میں رویت ہلال کمیٹی کا چاند، تو میری چاندنی
میں بہ قائمی ہوش و حواس یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں ایک عدد محب الوطن پاکستانی ہوں اگرچہ میرے پاس حب الوطنی کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ نہ ہی میں فخر سے اعلان کرسکتا ہوں کہ میں نے ملک و قوم کی بے حد خدمت کی ہے اور میری کوئی قدر نہیں کی گئی اور میری شرافت کا کوئی مول نہیں پڑا۔ اگرچہ میں سفیررہا، وزیر رہا، شاعر رہا، ادیب رہا تو ایک محب الوطن کے طور پر میرے پاس کچھ نادر مشورے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اس ملک کو معاشی بحران سے باہر لاسکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے اور اگر قومی خزانہ اربوں روپوں کی بچت سے لبریز نہ ہوگیا تو جو ایان علی کی سزا وہ میری! فی الحال صرف تین اداروں کے بینڈ باجے بجا دیجئے۔ انہیں لپیٹ دیجئے، ان کو رخصت کردیجئے۔ یہ قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔ یہ تینوں خسارے کے سودے ہیں۔ محض شوشا ہیں، دکھاوا ہیں، ان کا ملک و قوم کو کچھ فائدہ نہیں۔ آپ فائدہ ثابت کردیجئے تو پھر میری وہی سزا جو ایان علی کی۔ پہلا ادارہ رویت ہلال کمیٹی ہے جو خزانے کے لیے رویت حلال کمیٹی بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا مقصد آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ سوائے اس کے کہ کچھ مولانا حضرات کو اس کا ممبر بنا کر بے شمار مراعات عطا کر کے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ، ہوٹلوں میں قیام، کاریں اور باقاعدہ تنخواہیں دے کر ان کی آتش مزاجی کو ذرا دھیما کرنا ہے۔ اگرچہ محترم منیب الرحمن صاحب ان مراعات کے باوجود آسیہ کیس کے حوالے سے خوب گرجے اگرچہ برسے نہیں۔ ویسے مجھے پشاور والے پوپلزئی بہت پیارے لگتے ہیں کہ ان کے نام میں ایک پوپلاہٹ ہے جو معصوم بچوں کا خاصا ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ منیب صاحب سے بغاوت کردیتے ہیں کہ میں نہیں مانتا۔ اس شام بے ہلال کو با ہلال نہیں مانتا اور صرف میری ڈیوٹی لگا دیجئے میں تھوڑی بہت تحقیق اور پاکستان کے محکمہ موسمیات کی مدد سے اگلے دس برس کی عیدوں کا حساب لگا کر آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔ دنیا بھر میں بے شمار ایسے فلکیات کے ماہر ادارے ہیں جو صرف ایک درخواست سے آپ کو کون سے مہینے کا چاند کب نکلے گا، کی پوری تفصیل بلامعاوضہ مہیا کردیں گے اور یہاں مجھے اگر علامہ انڈیاں والے یاد نہ آئیں تو اور کون یاد آئے۔ علامہ صاحب انڈوں کا کاروبار کرتے تھے۔ پورے نو بجے ان کی کھوکھا نما دکان پر انڈوں کے کریٹ اترتے تھے جنہیں وہ تھوک کے بھائو ایک گھنٹے میں فروخت کر کے دن بھر کے لیے فارغ ہو جاتے تھے۔ ایک وسیع تن و توش کے گورے چٹے کشمیری جن کے کان مہاتما بدھ کی مانند ذرا لٹکے ہوئے تھے۔ میرے ابا جی کے گہرے دوست تھے۔ تہبند کے ساتھ صرف نصف بازو کی بنیان اور وہ بھی کبھی کبھار جب ان کا دل ذرا خوش لباس ہونے کو چاہتا تھا زیب تن کرتے تھے ورنہ اپنی توند سہلاتے، انڈے فروخت کرنے کے بعد گوالمنڈی اور چیمبرلین روڈ پر چہل قدمی کرتے تھے۔ اکثر ابا جی کے پاس آ بیٹھتے۔ وہ ستاروں کا باقاعدہ علم جانتے تھے، ماہر نجوم اور ماہر فلکیات تھے۔ علاوہ ازیں مولوی حضرات سے سخت بغض رکھتے تھے۔ انہیں نیم جوانی میں ستاروں کا علم حاصل کرنے کا ایسا جنون ہوا کہ گھر سے بھاگ نکلے۔ ہندوستان بھر میں بھٹکتے پھرے اور پھر مدراس جا پہنچے جہاں ایک قدیم مندر کائناتوں اور کہکشائوں کے پرانے علوم کا گہوارہ تھا اور ان کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ اس درس گاہ میں صرف ہندوئوں کو ہی داخل ہونے کی اجازت تھی۔ علامہ صاحب نے اپنے آپ کو ہندو مذہب کی آگہی اور سنسکرت زبان سے شناسائی کے لیے تقریباً دو برس وقف کئے رکھا۔ مندر کے پروہتوں نے ان کا انٹرویو لیا اور فیصلہ دیا کہ پنجاب کا یہ لڑکا تو کیا ہی باکمال سراسر ہندو لڑکا ہے جو سنسکرت میں بھی شد بد رکھتا ہے اور انہیں داخلہ مل گیا۔ علامہ صاحب اس درس گاہ میں شاید دو برس تک زیر تعلیم رہے۔ بقول ان کے وہ باقاعدہ تلک لگا کر پوجا پاٹ میں شامل ہوتے۔ دیوتائوں کی شان میں سنسکرت میں بھجن گاتے، گھنٹیاں بجاتے، ڈفلیاں کھڑکاتے جھومتے جاتے۔ اور پھر اپنی کوٹھڑی میں جا کر دن بھر پانچوں نمازیں ادا کرتے اور توبہ استغفار کرتے کہ یااللہ علم مومن کی میراث ہے تو اگر یہ میراث ہندوئوں کے پاس ہے تو میں کیا کروں۔ مجھے معاف کردے۔ علامہ صاحب کی بقیہ حیات کے بارے میں مجھے کچھ علم نہیں کہ وہ کیا کرتے رہے۔ ابا جی سے پوچھتا تو وہ مسکرا کر کہتے۔ یہ تمہارے جاننے کی چیز نہیں ہے لیکن علامہ صاحب جیسا شرع کا پابند اور پرہیز گار شخص کم ہی ہوگا۔ ان کے بارے میں میرے پاس اور بھی کہانیاں ہیں لیکن میں اپنے آپ کو اس کالم کی خاطر محدود کرتا ہوں۔ وہ ہفتے کے دو مخصوص دنوں میں لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بھی بتاتے تھے۔ البتہ رمضان کے اختتام پر عید کے چاند کے مسئلے پر اختلافات کے بارے میں وہ طیش میں آ جاتے اور کہا کرتے تھے کہ ایسے لوگ منکر قرآن ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ یہ کائنات اور چاند ستارے ایک طے شدہ نظام کے تابع ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پتہ نہیں اس بار رمضان کے انتیس روزے ہوں گے یا تیس ہوں گے تو یہ انکار کرتے ہیں۔ یہ طے شدہ ہے کہ چاند کب طلوع ہوگا۔ چنانچہ ایک بار ایک ایسے ہی موقع پر انہوں نے طیش میں آ کر کہا، مجھے ایک کاغذ دو۔ میں نے سفید کاغذ پیش کردیا۔ انہوں نے ذرا سوچ بچار کے بعد اس پر کچھ تاریخیں رقم کیں اور کہنے لگے، میں نے اس پر درج کردیا ہے کہ اگلے دس برسوں میں عید کا چاند کب نکلے گا۔ اسے سنبھال لو اور چیک کرتے رہنا اور اس دوران اگر میں مر گیا اور میرا حساب غلط ثابت ہوا تو میری قبر پر جوتے مارنا۔ تقریباً چھ برس تک میں نے وہ حساب سنبھالے رکھا اور پھر وہ کاغذ ادھر ادھر ہو گیا لیکن مجھے علامہ صاحب کی قبر کی گوشمالی کرنے کی قطعی طورپر حاجت نہ ہوئی کہ چاند ہمیشہ ان کے حساب کے مطابق طلوع ہوا۔ اگرچہ ایک شرعی جواز یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ چاند ننگی آنکھ سے نظر آئے تب ہی گواہی معتبر ہوگی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب ان ہلال ماہرین کا اجتماع ہوتا ہے تو مفتی منیب کے علاوہ دیگر علمائے کرام دوربینوں کے ساتھ ایک آنکھ لگا کر چاند دیکھنے کی اداکاری کر رہے ہوتے ہیں تاکہ ٹیلی ویژن کیمرے براہ راست ریکارڈ کرسکیں کہ وہ امت کے لیے تحقیق اور جستجو کی کیسی کیسی جان لیوا منزلیں طے کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ رویت ہلال کمیٹی کو تحلیل کرکے ان حضرات کو بے کارکردیا جائے۔ وہ ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں دینیات اور فلکیات کے موضوع پر لیکچر دے کر مناسب معاوضہ حاصل کرسکتے ہیں۔ مجھے وہ سنہری زمانہ بھی یاد ہے جب ہمارے ہلال شناس علماء جہازوں میں سوار ہو کر چاند کا تعاقب کیا کرتے تھے۔ یعنی چندا رے چندا رے، کبھی تو زمین پر آ بیٹھیں گے، باتیں کریں گے۔ ویسے تو رویت ہلال کمیٹی پر جتنے اخراجات اٹھتے ہیں ان سے ہم ایک ذاتی آر ٹی فشل چاند تخلیق کرسکتے ہیں یعنی تو میرا چاند میں تیری چاندنی۔ یقین کیجئے اخراجات میں کمی کا یہ نادر نسخہ ہے اور اگر یہ تیر بہ ہدف نہ ہو تو۔ وہی جو ایان علی کی سزا وہ میری۔ اور دوسرا کروڑوں روپوں کی لاگت سے تخلیق کردہ وہ ادارہ۔ ایک سفید ہاتھی۔ ایک ایسا ہاتھی جو مہنگی طاقتور موٹرسائیکلوں پر آئرن مین ایسی ہیلمٹ پہن کر دن کے وقت بھی رنگ رنگ کی لائٹیں جلا کر بے وجہ شہر میں دندناتا پھرتا ہے۔ (جاری ہے)