تیرے منہ میں خاک

افغانوں کے وفادار، پشتون لیڈرمحموو خان اچکزئی نے ستائیسویں آئینی ترمیم پر کہا کہ اگر یہ منظور ہوگئی تو (خاکم بدہن) پاکستان کی فاتحہ پڑھ لی جائے۔ یہ وہی شخص ہے جو اپنے کارکنوں کو افغانستان کی شہریت لینے کی ہدایت کر چکا، یہ خود اوراس کی سرکاری ملازمت کرنے والی بیٹی اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں پاکستان کو اسرائیل قرار دے چکی اور اس شخص کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کر دیا ہے۔
میں نے اس کی پوسٹ دیکھی تو مجھے افسوس ہوا کہ پاکستان کی دھرتی کن لوگوں کو عزت، دولت، شہرت اور عہدے دے دیتی رہی ہے اور اندازہ ہوا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے اتحاد کے مقابلے میں عمران خان اور محمود اچکزئی کا اتحاد کتنا ناپاک اور کتنا ملک دشمن ہے کہ محض سیاسی اختلاف پر آپ پاکستان کے دشمن ہوجاتے ہیں، اس کی موت کی بات کرتے ہیں گویا آپ اسی درخت کو کاٹتے ہیں جس کی شاخ پر آپ کا بسیرا ہے، جس کا پھل آپ کھاتے ہیں، جس کے سائے نے آپ کو تحفظ دے رکھا ہے، آپ کتنے نادان ہیں، عاقبت نااندیش ہیں۔
میں پہلے ستائیسویں آئینی ترمیم کی بات کر لوں، آئین میں اس سے پہلے چھبیس ترامیم ہوچکیں، ان سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر پاکستان کی فاتحہ پڑھ لی جائے۔ مشہور ترین ترامیم میں ضیاء الحق مرحوم کی آٹھویں اورپیپلزپارٹی کی اٹھارہویں ترامیم رہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم، چھبیسویں آئینی ترمیم کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل ہے یعنی ایک آئینی عدالت کا قیام تاکہ آئینی معاملات کا دباو سپریم کورٹ پر نہ رہے، ا س سے جہاں آئینی معاملات کی مہارت والی عدالت موجود ہوگی وہاں یہ شکوہ بھی نہیں ہوگا کہ سپریم کورٹ اہم ترین مقدمات چھوڑ کے ان کیسز کی سماعت پر لگ جاتی ہے جن پر بڑی بڑی بریکنگ نیوز چلتی ہیں، شہ سرخیاں بنتی ہیں، پروگرام کئے جاتے اور کالم لکھے جاتے ہیں اور اس طرح جج صاحبان ڈسکس ہوتے ہیں، مشہور ہوتے ہیں۔
یقینی طور پر اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ عدالتوں کاپرانا سلسلہ ہی برقرار رکھا جائے لیکن کیا آپ بہتری کی کسی بھی صورت کی طرف جانے پر یہ کہیں گے کہ اس سے پاکستان ہی فوت ہوجائے گا، استغفراللہ، آئین میں دوسری بڑی تبدیلی این ایف سی ایوارڈ کے صوبوں اور وفاق کے درمیان توازن، وسائل کی تقسیم پر ہوسکتی ہے اور چند فیصد کا ادھر ادھر ہوجانا بھی کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اہم ہے مگر اسی اٹھارہویں ترمیم سے پہلے بھی پاکستان چلتا رہا ہے۔
میں تو یہ کہوں گا کہ پیپلزپارٹی خود کو وفاق کی جماعت کہتی ہے اور اگر وفاق مشکل میں ہے توا سے مشکل سے نکالنے کی ذمہ داری بھی اس پر مسلم لیگ نون کے ساتھ یکساں طور پر ہی آتی ہے کیونکہ وہ صرف صوبے کی پارٹی نہیں، اس کے سربراہ اس وقت وفاق کے بھی سربراہ ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ مشکل ترین وقت میں پاکستان کھپے کانعرہ لگانے والے اب پیچھے نہیں ہٹیں گے، اب بھی پاکستان ہی کھپے گا اور رہ گئی فیلڈمارشل کے عہدے کے حوالے سے کوئی ترمیم تواس کی مخالفت ان لوگوں کو تو ہرگز زیب نہیں دیتی جنہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کیلئے ایک مدت کی ملازمت توسیع کو اپنی حکومت میں باقاعدہ قانون کا حصہ بنوا لیا یعنی آپ کریں تو رام لِیلا ہے، دوجے کریں تو کریکٹر ڈِھیلا ہے؟
محمود اچکزئی کی پوسٹ میں پاکستان کے لئے یہ لفظ استعمال کرنا میری نظر میں صرف احسان فراموشی اور نمک حرامی نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر غداری ہے۔ دھرتی ماں ہوتی ہے اور کوئی اپنی ماں کے بارے ایسی باتیں کرتا ہے مگر میں پھر کہوں گا کہ یہاں نواز شریف، آصف زرداری کے مقابلے میں عمران خان اور محمود اچکزئی کے اتحاد کی حقیقت عیاں ہوگئی۔ اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ جھگڑا کس جماعت کا نہیں رہا اور جب نواز شریف کا ہوا تو انہوں نے مداخلت کرنے والے جرنیلوں کے نام ضرور لئے مگر انہیں میرجعفر کہا نہ میر صادق۔
نواز شریف جلاوطن ہوگئے مگر اپنے وطن کو دیوالیہ کرنے کی کوئی کال نہیں دی۔ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ جیل میں بند ہوگئے مگر انہوں نے کوئی نو مئی برپا نہیں کیا اور اسی طرح آصف زرداری نے مختلف ایشوز پر گیارہ برس تک کی جیل برداشت کر لی مگر جب بی بی کی شہادت پر مشکل ترین وقت آیا تو پاکستان کھپے کانعرہ لگایا اور پاکستان اس نعرے کا اعزاز و اکرام اب تک انہیں دے رہا ہے، وہ دو مرتبہ انہیں صدر پاکستان بنا چکا ہے مگر دوسری طرف عمران خان اینڈ کمپنی ہے جو اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پاکستان پر ایٹم بم ہی پھینک دیا جائے۔
یہ پاکستان کو دیوالیہ کرنے کے لئے سول نافرمانی جیسی کال دیتے ہیں۔ یہ ایک گرفتاری پر پاکستان کی فوج کے ہیڈ کوارٹرز اورشہدا کی یادگاروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ یہ پاکستان سے عزت، دولت، شہرت اور عہدے لینے والے سیاسی اختلاف پر آپریشن بنیان مرصوص کے موقعے پر آپریشن سندور کے ڈھولچی بن جاتے ہیں، کتنے کم ظرف لوگ ہیں۔ یہ بار بار حوالہ دیتے ہیں کہ پاکستان اکہتر میںد ولخت ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ ہی کم فہم شیخ مجیب کو اپنا ہیرو بھی بناتے ہیں، کاش، یہ صرف کم فہمی ہوتی مگر یہ تو غداری ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ستائیسویں ترمیم ہوجائے گی اوراس میں پیپلزپارٹی کی تھوڑی بہت سیاسی دکان ضرور لگے گی مگر آخر میں ہیپی اینڈنگ، ہوگی۔ اس ترمیم کے نہ ہونے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے اس وقت عمران خان کی رہائی کے ہیں۔ رولا اس لئے زیادہ پڑ گیا ہے کہ نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ اس مرتبہ جے یو آئی بھی نمبر گیم سے باہر ہوگئی ہے اور یوں بھی کچھ میڈیا ہاوسز کو جمہوریت صرف اپوزیشن کے موقف میں ہی نظر آتی ہے۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگ یہاں امریکی آئین کی مثال دے رہے ہیں جس میں بہت کم ترامیم ہوئیں جو درست مثال نہیں ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور خاص طور پر یہاں مختلف آئینی اداروں میں تعلقات نئی جہت لے رہے ہیں تو ایسے میں ضروری ہے کہ نئے ورکنگ ریلیشن شپ بھی ہوں۔ یہ زندہ قوموں کی نشانی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لئے اقدامات کرتی ہیں۔ آئینی ترامیم قومی اتفاق رائے کے ساتھ ہی ہونی چاہئیں مگر کیا آپ پی ٹی آئی جیسی جماعت اوراس کے اچکزئی جیسے اتحادیوں سے قومی اتفاق رائے کی امید رکھ سکتے ہیں جس نے صرف ترمیم کے بارے سنا اوراسے مسترد کردیا۔ یہ بھی نہیں جانا کہ اس کے نکات کیا ہیں، اس کا مسودہ کیا ہے۔
پاکستان اس وقت بلٹ ٹرین کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس کے سامنے اگر سات گنا معاشی اور فوجی طاقت رکھنے والا بھارت نہیں ٹھہر سکا تواس کے عمران اور اچکزئی جیسے بغل بچوں کی کیا اہمیت ہے، کیا اوقات ہے۔ یہ سیاسی بستر مرگ پر ہیں اور فاتحہ پاکستان کی نہیں، ان کی ہونے والی ہے۔

