پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش
پاکستان بنگلہ دیش بننے جا رہا ہے یا بنگلہ دیش پاکستان، یہ موازنے ہمیں بی بی سی کے آرٹیکلز سے یوٹیوبرز کے ویلاگزتک میں مل رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی گفتگو کسی تھرڈ ریٹ یوٹیوبر کی ویڈیوکا تھمب نیل لگ رہی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں کچھ بڑ اہونے جا رہا ہے مگر اس کے بارے میں جب کوئی دوسرا بات نہیں کر رہا تو وہ کیوں کریں اور یہ کہ وہ جیل سے پیشینگوئی کر رہے ہیں کہ حکومت کے پاس صرف دو ماہ ہیں۔
عمران خان یہ پیشین گوئی عین اس روز کر رہے ہیں جس روز ملک کے وزیراعظم اور سپہ سالار ہم آواز ہو کے ملک میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک ساتھ غیر متزلزل کمٹ منٹ کا اظہار کر رہے ہیں۔ عمران خان فکری مغالطے پیدا کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے پسند کا آرمی چیف لگایا مگر اس کے باوجود حکومت ختم ہوگئی اور یہ کہ ہمارے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بنگلہ دیش سے زیادہ ہے۔
عمران خان اور ان کا گروہ فکری مغالطے اور دانشورانہ گمراہیاں پیدا کرنے میں مضحکہ خیز مہارت رکھتا ہے اور جب وہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش بن سکتا ہے تو وہ شرم نہیں کرتا کہ اس سے پہلے وہ پاکستان کے سری لنکا بننے کی پیشینگوئیاں بھی کر چکا ہے جب سری لنکا ڈیفالٹ ہوا تھا۔ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ عمران خان اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ کے ملک کو ڈیفالٹ کرنے کی بارودی سرنگیں بچھا کے گیا تھا۔ اس نے آخر دم تک ملک کی معاشی موت کی منصوبہ بندی کی مگر وطن کو ڈیفالٹ سے اسی ٹیم نے بچایا جس کی کوارڈی نیشن پر وہ آج شکوک وشبہات پیدا کر رہا ہے۔ کیا یہ شخص پاکستان کے بارے میں کوئی اچھی مثال نہیں دے سکتا۔ اس کے اندر مادر وطن کے لئے اتنا بغض اور نفرت کیوں بھری ہوئی ہے کہ یہ اقتدار سے الگ ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ پاکستان پر ایٹم بم پھینک دیا جائے۔
عمران خان کی خواہش تباہی اور عدم استحکام ہے مگربنگلہ دیش اور پاکستان کے حالات میں ہمیں یہ بنیادی فرق ملحوظ رکھنا ہوگا کہ بنگلہ دیش میں انقلاب فوج کی مدد سے آیا ہے جبکہ عمران خان پاکستان میں فوج کے خلاف بغاوت کی سازش کرتا رہا ہے۔ نو مئی پہلی نہیں، دوسری کوشش تھی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے ڈیڑھ برس پہلے نومبر کے آخر میں لاہور سے راولپنڈی تک ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ اس لانگ مارچ نے عین اس وقت راولپنڈی پہنچنا تھا جب آئینی اور قانونی طریقے سے مقرر کئے گئے آرمی چیف نے کمان سنبھالنی تھی مگر وہ سازش اس وقت ناکام ہوگئی جب اس لانگ مارچ میں کسی ایک موقعے پر بھی دس ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت نہ کی جیسے لاہور کے لبرٹی چوک میں پانچ ہزار کے لگ بھگ، گوجرانوالہ میں تین ہزاراور اپنی انتہا پر دس ہزار کے لگ بھگ۔
عوامی انقلاب کے لئے عوام کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی تمام طاقت سوشل میڈیا پرکرائے کے جعلی یا بوٹ اکاونٹس کے ذریعے ہے۔ سچ تویہ ہے کہ عمران خان، پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی کوشش گذشتہ برس نو مئی کو کر چکاہے اور اس میں ناکام ہو چکا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی پارٹی کے لوگ جی ایچ کیو، کورکمانڈر ہاوسز سمیت فوجی تنصیبات پر قبضے کر لیں اور خیال تھا کہ اس کے بعد وہ اپنا آرمی چیف اور اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کر دے گا مگر وہ جناح ہاؤس کو کھنڈر بنانے، سی ایس ڈی شاپس کو لوٹنے، سینکڑوں گاڑیاں جلانے اور شہدا کی یادگاروں کو گرانے کے باوجود ناکام رہا، اب اس کی کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ گروہ 8فروری کے انتخابات میں فارم پینتالیس، سینتالیس کے نعروں سے دھوکا دیتا ہے، کہتا ہے کہ اس نے180 نشستیں جیتیں حالانکہ انہوں نے جتنی نشستیں جیتیں ان میں سے بارہ ری کاؤنٹنگ میں ہار گئے۔ فارم 45کانعرہ 35پنکچروں جیسا جھوٹا اور گمراہ کن ہے جسے عمران خان نے بعد میں خود سیاسی نعرہ یعنی ایک فریب اور جھوٹ کہا۔ یہ اکثریتی حلقوں کے فارم 45 ظاہر ہی نہیں کرتے جبکہ اس کے مقابلے میں الیکشن کمیشن نے تمام آپ لوڈ کر رکھے ہیں۔
ان کی بنائی ویب سائیٹ پر بغیر دستخطوں کے فیک، فوٹوشاپڈ فارم 45بھرے پڑے ہیں۔ ان کا جنرل سیکرٹری عمر ایوب خود دھاندلی سے جیتی ہوئی سیٹ پر ری کاؤنٹنگ کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے حکم امتناعی لے کر اسی طرح بیٹھا ہوا ہے جیسے ان کاڈپٹی سپیکر قاسم سُوری تین برس تک 50ہزار مشکوک ووٹوں پر اسٹے آرڈر لے کر ڈپٹی سپیکر کی سیٹ پر رہا اور وہاں سے آرٹیکل 6کا ملزم بن کے رخصت ہوا۔ ان کا فارم پینتالی، اصل میں جھوٹو جھوٹ چوتالی، کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے سیاسی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے، بنگلہ دیش میں حسینہ واجد پندرہ، بیس برس سے اپنے مخالفین کو پھانسیاں دے رہی تھی۔ اس نے سرکاری نوکریاں ذہین بنگالی نوجوانوں سے چھین کر کوٹہ سسٹم پر مکتی باہنی کے بدمعاشوں کے بچوں کے حوالے کر رکھی تھیں۔
عمران خان کے حامی سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کے طلبا بھی حکومت کے خلاف نکل سکتے ہیں مگر ایک طالب علم رہنما نے کہا کہ وہ ایسا کیوں کریں گے کہ اس نے حکومت سنبھالنے کے بعد لیپ ٹاپ سے ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ سے ایجوکیشن فاؤنڈیشن تک کا بیڑہ غرق کر دیا، اس نے نوجوانوں کو دھوکا دیا اور اقتدار ملتے ہی صوبے بزداروں، محمود خانوں اور گنڈاپوروں کے حوالے کر دئیے۔
آج بھی ایم بی بی ایس کئے ہوئے ہزاروں بے روزگار پھر رہے ہیں کیونکہ اس نے نوکریوں کے دروازے بند رکھے اور ڈاکٹروں کو ایڈہاک نوکریاں کئی کئی لاکھ رشوت لے کردیں۔ کرونا کے دوران اس کے تعلیم کے وزیروں شفقت محمود اور مراد راس نے کروڑوں طالب علموں کے مستقبل تباہ کرکے رکھ دئیے۔ یہ طالب علموں کے ہیرو کیسے ہوسکتے ہیں یہ ان کے مجرم ہیں۔
مجھے عمران خان سے کہنا ہے کہ ان کی پیشین گوئیوں پر پاکستان نہ سری لنکا بنا ہے اور نہ ہی کوئی دوسری تباہی یہاں پر آئے گی، انشاء اللہ، ان کے موازنے معیوب بھی ہیں اور بدنیتی پر مبنی بھی، یہ ملک خدا کی دین ہے اور خدا اس کی حفاظت خود کرے گا۔ یہ مدینہ منورہ کے بعد کلمہ طیبہ پر بننے والی دوسری ریاست ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اگر ہم معاشی تباہی سے بچ گئے ہیں تو سیاسی تباہی سے بھی بچ جائیں گے جس کے خواب وہ جیل میں بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔
وہ صرف یہ بتائیں کہ نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کی باتیں کرنے والے اندرا گاندھی سے شیخ مجیب تک آج کہاں ہیں اور کس موت کا شکار ہوئے۔ میں انہیں وارننگ دیتا ہوں کہ خدا پاکستان کے دشمنوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرتا ہے، وقت ہے کہ وہ سنبھل جائیں، معافی مانگیں، توبہ کرلیں، اپنا راستہ درست کر لیں۔