میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کیوں ہوں
میں نہیں جانتا کہ اکتوبر کے آخر تک کیا ہوگا۔ قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پربرقرار رہیں گے یا نہیں۔ یعنی وہ ایسی آئینی ترمیم ہوسکے گی یا نہیں جس کے تحت چیف جسٹس کے عہدے کی مدت آرمی چیف کے عہدے کی مدت کی طرح تین برس مقرر ہو جائے یا ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ ہوجائے جن دونوں تجاویز پر اب تک کے مؤقف کے مطابق مولانا فضل الرحمان ویٹو کرچکے ہیں سو بظاہر یہ تجاویز ڈراپ ہو چکیں۔
متبادل تجویز یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ ایک آئینی عدالت کے سربراہ ہوں۔ ایک آئینی عدالت کیوں ہونی چاہیے اس کی بہترین وضاحت پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کرچکے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ضروری بھی ہے اورمجبوری بھی ہے۔ اس تنازعے میں جب میں خود سے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کیوں ہوں تو میرا پہلا جواب یہ ہوتا ہے کہ اگر میں ان کے ساتھ نہیں ہوں تو کیا ان کے مخالفین کے ساتھ جا کر کھڑا ہوجائوں جن کے کردار سے حب الوطنی تک سب مشکوک ہے، نہیں نہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے مخالفین کون ہیں؟ میری نظر میں ان میں کچھ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ وہ جج بھی شامل ہیں جو خود کو ہمیشہ آئین سے بالاتر اور پارلیمنٹ پر بالادست سمجھتے رہے۔ خود کو ایسا سمجھنے والے جسٹس منیر بھی تھے جنہوں نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا، جسٹس مشتاق بھی تھے جنہوں نے بھٹو شہید کو پھانسی کی سزا دی اور جسٹس ارشاد حسن خان بھی تھے جنہوں نے ایک آمر کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا، اسی کے تسلسل میں، ابھی حال ہی میں دیکھ لیجئے کہ کچھ ججوں نے اپنی مرضی کا فیصلہ دینے کے لئے آئین کو ری رائیٹ کر دیا۔
قاضی فائز عیسیٰ ان میں سے نہیں ہیں۔ انہوں نے عدالتی فعالیت کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تحفظ کیا ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ جب ہر کوئی اختیارات کے لئے بائولا ہوا پھر رہا ہے تو ایسے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی توثیق کے ذریعے اپنی شخصیت کی بجائے اپنے ادارے کومضبوط بنایا کیونکہ شخصیات چلی جاتی ہیں اور ادارے موجود رہتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ جن کو اختیارات ملے انہوں نے ان اختیارات کے ساتھ کیا انصاف کیا مگر قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نیا ٹرینڈ دیا۔ جہاں ہرکوئی اختیارات کے حوالے سے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بننا چاہتا ہے وہاں انہوں نے دوسروں سے شیئر کرنے کی روایت ڈالی، چیف جسٹس کی بادشاہت کا خاتمہ کیا۔
میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اس لئے بھی ہوں کہ انہوں نے جرأت اور بہادری کی تاریخ رقم کی ہے۔ میں نے عین آئینی اور جمہوری دور میں بڑے بڑے ججوں کو کرپشن کے الزامات لگنے پر بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جن پر الزامات سامنے آئے اور وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کرسکے اور وہ بھی ہیں جو الزامات کے باقاعدہ سامنے آنے سے پہلے ہی ان کی سچائی کے سامنے سرنڈر کر گئے۔
میاں نواز شریف بہت سادگی سے پوچھتے ہیں کہ وہ تو چیف جسٹس بننے والے تھے، کیا ہواکہ وہ استعفیٰ دے کر چلے گئے۔ جب فیض حمید اور عمران خان کی آمریت کا سورج نصف النہار پر تھا تو مرد درویش قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا ڈٹ کر دفاع کیا۔ سلام ہے ان کی اہلیہ پر بھی جنہوں نے اپنے شوہر کا اس مشکل اور مصیبت میں ساتھ دیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ جب وہ بطور چیف جسٹس عہدے کا حلف لے رہے تھے تو محترمہ سرینا عیسیٰ ان کے ساتھ محبت، عزم اور استقامت کا استعارہ بن کے کھڑی تھیں۔
الحمدللہ، خاندانی ایسے کہ والد قاضی محمد عیسیٰ، قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھی رہے اور آ ل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ کے کم عمر ترین رکن۔ قرارداد لاہور (یعنی قرارداد پاکستان) والے جلسے میں انہوں نے بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہوئے تقریر بھی کی۔ ظرف ایسا اعلیٰ کہ صحافیوں سمیت جن پربھی انہوں نے احسان کئے جب وہ ڈالروں کی محبت میں اپنے یوٹیوب چینلوں سے ان پر حملہ آور ہوئے تو ان سے شکوہ تک نہیں کیا اور ابھی حال ہی میں اس بے ہودہ شخص کو معاف کر دیا جس نے ایک بیکری کے اندر ان سے اور ان کی اہلیہ سے بدتمیزی کی۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پروٹوکول نہیں لیتے، ان کے لئے ہٹو بچوکی آوازیں نہیں لگائی جاتیں جیسے ابھی ایک زمانہ قریب کے چیف جسٹس ہسپتالوں تک میں جاکے برتن کھڑکاتے پھرتے تھے، ڈیم بنانے کے نام پر لوگوں کو ڈیم فول بناتے تھے اور کہتے تھے آئین اور قانون وہ ہے جو وہ کہیں۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں۔
ہم نے یہاں پر کمپیوٹروں کو سپریم کورٹ کے ججوں کے لئے بڑے بڑے قیمتی پلاٹ نکالتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ وزیراعظم بننے والے تین تین سو کنال زمین جعلی کمپیوٹرائزڈ رسیدوں پر لے گئے ہوں مگر یہ قاضی فائز عیسیٰ کی امانت اور دیانت ہے کہ انہوں نے ریاست سے پلاٹ لیا نہیں بلکہ اسے اپنا وراثتی قیمتی پلاٹ دے دیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ستترویں یوم آزادی پرزیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی کے ساتھ اپنی اکتیس ہزار چھ سو اسی فٹ زمین بلوچستان حکومت کو عطیہ کردی حالانکہ وہ اس اہم ترین جگہ کو اپنے ذاتی اور کاروباری مقصد کے لئے بھی استعمال کرسکتے تھے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے اعلیٰ ظرف، باکردار، دیانتدار اور محب وطن شخص کا ساتھ کیوں نہ دیا جائے؟
میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اس لئے بھی ہوں کہ ان کے مخالفین امانت اور دیانت سمیت ان تمام اعلیٰ اوصاف سے محروم ہیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا سو مجھے کوئی حیرت نہیں جب و ہ ان سے خوفزدہ ہوتے ہیں، ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ چاند کی طرف منہ کرکے تھوکنے والوں کا اپنا ہی منہ گندا ہوتا ہے۔
مجھے حیرت اس وقت ہوتی اگر وہ لوگ قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ہوتے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انہیں عدالتی منظرنامے پر موجود رہنا چاہئے تو میرا جواب ہے کہ حکومت کواس کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ یہ درست ہے کہ شخصیات نہیں بلکہ ادارے اہم ہوتے ہیں مگر یہ بھی درست ہے کہ شخصیات ہی ہوتی ہیں جو اداروں کو بناتی اور بگاڑتی ہیں سو اچھے افراد کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
میرا پورا یقین ہے کہ اگر قاضی فائز عیسیٰ جیسی شخصیت موجود ہوگی تو پاکستان کی عدلیہ ہرگز، ہرگز دنیا بھر کے عدالتی نظاموں میں آخری نمبروں پر نہیں ہوگی۔ اس وقت دھڑے بندی واضح ہونے کے بعد صف بندی بھی ہوچکی ہے اور اگر اس وقت تمام محب وطن حلقے قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے تو وہ جیت جائیں گے جن کی قیادت اور کمان اس شخص کے ہاتھ میں ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمدمرحوم، حکیم محمد سعید شہید اور عبدالستار ایدھی مرحوم پوری قوم کو خبردار کرکے گئے تھے۔