مریم کی مسیحائی
جس وقت ہم سب آئینی ترمیم کی خبر کے پیچھے بھاگ رہے تھے اس وقت ایک حقیقی، بڑی اور اچھی خبر تشکیل پا رہی تھی۔ ہر سال دل کے مریض پانچ ہزار سے زائد بچوں کی زندگیاں بچانے کے تاریخی پروگرام کا آغاز ہو رہا تھا۔ مریم نواز کہہ رہی تھیں کہ وہ وزیراعلیٰ نہیں ایک ماں کے طور پر اس منصوبے کا آغاز کر رہی ہیں۔ وہ بتا رہی تھیں کہ بچوں کے لئے اپنی نوعیت کی پہلی علاج گاہ میں خیبرپختونخوا اور دیگر صوبوں کے بچوں کا بھی مفت علاج ہوگا یعنی یہ پنجاب کے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے پختون، سندھی، بلوچی، کشمیری بچوں کے لئے زندگی کا تحفہ ہوگا۔
مجھے یاد آ گیا کہ میں نے لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ایک پروگرام کیا تھا جس میں وائے ڈی اے کے رہنما مجھے وہاں قائم سرائے میں لے گئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ بچوں میں کینسر کا علاج کروانے کے لئے خیبرپختونوا ہی نہیں بلکہ افغانستان تک سے والدین آئے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کے پی حکومت کے تو صحت کے شعبے میں بہت دعوے ہیں۔ آپ پشاور یا ایبٹ آباد سے علاج کیوں نہیں کرواتے۔ جواب ملا کہ جو علاج لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں مفت ہو رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سرائے میں دوپہر کا کھانا بھی مل رہا ہے اسکے خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں بیس سے ساٹھ لاکھ روپے مانگے جا رہے تھے۔
چلڈرن ہسپتال کا خواب پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے اجلاس میں دیکھا گیا تھا اور یہ 1990ء میں قائم ہوا تھا۔ چلڈرن ہسپتال بھی پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرح میاں نواز شریف کا تحفہ ہے جو اب تک کسی دوسرے صوبے کے پاس نہیں۔ مریم نواز دل کے مریض بچوں کے مفت علاج کے لیے ایک قدم آ گے چلی گئی ہیں اور یہ قدم اتنا بڑا ہے کہ میرے خیال میں اس کی ہر صاحب اولاد کو تعریف کرنی چاہئے چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔
نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ ہم اس کی وہ پذیرائی نہیں کرسکے جو ہمیں کرنی چاہیے تھی بالکل اسی طرح جیسے آج سے بارہ، تیرہ برس پہلے شہباز شریف نے لاہور کے جناح ہسپتال سے کینسر کے مریضوں کی مفت ادویات کی فراہمی کا آغاز کیا تھا۔ کینسر کے ایک مریض کی ایک ماہ کی دوا پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپوں تک کی آتی ہے۔ ہمیں ان کے اس عظیم کارنامے کا اس وقت پتا چلا تھا جب اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال بنا کے شہرت پانے والے وزیراعظم کے دور میں کینسر کے غریب مریضوں کی مفت ادویات بند کر دی گئی تھیں۔
میری ان مریضوں کے ساتھ پہلی ملاقات مال روڈ پر ایک تپتی دوپہر میں ہوئی تھی اور اس احتجاج میں پسینہ زیادہ آیا تھا یا آنسو اس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا۔ اس سے پہلے مریم نواز کلینک آن وہیلز کے ساتھ ساتھ ادویات کی مفت گھروں تک فراہمی کے منصوبوں کا بھی آغاز کر چکی ہیں جو ہارٹ، کڈنی اور شوگر سمیت بہت سارے ایسے امراض کے لئے ہیں جو عام ہوچکے ہیں۔
بات ہور ہی ہے دل کے مریض بچوں کے حوالے سے، ان کا دکھ، درد اور کرب جاننا ہے تو ان کے والدین سے پوچھیں۔ بتایا گیا ہے کہ دل کے بروقت آپریشن کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ہر برس پانچ ہزار بچے وفات پا جا تے ہیں۔ ہر سو بچوں میں سے ایک بچہ دل کے مرض کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے جن میں سے بیشتر نازک صورتحال کا شکار ہوتے ہیں۔ صرف پنجاب میں ہر ہفتے دل کے مریض سو بچوں کی پیدائش ہو رہی ہے۔ اس وقت علاج کے منتظر بچوں کی تعداد بارہ ہزار ہے۔
پنجاب کے چھ سرکاری اور آٹھ پرائیویٹ ہسپتالوں میں ان بچوں کا علاج ہوسکتا ہے اوراسکے لئے پنجاب میں انیس کارڈیالوجسٹ اور بارہ کارڈیک سرجن موجود ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے وسائل ایک ساتھ استعمال کرنے کے لئے چیف منسٹر ہارٹ سرجری پروگرام تشکیل دیا گیا ہے۔ مریض بچوں کا سرکاری ہسپتال میں جگہ نہ ہونے پر پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج ہوگااور سینٹر ویٹنگ لسٹ کا خود سی ایم سٹیئرنگ کمیٹی جائزہ لے گی۔ مجھے اس منصوبے سے لگتاہے کہ بھائیوں کی طرح محترم خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر خود بھی جنتی ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنی وزیراعلیٰ کو بھی جنتی کر لیا ہے۔
بہت سارے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ میاں محمد شریف کے بچوں کے پاس وہ کون سا اسم اعظم ہے کہ یہ جب بھی ڈوبنے لگتے ہیں تو سمندر انہیں اچھا ل دیتا ہے۔ آزمائش آتی ہے تو سرخرو نکلتے ہیں۔ اپنے اپنے وقت کے آمر انہیں جیلوں میں ڈالتے ضرور ہیں مگر اس کے بعد وہی ادارے اپنی اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرتے ہیں، ان کے لئے جیلوں، جلاوطنیوں کے فیصلے کرنے والے ان کی طاقت اور اختیار تسلیم کرتے ہیں۔
مجھے تعصب، نفرت اور جہالت والوں سے کلام نہیں کرنا مگر اہل علم اور اہل دل سے ضرور پوچھنا ہے کہ کیا یہ عام با ت ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف ایک مرتبہ پھر بادشاہ گر ہیں، ملک کی وزارت عظمیٰ اور سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ ان کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی ہے۔ کیا یہ اس وجہ سے نہیں کہ انہیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں، کروڑوں کی دعائیں ملتی ہیں جب وہ ایسے کسی بھی ہسپتال میں جاتے ہیں جیسے دل اور بچوں کے ہسپتال کے علاوہ انہی کے بھائی کا قائم کیا ہوا جگر اور گردوں کا ہسپتال پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ۔
بہت سارے لوگ میاں نواز شریف کے دور کی جدت اور ترقی کو اپنی جہالت یا تعصب کی بنیاد پر نظرانداز کردیتے ہیں مگر آج کا جدید پاکستان ان کا مقروض ہے، ان کا شکرگزار ہے کہ ان کے ادوار میں نئے ائیرپورٹس، میٹروز اور موٹرویز ہی نہیں ملیں بلکہ صحت کے شعبے میں بھی کمال برپا ہوئے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے بھی سندھ میں تین سے چار سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنائے ہیں مگر پنجاب ان سے پیچھے نہیں ہے بلکہ کئی حوالوں سے آگے ہیں، بہت آگے۔
میں سمجھتا ہوں ہماری صوبائی حکومتوں کے درمیان ایسا ہی مقابلہ ہونا چاہئے مگر دوسری طرف مجھے اپنے پختون بھائیوں کی قسمت دیکھ کے افسوس ہوتا ہے۔ ا ن پرمحمود خان کے بعد گنڈاپور صاحب مسلط کر دئیے گئے ہیں جن کا کردار اور گفتار دونوں ہی سب کے سامنے ہیں۔ وہ لوگ جو نیا پاکستان بنانے کے دعوے دار تھے انہوں نے آدھے سے زیادہ پاکستان کی مینجمنٹ عثمان بزدار کے حوالے کر رکھی تھی، کیا آپ عثمان بزدار کا مقابلہ مریم نواز کی شخصیت یا گورننس سے کرسکتے ہیں، ہرگز نہیں، آپ کو ایک روز ضرور ماننا پڑے گا کہ پنجاب میں ایک انقلاب برپا ہونے جا رہا ہے۔
مریم نواز، اپنے والد اور چچا کی شفقت اور رہنمائی کے ساتھ پہلے سے بڑھ کے انقلابی منصوبے لا رہی ہیں۔ ان کے مخالفین کے اوسان یوں خطا ہیں کہ یاوہ گوئی پر اتر آئے ہیں۔ میں ان کی اب تک کی پرفارمنس دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ بہت جلددوسرے صوبے بھی مطالبہ کریں گے کہ انہیں بھی ایک ماں چاہئے، وہ ماں جو ان کے بھی دُکھ اوردرد سمیٹ لے۔