پی ٹی آئی نہیں بھارتی فوج کا حملہ سمجھیں
ایک خبر یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں سربراہی اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہورہا ہے، اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں سربراہان حکومت کی بیٹھک ہوگی۔ اجلاس کے لئے آج فل ڈریس ریہرسل کی جارہی ہے، اس موقعے پردنیا کے دوسرے خوبصورت ترین دارالحکومت کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا ہے۔ ایک رات قبل وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑ اور وزیر داخلہ سید محسن نقوی کے ساتھ رات کو اسلام آباد کا دورہ کیا اور انتظامات کا خود جائزہ لیا۔
ایس سی اوسمٹ کیلئے سربراہان حکومت پرسوں اسلام آباد پہنچیں گے اوراسی شام ہمارے وزیراعظم کی جانب سے مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا جائے گا۔ اجلاس میں ایس سی او کے 10 رکن ممالک شریک ہوں گے، درجن بھر وزرائے اعظم اور صدور اسلام آبادمیں ہوں گے جبکہ بڑی تعداد میں وفد اور 200 سے زائد غیرملکی صحافی آئیں گے۔ منگولیا بطور مبصر اور ترکمانستان کے مندوبین بطور خصوصی مہمان شرکت کریں گے جبکہ اجلاس میں چین کے وزیراعظم لی چیانگ اور روسی وزیراعظم میخائل میشوسٹن شریک ہوں گے اور ایران کے اول نائب صدر محمد رضا عارف اور بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر بھی شرکت کریں گے۔ اسلام آباد میں 16 اکتوبرکی صبح ایس سی او کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوگا، وزیراعظم شہباز شریف ایس سی او سمٹ کی صدارت کریں گے۔
اس خبر کا پس منظر یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلا س اس موقعے پر ہو رہا ہے جب پاکستان اپنی اقتصادی، سفارتی اور سیاسی ساکھ بحال کرنے جا رہا ہے۔ جب سعودی عرب کے سواسو سے زائدسرمایہ کارسوا دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرکے رخصت ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں البیک، جیسے بڑے اور عالمی برینڈ آ رہے ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کے سولہ ارب ڈالر ہو رہے ہیں، سٹاک مارکیٹ چھیاسی ہزار پوائنٹس کی تاریخی بلند ترین سطح پر ٹریڈ کر رہی ہے۔ شرح سود میں ریورس گیئر لگ چکا اور بیس فیصد تک کمی ہو چکی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں پچپن فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ برآمدات میں چودہ فیصد اضافہ ہو چکا ہے اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ منافعے میں بدل چکا ہے۔
عوام کے لئے بڑا ریلیف یہ ہے کہ اڑتیس فیصد پر جانے والی مہنگائی محکمہ شماریات کے مطابق سات فیصد سے بھی نیچے آ چکی ہے۔ یہ ایک بڑے او ر شاندار مستقبل کا آغاز ہے ورنہ یہی وہ ملک جس کے بارے اڑھائی تین برس پہلے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی تھیں۔ یہ ملک ایک نااہل اور بدقماش قسم کی حکومت میں آئی ایم ایف جیسے اداروں سے معاہدے توڑ کر اپنے لئے خطرناک حالات پیدا کر چکا تھا۔ یہ وہ حالات تھے کہ بین الاقوامی مانیٹری فنڈ ہو یا دوست ممالک وہ ہم سے اقتصادی تعاون کی بات تک کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ عمران خان نامی وزیراعظم کی احمقا نہ مہم جوئی کے نتیجے میں ملک دیوالیہ ہوگا۔ ایک دیوالیہ ہوتے ملک میں جہاں پٹرول تین سو روپے لیٹر ہونے پرشور مچایا جا رہا تھا وہاں یہ تین ہزار روپے لیٹر بھی نہیں ملنا تھا۔ وہ ملک جس کی ٹیکسٹائل کی ریکارڈ ایکسپورٹس ہو رہی ہیں، معاہدے معطل ہونے کے بعد، اس کی ایکسپورٹ کی تمام فیکٹریاں ہی بند ہوجانی تھیں اور کئی کروڑ مزدور بے روزگار۔ امپورٹ بند ہونے سے گاڑیوں سے برتنوں تک کی مارکیٹوں میں کاروبار ختم ہوجانا تھا۔ یہ وہ پہلا منظرنامہ تھا جس سے بچا کے شہباز شریف جیسا محنتی وزیراعظم ملک کو دوسرے منظرنامے میں لے آیا تھا جس کا اس پیراگراف کے شروع میں ذکر کیا۔
دوسری خبریہ ہے کہ اسی ملک کی تحریک انصاف نامی جماعت نے ایس سی او کانفرنس کے موقعے پر اسلام آباد کے ڈی چوک (جو ایوان وزیراعظم، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور ڈپلومیٹک انکلیو کے ساتھ جڑا ہوا ہے) میں احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اس احتجاج کا ماضی کا نمونہ بھی موجود ہے جب اس وقت کے وزیر داخلہ نے وزیراعظم کو مس گائیڈ کرتے ہوئے دو فسادی گروہوں کو یہاں تک رسائی دے دی تھی۔ انہوں نے وہاں پر قبریں کھودی تھیں اور کفن پہن کر بیٹھے تھے۔ ان کے شرپسند میڈیا ٹرولز نے درجنوں افرادکے مرنے کی جھوٹی خبریں پھیلائی تھیں۔ انہوں نے سرکاری اور نجی میڈیا ہاؤسز پر حملے کئے تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ وفاقی دارالحکومت پر دشمن کا اجڈ اور گنوار گروہ حملہ آور ہوگیا ہے جب ہم نے سپریم کورٹ کے جنگلوں پر شلواریں لٹکی ہوئی دیکھی تھیں۔
نجانے کن لوگوں نے کن کاموں کے لئے اپنی شلواریں اتاری تھیں اور پھر پہننا بھی بھول گئے تھے۔ یہ ان کی اخلاقی حالت تھی۔ یہ بدمعاش گروہ اعلان کر رہا تھا کہ وہ وزیراعظم کو گھسیٹ کر باہر نکالے گا اور نجانے کیا کیا الم غلم بکا جا رہا تھا۔ اس وقت ایک بہت ہی شریف اور وضع دار شخص ایوان وزیراعظم میں موجود تھا اور وہ امن اور محبت کے ساتھ ہی ان کے ساتھ معاملات کرنا چاہتا تھا لیکن سانپوں کو کبھی دودھ پلا کے دوست نہیں بنایا جا سکتا۔ اس وقت چین کے صدر پاکستان کا دورہ اور سی پیک کا افتتاح کر رہے تھے اور ان فسادیوں اور انتشاریوں کی وجہ سے ان کا پروگرام رہ گیا تھا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ جب سی پیک ٹو شروع ہو رہا ہے تو اسرائیل، امریکہ اور انڈیا کے مشترکہ ایجنٹ پھر متحرک ہو گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بانی سے ان کی ملاقات نہیں کروائی جا رہی۔ اس پر عدالت بھی فیصلہ دے چکی ہے کہ اٹھارہ اکتوبر کے بعد ملاقا ت ہو جائے گی۔ یہ شرپسند گروہ اپنے شاہ دولہ کے چوہوں کو مشتعل کرنے کے لئے خبریں پھیلا رہا ہے کہ عمران خان کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اڈیالہ سے ہائی پروفائل لاشیں شفٹ کی جار ہی ہیں۔ یہ جھوٹوں اور نوسربازوں کا وہ گروہ ہے جو ا س سے پہلے عقل کے اندھوں کو اشتعال دلانے کے لئے کہہ چکا ہے کہ ان کے بانی کی اہلیہ کو زہر دیا جا رہا ہے جبکہ طبی معائنے میں نکلا تھا کہ کُرکُرے زیادہ کھانے کی وجہ سے ان کے پیٹ میں تیزابیت ہوگئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اب اگر ان کو احتجاج کرنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ فسادی گروہ پھر ڈی چوک کے سامنے اسی طرح آگ لگائے گا جس طرح اس نے اسلام آباد کی سڑکوں پر پہلے لگائی۔ یہ پٹرول بموں سے اسی طرح حملے کرے گا جس طرح اس نے زمان پارک لاہور میں کئے۔ یہ ایس سی او کانفرنس پر اسی طرح حملہ آور ہوگا جس طرح یہ جی ایچ کیو اور کورکمانڈر ہاؤس پر حملہ آور ہوا۔ اس کا ٹریک ریکارڈ بہت ہی خراب ہے اور اس کے بانی سمیت دیگر شرپسندوں کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ پی ٹی آئی کی احتجاج کی کال پراسے، اسی طرح ٹریٹ کیا جانا چاہئے جیسے بھارت کی فوج حملہ آور ہو رہی ہو۔