افغان رجیم کا مستقبل

افغانستان میں موجود طالبان رجیم چھ ماہ سے ایک سال کے عرصے میں رخصت ہوتا نظر آ رہا ہے، یہ عین ممکن ہے کہ وہ 2027 کا سورج اپنے اقتدار کے دوران کابل میں طلوع ہوتے ہوئے نہ دیکھیں اور یہ بھی ایک کھلا ڈُلا اندازہ ہے کیونکہ وہ جس تیزی کے لئے اپنے اندرونی و بیرونی مسائل بڑھاتے چلے جا رہے ہیں وہ انہیں تیزی سے لال بتی کی طرف لا رہے ہیں۔
طالبان رجیم کی بنیاد بھی کوئی اخلاقی اور جمہوری اصول نہیں ہے بلکہ امریکہ سے کی ہوئی ایک ڈیل ہے جو قطر میں 29فروری 2021کو کی گئی۔ اس ڈیل میں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صرف دس دنوں میں افغانستان میں ایک سیاسی نظام اور وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے لئے نتیجہ خیز بات چیت شروع کر دیں گے مگر وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے سے مختلف حیلوں بہانوں سے انکاری ہوتے رہے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے ایک سو ترانوے ممالک میں سے کوئی بھی ان کی حکومت کو قانونی اور سفارتی طور پر تسلیم نہیں کرتااور جو ممالک طالبان رجیم کے ساتھ رابطے اور تعلقات میں ہیں وہ سب کے سب ٖڈی جیرے، نہیں بلکہ ڈی فیکٹو، بنیاد پر ہیں جیسے خود پاکستان، قطر یا سعودی عرب سمیت دیگر ممالک۔ روس سے تعلقات قائم ہونے کا بہت شہرہ ہوا مگر وہ معاملہ بھی مشروط ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ طالبان رجیم کے نمائندے کے کاغذات نامزدگی وصول کرنے سے انکار کر چکی اور اس وقت تک افغانستان کا اقوام متحدہ میں نمائندہ اشرف غنی حکومت کا نامزد کردہ ہی چلا آ رہا ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کو بہت فائدہ دیتی ہے اگر افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردانہ حملے جاری رہیں اور پاکستان باقاعدہ حملہ کرکے اس کا جواب دینا چاہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر پاکستان کو افغانستان پر حملے کی دو شرطوں کے ساتھ اجازت دیتا ہے اول یہ کہ پاکستان پر ہونے والا حملہ مسلح ہو، اس کی جغرافیائی سالمیت اور عوامی جان و مال کے تحفظ کے خلاف ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ پاکستان سلامتی کونسل کو اس حملے کے بارے میں باقاعدہ طور پر آگاہ کر دے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت پاکستان کی سرپرستی اور مہربانی سے ہی قائم ہے۔ آپ اسے عمران خان کی حکومت کا ایک اور بلنڈر کہہ سکتے ہیں جو فیض حمید کی سربراہی میں اس دور کی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے ہوا۔ فیض حمید کابل پر طالبان کے قبضے کے اکیسویں دن کابل کے سرینا ہوٹل میں چائے کے کپ کے ساتھ دیکھا گیا۔ ہم اپنے داخلی سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر دوٹوک انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ اورطالبان کے مذاکرات کبھی کامیاب نہ ہوتے اگر بیچ میں پاکستان نہ ہوتا۔
حقیقت تویہ ہے کہ طالبان چاہے وہ پرانے دور کے ہوں یا اس دور کے، قانونی اور سفارتی تقاضے تو ایک طرف رہے اپنی ریاست کی سلامتی کے تقاضوں سے بھی بے بہرہ اور نابلد ہیں۔ یہ نام اسلام کا لیتے ہیں مگر یہ بنیادی طور پر منشیات فروشوں، بدمعاشوں کے مسلح جتھے اور سمگلروں کے گروہ ہیں جنہوں نے طاقت حاصل کر لی ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ ان کی حکومت ایک برس میں جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے تواس کی بنیاد صرف ان کی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔
اتناضرور کہوں گا کہ پاکستان ان کی حکومت کا خالق ہے اور جب مخلوق اپنے ہی خالق پر حملے کرتی ہے تو وہ تباہ ہوجاتی ہے، فنا ہوجاتی ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اقتدار اورطاقت کی بنیاد ہی کوئی آئینی دستاویز یا کوئی ریاستی ادارہ نہیں بلکہ یہی جرائم پیشہ اور دہشت پسند گروہ ہیں لہٰذا وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں ان کے خلاف کارروائی کا وعدہ نہیں کرتے۔
طالبان حکومت کے خاتمے کی دوسری بڑی وجہ ان کے اپنے اختلافات اور لڑائیاں ہوں گی جنہوں نے معدنیات پر قبضوں کی کوششوں کے ساتھ زور پکڑنا شروع کر دیا ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا کہ یہ بنیادی طور پر بدمعاشوں کے گروہ ہیں جن کے اپنے کوئی ذریعہ معاش ہیں اور نہ ہی کوئی صنعت و معیشت کاشعور۔ یہ دیہاڑی باز ہیں اور ان کی دیہاڑی لگنی چاہیے چاہے وہ پاکستان سے لگے یا ہندوستان سے، انہیں اس سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اس وقت معدنیات پر قبضوں کے لئے لڑ رہے ہیں۔
حقانی اور قندھاری طالبان کے پالیسی ایشوز پر اختلافات الگ ہیں جبکہ کئی چھوٹے موٹے وار لارڈز اپنے اپنے علاقوں کے معدنی وسائل کے قبضوں کے لئے مقامی سطح پر باقاعدہ جنگیں کر رہے ہیں جن میں مجموعی طور پر سینکڑوں طالبان مر رہے ہیں۔ تیسری طرف احمد شاہ مسعود کے بیٹے کی قیادت میں شمالی اتحاد اب نیشنل ریزسسٹنس فورس (این آر ایف) کے نام سے متحد ہے اور ازبک تاجک علاقوں میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے کیونکہ طالبان کی بنیاد اور طاقت پشتون ہیں جو اس وقت مختلف سرویز کے مطابق چالیس سے پچاس فیصد کے درمیان ہیں۔ آدھے سے زیادہ افغانستان اس وقت بھی ان کے باقاعدہ کنٹرول میں نہیں ہیں کیونکہ طالبان کی بہت ساری پالیسیوں کو تمام پشتون بھی پسند نہیں کرتے جیسے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ یہ رجیم ایک برس نکال جائے تو بڑی بات ہے تواس کے پیچھے پاکستان سے لڑائی یا ان کی دھڑے بندیاں ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑا فیکٹر ان کی اقتصادی اورمعاشی حالت ہے۔ ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی معیشت والے اس وقت پاکستان سے ٹکر لے رہے اور افغان ٹرانزٹ بند کروا رہے ہیں جب ان کی آدھی سے زیادہ آبادی کے لئے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اپنی ویب سائیٹ پر بھیک اور خیرات کی اپیل لگا رکھی ہے، خدشہ ہے کہ ان سردیوں میں ان کی آدھی آبادی کے پاس کھانے کے لئے پورے پورے دن کچھ نہیں ہوگا۔
بھارت وغیرہ سے چلنے والے بہت سارے سوشل میڈیا اکاونٹس، محمود خان اچکزئی یا اوریا مقبول جان جیسے عناصر جب افغانستان کی ایسی تصویر کھینچتے ہیں جیسے وہ کوئی جنت ہو تو ہنسی آتی ہے کہ اپنے بچوں کو یورپ کی یونیورسٹیوں میں بھیجنے والے، اگر ایسی ہی شاندار صورتحال ہے تو اس پاکستان کو چھوڑکر اپنی فیملیز سمیت افغانستان کیوں شفٹ نہیں ہوجاتے، جی ہاں، اس پاکستان کو چھوڑ کر جس کی یہ ہروقت بدتعریفی کرتے ہیں۔
اچکزئی کی بیٹی، سرکاری یونیورسٹی میں انگریزی کی لیکچرر ہو کے اچھی خاصی تنخواہ لینے کے باوجود پاکستان کے خلاف پوسٹس کرتی ہے، باپ بیٹی پاکستان کو اسرائیل سے بدترقرار دیتے ہیں مگر ان کو شرم نہیں آتی۔ اس وقت دکھ ہوتا ہے جب اقتدار میں شئیر نہ ملنے پر ناراض مولانا فضل الرحمان بھی ڈیورنڈ لائن جیسے ایشو پر افغانیوں کی زبان بولتے ہیں۔ مولانا اگر صدر مملکت نہ بن سکے یا ان کو صوبائی حکومتیں نہ مل سکیں تو اس کامطلب یہ نہیں کہ آپ دشمن کی زبان بولنے لگیں۔ وہ قابل احترام ہیں مگر پاکستان سے بڑھ کے نہیں کہ ہمارا اور ان کا رشتہ ہی پاکستان کی بنیاد پر ہے۔
کاش، افغانستان ایک مہذب ریاست بن جائے ورنہ اس کی تین حصوں میں تقسیم کا منصوبہ بھی بہت سارے ذہنو ں میں ہے۔

