان کے فضائی راستے سے یورپ جانے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔ یہ اجازت مانگتے ہوئے نئی دہلی کو خوب اندازہ تھا کہ اسلام آباد "کیا لکھے گا"جواب میں۔ یہ اجازت طلب کرتے ہوئے مگر دُنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش ہوئی کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے پیش قدمی کررہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مگر "مثبت" جوابات نہیں مل رہے۔ چند روز قبل پاکستان کے وزیر اعظم نے نیویارک ٹائمز کے لئے ایک مضمون لکھا۔ مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات اس مضمون کا موضوع تھے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے نریندرمودی کو دورِ حاضر کا ہٹلر اور مسولینی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی وزیر اعظم نے اسی سوچ کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل بھارتی وزیر اعظم کوہندوبالادستی قائم کرنے کے جنون میں مبتلا شخص قرار دے رہے ہیں۔ پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت عمران خان صاحب سے ہزاروں اختلافات کے باوجود نہایت سنجیدگی سے نریندرمودی اور اس کی جماعت کے بارے میں وہی سوچ رکھتی ہے جن کا اظہار وزیر اعظم کی جانب سے ہورہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ معاملات میں "بہتری" لانے کے لئے نریندرمودی کے رویے میں لہذا تبدیلی نظر آنا ضروری ہے۔ موجودہ رویے کے ہوتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم کے لئے ناممکن ہے کہ وہ اپنے دورئہ امریکہ کے دوران "ثالث" کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مودی کے ساتھ ملاقات کرلیں۔ اس ملاقات کو یقینی بنانے کے لئے ٹرمپ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے "یار" کو مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈائون کے خاتمے پر مجبور کرے۔ بھارتی وزیر اعظم کے رویے میں نمایاں تبدیلی کے ٹھوس شواہد کے بغیر اگر پاکستان کے وزیر اعظم اس سے ملاقات پر آمادہ ہوگئے تو تاثر محض یہ پھیلے گا کہ "ثالث" نے پاکستان کو اقتصادی اور دیگر حوالوں سے ڈرادھمکا کر مودی سے ملاقات کرنے پر مجبور کردیا۔ "مجبوری" نظر آتی ملاقات پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کے لئے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ امریکی صدر کے لئے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے۔