Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Ye Mareez Nahi Mujrim Hain

Ye Mareez Nahi Mujrim Hain

یہ مریض نہیں مجرم ہیں

عرفان صدیقی کا انتقال ایک معلم، مفکر اور مدبر کا چلے جانا تھا۔ ان میں معلم اخلاق کی دانائی، صحافی کی جستجو، مفکر کی بصیرت اور سیاستدان کی شائستگی یکجا تھی۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے قومی شعور، علمی وقار اور فکری بلندی کو ہمیشہ اپنی تحریروں اور کردار سے زندہ رکھا۔

وہ ہمارے نئی بات، کے اہم ترین کالم نگار تھے اور ان کی تحریریں محض کالم نہیں بلکہ علم، تجربے اور حب وطن سے لبریز فکری درس گاہیں تھیں، ان میں تہذیبِ گفتار، متانت فکر اور قومی محبت کی خوشبو رچی بسی تھی۔ وہ ایسے اہل قلم تھے جو اختلاف رائے کو شائستگی سے بیان کرتے اور اصولی سیاست کو اخلاقی قدروں سے جوڑتے تھے۔ میری ان سے جو ملاقاتیں رہیں میں نے انہیں خوش گفتار، خوش فکر اور خوش دل انسان کے طور پر پایا۔ ان کا جانا واقعی سیاست اور صحافت کا بڑا نقصان ہے مگر اس جہان فانی میں آنے والے ہر شخص نے واپس جانا ہے چاہے کوئی بادشاہ ہو یا فقیر، یہ قدرت کا اصول ہے لہٰذا ہم سب ان کے لئے جنت میں اعلیٰ درجات اور ان کے اہل خانہ کے لئے صبر کی دعا کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔

مگر میرا آج کا کالم محض عرفان صدیقی صاحب کی وفات پر اظہار افسوس نہیں ہے بلکہ اس سے جڑے ایک اور نقصان اور المیے پر ہے جس کا ہمیں بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ایک کلٹ کی طرف بدتمیزی، بدتہذیبی اور بے ہودہ گوئی بلکہ یہ الفاظ ان کی اصل فکر اور معیار کی نشاندہی ہی نہیں کرتے کیونکہ وہ سیدھی سیدھی گالیاں، مقدس اور محترم رشتوں کے حوالے سے غلاظت بکتے ہیں اور ان میں سب سے بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹیویٹس کی ہے۔

میں اس امر سے انکار نہیں کرتا کہ آپ جس سے بھی اختلاف کر لیں جواب میں مغلظات ضرور آئیں گی چاہے وہ پیپلزپارٹی ہو، مسلم لیگ نون ہو یا جے یو آئی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک جیسی دینی جماعتیں ہوں مگر اس امر سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس میں تحریک انصاف سب سے آگے ہے، سب سے زیادہ منظم ہے اور یہ وہ مچھلی ہے جو اپنے سر سے سڑی ہوئی ہے یعنی اس کے کارکن ہی نہیں عہدیدار اورلاکھوں کی فالوئنگ رکھنے والے فکری رہنما بھی یکساں طور پر گھٹیا اور غلیظ سوچ کے حامل ہیں۔ ان سب نے اس غلاظت کو باقاعدہ منظم شکل دی ہے اور یہ گروہ بن کے حملہ آور ہوتے ہیں۔ عرفان صدیقی صاحب کی رحلت پر ان کا ردعمل بیگم کلثوم نواز اور محترمہ شمیم اختر کی وفات پر ردعمل سے چنداں مختلف نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے لوگ اس گندگی کا دفاع کرتے ہیں، اسے جواز دیتے ہیں۔

ایک صاحب کی رائے گذشتہ روز نظر سے گزری جس میں انہوں نے تحریک انصاف کے ان ذومبیز کو نفسیاتی مریض قرار دیا اور کہا کہ انہیں ہمدردی اور علاج کی ضرورت ہے اور میں اس سے عدم اتفاق کرتا ہوں۔ یہ ہمارے معاشرے کے بدترین مجرم ہیں اور نفسیاتی مریض قرار دے کر انہیں راستہ دینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شاطر وکیل کسی قاتل، زانی اور ڈاکو کو پاگل قرار دے دے اور عدالت سے رحم اور بریت کی اپیل کرے۔ یہ جو کچھ کرتے ہیں ایک منصوبہ بندی کے ذریعے کرتے ہیں۔

سیاسی اور فکری طور پر اس عذاب کی آبیاری ایک طویل عرصے تک کی گئی ہے۔ یہ وہ کلٹ ہے جو اپنے لیڈر کی طرف سے کسی دوسرے کی بیوی کو اس کے پیر خانے میں گھس کے اڑا لے جانے، اپنی بیٹی کی عمر کی کارکن خاتون سے غلیظ ترین گفتگو ہی نہیں شائد ملاقات پر وہ سب کچھ کرنے، امریکہ کی عدالت سے ثابت شدہ ناجائز اولاد کے ہونے کا دفاع کرسکتا ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ وہ بدقماش لوگ اور عاقبت نااندیش لوگ ہیں جواپنے ہی ملک کو دیوالیہ کرنے کی مہم چلا سکتے ہیں، اپنی ہی فوج پر بھارتیوں، اسرائیلیوں اور افغانیوں کے ساتھ مل کر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

اللہ اس اسٹیبلشمنٹ کو پوچھے، ان تمام فیض حمیدوں اور آصف غفوروں کو عبرت کا نشان بنائے جنہوں نے اس شیطانی گروہ کو منظم کیا، برائی کو ایک طاقت بنایا اوراس میں شجاع پاشا، ظہیر الاسلام کے نام بھی آتے ہیں۔ ان کے بنائے گروہ کی فیلڈ مارشل اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے بارے میں پوسٹس کو دیکھا بھی نہیں جا سکتا، پڑھا بھی نہیں جا سکتا۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا ان کی اپنی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں سوشل میڈیا پر نہیں ہوتیں۔ کیا وہ سب کچھ نہیں پڑھتیں۔ کیا ان کے چاچے، تائے، مامے اورنانا، دادا قسم کے بزرگ نہیں ہوتے۔ کیا ان کی خالائیں، پھوپھیاں، چاچیاں اور مامیاں یہ سب کچھ نہیں پڑھتیں؟

اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے خلاف کوئی عدالتی سمیت قانونی چارہ جوئی کا پلیٹ فارم نہیں ہے اور اگر کوئی ہے تو وہاں جانا الگ سے خواری ہے، جی ہاں، میں اپنے عدالتی نظام کی بات کر رہا ہوں جس میں وزیراعلیٰ اور وزیراعظم ہو کر بھی شہباز شریف جیسی شخصیت عمران خان کے اپریل 2017 میں لگائے ہوئے الزام پر خود پیشیاں بھگت رہی ہے، جرح کا سامنا کر رہی ہے اور الزام لگانے والا جھوٹا شخص اس پر آج تک کوئی سزا نہیں پا سکا۔

پنجاب جیسے صوبے میں مریم نواز جیسی طاقتور وزیراعلیٰ اور عظمیٰ بخاری جیسی طاقتور وزیر اطلاعات ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تو ایک عام سیاستدان، صحافی یا سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے سوائے اس کے، کہ وہ خود پستول لے اور ان میں سے کسی کو گولی مار دے۔ یہ ہمارے عدالتی نظام کی سب سے بڑی خامی اور کوتاہی ہے کہ یہاں میر شکیل الرحمان جیسا میڈیا کا طاقتور ترین شخص، ناصر بٹ جیسا سیاسی کارکن اور راشد نصیر جیسا آئی ایس آئی کا سابق عہدیدار پاکستان کے معاملات پر پاکستانیوں کی طرف سے الزامات پر برطانیہ کی عدالتوں سے جا کر انصاف لیتا ہے۔

یہ اپنے سوا ہر کسی کو کرپٹ سمجھتے اور کہتے ہیں حالانکہ ان کے اپنے لیڈر کے کردار سے ہر کرپشن جڑی ہے چاہے وہ اخلاقی ہو، سیاسی ہو یا مالی۔ اس نے اس فکری ابہام کو ختم کر دیا ہے کہ جدید ترین دور میں لوگ دجال کے فالوور کیسے بن جائیں گے۔ ہمارے پاس اس کے سوا کیا ہے کہ ہم اللہ کی عدالت سے رجوع کریں اور یہ سوچیں کہ ہر گالی پر خدائے بزرگ و برتر کی عدالت میں ایک اکاؤنٹ، ایک مقدمہ کھل گیا ہے جس پر روز آخر فیصلہ ہوگا۔

دل کو یہی کہہ کے تسلی دے لی جائے کہ ہم سب اللہ کے محبوبﷺ سے بڑھ کے طاقت والے نہیں ہیں اور ان پر اس سوچ اور معیار کے کلٹ نے ہجرت سے پہلے مکہ میں اس سے بھی بڑھ کے ایذارسانی کی تھی، یہ صبرہمار اایمان ہے مگر جدید اور مہذب ریاستوں میں جرائم پیشہ اور بدقماش لوگوں کی حرکتوں پر برداشت کوئی ریاستی طریقہ نہیں ہے، ان کے لئے ایک الگ سی سی ڈی کی ضرورت ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari