بلوچ اپنے اصل دشمن کو پہچانیں
بصد احترام! اب ہمیں اصولی، کتابی، اچھی اچھی باتوں سے باہر نکل آنا چاہئے کیونکہ یہ کسی اصول اورنظرئیے کی نہیں مفادات کی جنگ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ بی ایل اے اوراس کے حامی بلوچستان کے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں کیونکہ حقوق کا تعلق تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر سے ہوتا ہے، ترقی اور خوشحالی سے ہوتا ہے مگر ا ن کی لڑائی ان سب کے خلاف ہے۔
خاکم بدہن، وہ شیخ مجیب الرحمان کی طرح پاکستان کو توڑنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں کہ اگر یہ لڑائی حقوق کی ہوتی تو وہ گوادر پورٹ کے کمپلیکسپر خود کش حملہ کرنے کی بجائے اس کے سب سے بڑے محافظ ہوتے۔ وہ سبی ہرنائی ریلوے ٹریک اڑانے کی بجائے سی پیک کے تحت شاہراوں اورانڈسٹریل ایریاز پر کام تیز کرنے کے لئے سیمینار اور واکس کر رہے ہوتے کیونکہ اس کے نتیجے میں وہاں ترقی اور خوشحالی آنی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان بلوچوں کی فی کس آمدن بڑھنی ہے جو اپنے سرداروں کی شاہانہ زندگی کے مقابلے میں، معذرت کے ساتھ، جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
سبی ہرنائی ٹریک اڑانے کی بات ہی کر لیجئے، یہ ان اضلاع کے لئے ایک انقلاب تھا جو سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار کے لئے دنیا کا بہترین علاقہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کسانوں کی رسائی کوئٹہ سمیت دیگر مارکیٹوں تک آسان، ان کی اجناس کی قیمتیں لگنا شرو ع ہوگئیں تھیں۔
اسی طرح سی پیک اور گوادر پورٹ کی تکمیل سے خواب مکمل ہوتے ہیں کہ اس سے عام بلوچوں کو کاروبار اور روزگار ملے گا، ان کی فی کس آمدن بڑھے گی، وہ اس آمدن سے بچے پیدا کرتی ہوئی اپنی سب سے زیادہ مرتی ہوئی مائوں کی جانیں بچا سکیں گے، وہ اپنے نوزائیدہ بچوں کو صحت اور بڑھتے ہوئے بچوں کو تعلیم دے سکیں گے۔ ایک شاندار صحت کا حامل پڑھا لکھا بلوچ جب اچھی ملازمت کرے گا یا اپنا کاروبار کرے گا تو وہ ہزاروں اور لاکھوں کمائے گا، اس کے بعد وہ ان سرداروں کا غلام نہیں رہے گا۔
اب آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کون سے سردار، بصد احترام، کڑوا سچہے کہ وہ سردار جو اقتدار لیتے ہیں تو رائلٹیوں اور فنڈزکے لئے اسلام آباد پر چڑھ جاتے ہیں اور اقتدار سے نکلتے ہیں تو دلی سے مال کے لئے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے جو صاحب لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ شہیدوں کے لہو کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے انہی کی کچھ ہی عرصہ پہلے کی ویڈیو میرے فون میں اس وقت بھی موجود ہے جس میں وہ بندوق اٹھانے، پہاڑوں پر چڑھ جانے کی وکالت کر رہے ہیں۔
وہ صاحب جنہوں نے ابھی استعفیٰ دیا ہے کیا یہ سچ نہیں کہ بطور وزیراعلیٰ وہ ایٹمی دھماکوں کے موقعے پر بھی نواز شریف کی گاڑی ڈرائیو کرتے رہے ہیں اور اب چونکہ ان کے پاس کوئی بڑا عہدہ نہیں تو وہ دوبارہ انقلابی بن گئے ہیں۔ وہ صاحب جو شہباز شریف کی دونوں مرتبہ کی وزارت عظمیٰ کے دوران اہم ترین عہدے پر رہے وہ پنجاب کے ساتھ محبت کی باتیں کرتے تھے لیکن جب وہ باپ، بنانے کی طرف آئے توانہیں پنجاب سے شدید شکوے پیدا ہو گئے اور پھر دوبارہ ختم بھی ہو گئے۔
ایک صاحب جو کہ شہید ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ انہیں نہیں مارا جانا چاہئے تھا مگر وہ بھی گورنر ہاوسز میں رہتے اور بھاری رائلٹیاں لیتے رہے ہیں۔ یہاں بی ایل اے اور ان سرداروں کے مفادات ایک ہوجاتے ہیں۔ کالعدم بی ایل اے چونکہ بھارت کے فنڈز پر چلتی ہے تو وہ تعمیر اور ترقی کے مخالف ہے کہ اس سے امن، استحکام، شعور اور حب الوطنی آئے گی۔
سرداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر انہوں نے پنجاب اور فوج کا ہوا ختم کر دیا تو پھر ان کی نسلوں کے پاس غلاموں کی وہ کھیپ نہیں رہے گی جن سے جوتے سیدھے کروانے کے وہ آبائواجداد سے عادی ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات ان بلوچوں کو سمجھائی جا سکتی ہے جو سرداری نظام میں پید ا ہوتے ہیں۔ بہت سارے واقعات ایسے ہیں جن میں بغاوت کرنے والوں کو، اپنے گھر والوں کی عزتیں بچانے والوں کو یہ سرداراپنی جیلوں میں رکھ کے عبرتناک موت دیتے ہیں اور یوں علاقوں کے علاقے ان سے بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ سردار بی ایل اے کواپنے انہی باغیوں اور نافرمانوں کی لاشیں فراہم کرتے ہیں اور یہ سردار ہمیں بتاتے ہیں کہ انہیں سیکورٹی فورسز نے مارا ہے کہ ان کی آنکھیں نکلی ہوئی تھیں۔ ارے عقل کے اندھو، آنکھیں انہوں نے نکالی ہوں گی جن کے سامنے انہوں نے آنکھیں اٹھائی ہوں گی۔ یہ اتنے شاطر ہیں کہ اپنا انتقام بھی لیتے ہیں، بی ایل اے کو لاشوں کے تحفے بھی دیتے ہیں اور سیکورٹی فورسز پر دبائو بھی بڑھاتے ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پی ٹی آئی سے مولانا فضل الرحمان تک سب کیوں شور مچا رہے ہیں تو میرا سادہ سا جواب ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کی قیمت پر اپنی پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہیں۔ جہاں مولانا فضل الرحمان اقتدار میں حصہ نہ ملنے پر غصے میں ہیں وہاں پی ٹی آئی نو مئی کے بعد اپنے ایجنڈے میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ہر وہ شخص جو ہار گیا ہے اسے بلوچستان کا مسئلہ بہت بڑا لگ رہا ہے حالانکہ یہ وہی مسئلہ ہے جو ہمیشہ سے بھارت کی طرف سے پیدا کیا ہوا ہے۔
کیا یہ دانشورانہ جرم نہیں کہ ہم ایک ہی دن میں چالیس سے زائد افراد کو ان مفاد پرستوں کی طرف سے قتل کئے جانے پر تو افسوس کا اظہار نہیں کرتے مگر ا س پر ٹوئیٹس کے انبار لگا دیتے ہیں کہ کوئٹہ ہوٹل کے چائے پراٹھے ٹھونسنے سے انکار کیوں کیا گیا یعنی بے گناہ پاکستانیوں کا خون کم اہم ہے، کوئٹہ ہوٹل کی چائے زیادہ اہم ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ جو لوگ بی ایل اے اور ان سرداروں کا ساتھ دے رہے ہیں وہ وہی کردارادا کر رہے ہیں جو شیخ مجیب کا ساتھ دینے والے ادا کر رہے تھے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، طاقت کا جواب کبھی پھول نہیں ہوتے۔ جب بات قتلوں تک پہنچ جائے تو معاملہ انصاف سے سنبھلتا ہے، قتلوں کو جواز دینے سے نہیں۔ پنجاب نے ہمیشہ بڑے بھائی والا کردار ادا کیا ہے۔ وہ آج بھی اپنے این ایف سی ایوارڈ سے بلوچستان کو حصہ دے رہا ہے۔ وہ آج بھی وہاں ہسپتال چلا رہا اور تعلیمی ادارے بنا رہا ہے۔ کچھ بلوچ، سیٹلرز کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو وہ سیٹلرز ان کے بچوں کو پڑھا رہے، انہیں علاج کی سہولیات دے رہے ہیں جیسے پنجابی مزدور وہاں ان کی خدمت کررہے ہیں۔
میں نے کہا کہ عام بلوچوں سے بات کی جائے۔ سب جمع تفریق کی جائے۔ بلوچستان کا حق کتنا ہے اور اسے کتنا مل رہا ہے۔ بلوچستان کے سردار اب تک جتنا مال لے چکے ہیں اگر وہ تمام بلوچوں میں مساوی تقسیم کر دیا جاتا تو ہر بلوچ کروڑ پتی ہوتا۔ بلوچ اپنے اصل دشمن کو پہچانیں جو ان کے بچوں، ان کے مستقبل کا دشمن ہے۔