خیبرپختونخوا میں کیا ہو رہا ہے؟
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو مینڈیٹ ملا، اس سے کسی نے انکا رنہیں کیا حتیٰ کہ اس طاقتور ادارے نے بھی نہیں جو نو مئی کو نشانہ بنا۔ بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور کو ان کی جارحانہ شخصیت اور نو مئی کے مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ کے عہدے پر نامزدکیا تواس کا بھی ا س حد تک خیرمقدم کیا گیا کہ کور کمانڈر پشاور نے ان کے آئینی اور جمہوری عہدے کا احترام کرتے ہوئے امن و امان کے حوالے سے بریفنگ کے لئے کابینہ سمیت دعوت دی حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب بانی پی ٹی آئی اپنی اہلیہ کے قتل کے حوالے سے ملک کی اہم ترین شخصیات پر بدترین الزام تراشی کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی اہلیہ کو زہر دیا جا رہا ہے مگر میڈیکل رپورٹس سے پتا چلا کہ انہیں محض معدے میں روایتی تیزابیت کا مسئلہ ہے۔ ایک طرف سی بی ایمز تھے اور دوسری طرف محاذ آرائی، نو مئی کا تسلسل۔ سب سے بدترین بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے ادارے ان لوگوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں جو پی ٹی آئی کی ذہنی غلامی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ہمایوں دلاور، آئین اور قانون کی بالادستی اور انصاف کی جدوجہد کرنے والے خیبرپختونخوا بار کے سب سے بزرگ رکن دلاور خان کے صاحبزادے ہیں۔ دلاور خان نے 1956ء میں بائیس برس کی عمر میں بار کی رکنیت حاصل کی۔ ہمایوں دلاور ہی وہ جج ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ کو شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر توشہ خانہ کیس میں سزا دی۔ اس تعارف کے بعد ہم دوبارہ خیبرپختونخوا کی طرف آتے ہیں جہاں ایک طرف پی ٹی آئی اپنے مخالفین کوزچ کر رہی ہے وہاں دوسری طرف خوداس کے اندر بھی لڑائیاں جاری ہیں۔
علی امین گنڈا پور نے اپنی پارٹی کے اندر بھی مخالفین کو نشانہ بنا رکھا ہے جیسے شکیل خان، جنید اکبر، عاطف خان، شیر علی ارباب اور بہت سارے دوسرے۔ اگلی کہانی میں آپ کوبیرسٹر عثمان علی، پی ایچ ڈی، کی زبانی سناتا ہوں۔ گنڈا پور اور ان کی فیملی نے، پاک فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈئیرمحمود شاہ کے مطابق اپنا ایک ٹیررسٹ گروپ، بھی بنا رکھا ہے اور جو بھی اسے ایکسپوز کرتا ہے اسے نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔ شمس مومند اور عقیل یوسفزئی جیسے بہادر صحافی اس کی مثالیں ہیں جنہوں نے ان کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے انٹرویوز کئے تو وہ نشانے پر رکھ لیے گئے۔ ہمایوں دلاور اور ان کے والد کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
بیرسٹر عثمان علی کے مطابق 1969ء میں دلاور خان، جو کہ ایک کامیاب وکیل تھے، نے بنوں کے نواح میں بنجر اور بے آباد زمین کا ایک بڑا ٹکڑا خریدا۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس خطے پر ایک ہاوسنگ سوسائٹی بنا لی جائے کیونکہ ان کے صاحبزادگان صادق دلاور، ہمایوں دلاور اور شاہد دلاور اپنی سرکاری اور دیگر مصروفیات کی بنا پر زراعت کے لئے وقت نہیں نکال سکتے تھے۔ یہ محمود خان کی وزارت اعلیٰ تھی جب ایلیٹ کمیونٹی ریذیڈیشیا کا آغاز ہوا۔ اس کی باقاعدہ تقریب کمشنر بنوں ارشد خان کی زیر صدارت ہوئی جو اب سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ہیں۔ اس میں پی ٹی آئی کے تحصیل ناظمین جنید رشید اور پیر کمال نے بھی شرکت کی۔
جنید رشید جو کہ اس وقت ککی کے تحصیل ناظم تھے انہوں نے اس منصوبے کی بھرپور حمایت کی اور اسے بنوں کی ترقی میں سنگ میل قرار دیا۔ اسی موقعے پر ایک ڈسٹرکٹ سکروٹنی کمیٹی کی میٹنگ بھی ہوئی جس میں پی ٹی آئی کے ناظمین سمیت بیس محکموں کی طرف سے اس پروجیکٹ کو این او سی دیا گیا۔ سوسائٹی کی زمین کی حدود بھی واضح تھیں اور ماحولیات سمیت کسی کو اعتراض بھی نہیں تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یوٹیوبرز کے ذریعے الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس پراجیکٹ کے لئے موجودہ وزیراعلیٰ کے بھائی فیصل امین کو بھی اپروچ کیا گیا تاکہ زمین کی منتقلی ہو سکے مگر یہ کام تو عدالتی فیصلے کے ذریعے پندرہ جون2022ء کو ہوا، بہرحال یہ قانونی معاملات تھے جو قانون کے مطابق ہی طے ہوئے۔ اگراس میں سرکاری زمین شامل تھی اور صوبے سے ڈویژن اور ضلعے تک کے تمام حکام اس کی منظوری اور افتتاح میں کیوں شریک تھے؟
اب اگلی کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ہمایوں دلاور نے تاریخی فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے بعدانہیں نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ حکومتی اور سماجی سطح پر بھی ہراساں کرناشروع کیا گیا بلکہ اینٹی کرپشن سمیت دیگر اداروں کا رخ بھی ان کی اور ان کے والد کی طرف کر دیا گیا۔ جب کہیں سے کچھ نہ ملا تو الزام لگا دیا گیا کہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں سرکاری زمین شامل کی گئی ہے اور یہ کہ ایک سڑک اورپُل کی تعمیر غیر قانونی طور پر کی گئی ہے۔
اب دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فیصلے سے پہلے اس پرسرکاری زمین والا کوئی الزام اور کوئی اعتراض نہ تھا، کہا جا رہا ہے کہ اینٹی کرپشن کے چار افسران جنہیں اگست کے وسط میں ٹرانسفر کر دیا گیا، انہیں اسی شرط پر رکھا جا رہا ہے کہ وہ سختی کریں اور دوسرے یہ کہ جس سڑک اور پُل کی بات کی جا رہی ہے وہ قیام پاکستان سے بھی پہلے کا ہے او ر اس کی تعمیر نو کی منظوری ہی شاہ محمد کی طرف سے تھی جو اسی علاقے سے ایم پی اے اور سابق وزیر ٹرانسپورٹ تھے۔ اب یہاں سے کے پی حکومت نے ڈبل بلکہ ٹرپل گیم شروع کر دی ہے۔
ایک طرف دلاور خان کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور دوسرے اس کے ڈانڈے شکیل خان کے ساتھ ملائے جا رہے ہیں جو اس وقت گنڈا پور حکومت کے نشانے پر ہیں۔ الزام یہ ہے کہ شکیل خان نے اس سڑک اور پُل کو سرکاری خزانے سے بنا کے اس سوسائٹی کوفائدہ پہنچانے کی کوشش کی جبکہ اس کے بارے حقائق پہلے ہی واضح کئے جا چکے۔ یہ سب ہماری روایتی سیاست کے پرانے ہتھکنڈے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ خیبرپختونخوا جس میں اتنا پوٹینشنل ہے کہ وہ اپنے وسائل سے پنجاب اور سندھ کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے، انتقامی کارروائیوں میں وقت اور توانائیاں صرف کرنے والی حکومت کی وجہ سے آج بھی تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر سمیت ہر شعبے میں پیچھے ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ ہر وہ شخص جو پی ٹی آئی کے بانی کا ذہنی غلام اور حکومت کا ساتھی نہیں ہے تو کیا وہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنتا رہے گا اور کوئی بھی نہیں پوچھے گا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی لڑائی ہر اس شخص کے ساتھ ہے جو اپنے صوبے اور ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ جو نو مئی جیسی دہشت گردی اور توشہ خانہ لوٹے جانے کے خلاف ہے۔ جو اس امر کی مخالفت کرتا ہے کہ پاکستان کی اکنامک لائف لائن توڑنے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو خط لکھے جائیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ خیبر پختونخوابار کے سب سے بزرگ قانون دان رکن سے ہونے والی اس زیادتی پر سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت کو نوٹس لینا چاہئے اور اس لئے بھی کہ یہ ایک ایسے فیصلے کا نتیجہ ہے جو کرپشن کے خلاف تھا۔